مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک!

پاکستان کی صحافتی دنیا میں محترم الطاف حسن قریشی کی حیثیت منفرد، مسلّم اور ہر لحاظ سے معتبر ہے۔ آپ کے قلم نے کم و بیش پون صدی مسلسل جدوجہد کر کے ایک ایسااعزاز حاصل کیاہے جو کسی بھی زبان میں بہت محدود اہلِ قلم کے حصے میں آتا ہے۔ آپ کے لکھے ہوئے کالم، اداریے، مضامین اور ملکی و غیر ملکی شخصیات سے لیے ہوئے انٹرویوز ہزاروں صفحات پر مشتمل ہیں۔ الطاف صاحب کی تازہ کتاب میرے سامنے ہے۔ اس تاریخی دستاویز کے مضامین گزشتہ صدی کے آخری نصف میں مختلف ماہ و سال میں لکھے گئے تھے۔ ان مضامین کو ایقان حسن قریشی نے بڑے سلیقے سے مرتب کیا ہے۔ آپ کی یہ تصنیف ''مشرقی پاکستان، ٹوٹا ہوا تارا‘‘ کے نام سے منظرعام پر آئی ہے۔
کتاب کا انتساب بہت خوب صورت انداز میں دو شخصیتوں کے نام کیا گیا ہے۔ مصنف محترم اس ضمن میں تحریر فرماتے ہیں ''پاکستان کے مایۂ ناز قانون دان جناب اے کے بروہی کے نام! جنہوں نے میرے اندر مشرقی پاکستان جانے کا شوق پیدا کیا اور ڈھاکہ شہر کے سائیکل رکشا ڈرائیور چُنّوں میاں کے نام! جس نے مجھے مشرقی پاکستان کی روح قبض کر دینے والی غربت اور محرومیوں کا مشاہدہ کروایا‘‘۔
یہ ضخیم کتاب مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے حالات پر ایک انسائیکلوپیڈیا ہے جو بڑے سائز کے 14سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کو پڑھتے ہوئے قاری محسوس کرتا ہے کہ اس شاہکار مجموعے کا ہر مضمون بذات خود ایک تحقیقی مقالہ ہے۔ مصنف نے ہر جوبات لکھی ہے ہر پیمانے سے مستند ہے کیوں کہ یہ آنکھوں دیکھے واقعات اور کانوں سنے حقائق پر مشتمل ہے۔ کتاب کے تین حصے ہیں، پہلے حصے میں 35 مقالہ جات ہیں، دوسرے میں 20 اور تیسرے میں 18۔ یوں کل مضامین 78 ہیں۔ بیشتر مضامین ماہنامہ'' اردو ڈائجسٹ‘‘ اور ہفت روزہ ''زندگی‘‘ لاہور میں مختلف شماروں کی زینت بنتے رہے ہیں۔ ہر مضمون اپنی اشاعت کے وقت قارئین سے زبردست داد وصول کرتا رہا۔ خود مجھے زمانہ طالب علمی سے جناب الطاف حسن قریشی صاحب کی تحریروں سے بڑی اپنائیت محسوس ہوتی تھی۔ یہ تحریریں بلاشبہ ایسی معلومات اپنے قارئین تک پہنچاتی تھیں جو کسی گفتگو، تحریر یا بحث و مباحثہ میں ایک سند کا درجہ رکھتی تھیں۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ اب یہ ساری تحریریں ایک جگہ جمع ہو کر محققین کے لیے تحقیق کے کام میں مددگار ثابت ہوں گی۔
کتاب میں صرف بنگلہ دیش ہی کے حالات نہیں لکھے گئے بلکہ قیام پاکستان اور اس کے بعد کے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، مختلف سیاسی جماعتوں کی تخلیق، حکمرانوں اور سیاسی و مذہبی لیڈروں کے کھلواڑے‘ سبھی کا تذکرہ ہے۔ اس کتاب کے مضامین میں دنیا میں برپا ہونے والے مختلف انقلابات بالخصوص انقلابِ فرانس اور دیگر سرمایہ دارانہ و اشتراکی انقلابات کا بھرپور تعارف کرایا گیا ہے۔ انقلابِ فرانس کا اتنا تفصیلی تذکرہ ہے جو بذاتِ خود ایک کتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ نپولین، مسولینی، ہٹلر سے لے کر لینن، سٹالن اور دیگر کمیونسٹ لیڈروں کے حالات بھی جگہ جگہ کتاب کی زینت ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن کی فسطائیت اور دیگر سیاسی کرداروں کے مختلف کرتوت کا بھی دیانتدارانہ پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش تحریک جب زوروں پر تھی تو مصنف نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر مشرقی پاکستان کے مختلف شہروں میں کئی عناصر بالخصوص طلبہ اور نوجوانوں سے مکالمے کیے۔ زیادہ تر مکالمے چھ نکات کے حامی افراد سے ہوئے۔ ہر مکالمے کا تذکرہ پڑھتے ہوئے قاری تجسس میں ہوتا ہے کہ آگے کیا دھماکا ہو گا، مگر اللہ نے اس محب پاکستان کوہر خطرے سے محفوظ رکھا۔
الطاف صاحب نے اپنے مشاہدات میں ''مشرقی پاکستان کا سیاسی جائزہ‘‘ کے تحت لکھے گئے مضامین میں ایسے نوجوانوں کے واقعات لکھے ہیں جو شیخ مجیب الرحمن کے اندھے عقیدت مند تھے، مگر بعض واقعات نے ان کے دل کی کایا پلٹ دی۔ ایک طالب علم نے جیسور میں سیاسی لیڈر نورالامین کے جلسے کا تذکرہ کیا۔ یہ نوجوان کھلنا سے جیسور بھیجے گئے، ان کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ نورالامین کے جلسے پر پتھرائو کر کے اسے مکمل طور پر سبوتاژ کر دیں۔ اس نوجوان نے بتایا کہ پتھر برستے رہے اور نور الامین صاحب مہذب انداز میں امن کی اپیل کرتے رہے۔ میں نے بھی پتھر اٹھایا، مگر یہ خیال آیا کہ یہ شخص تو انتہائی شریف النفس معلوم ہوتا ہے جو میرے والد سے بھی زیادہ عمر کا ہے، اسے یوں پتھر مارنا کہاں کی شرافت ہے۔ بس اس موقع پر میرے دل نے فیصلہ کر لیا کہ میں عوامی لیگ کے طلبہ ونگ سے الگ ہو جائوں۔ اسی طرح کے اور کئی واقعات کتاب میں درج ہیں۔ (صفحات 595 تا 598)
31 مئی 1970ء کے یوم شوکت اسلام کا پس منظر، مختلف درپیش چیلنجز، رکاوٹیں اور پھر اس عظیم الشان پروگرام کی تفاصیل بھی کتاب کا حصہ ہیں۔ سید مودودیؒ کی قیادت میں اس دن کی کامیابی سے الطاف صاحب اور دیگر دائیں بازو کے اہلِ قلم کو بہت خوشی ہوئی اور انہوں نے اپنی تحریروں میں اس کا بھرپور اظہار کیا۔ بہت خوبی کی بات یہ تھی کہ جہاں اس دور کے سیاسی و احتجاجی جلسوں میں توڑ پھوڑ ہوتی تھی، ان کے بالکل برعکس اس عظیم الشان پروگرام میں ملک بھر کے اندر کہیں کوئی بدمزگی، لاقانونیت اور خون ریزی نہیں ہوئی۔ صفحہ 435 سے لے کر 454 تک اس تاریخی یوم کا دلچسپ اور ایمان افروز تذکرہ ہر شخص کے پڑھنے کی چیز ہے۔
شیخ مجیب الرحمن اور دیگر کرداروں، یحییٰ خان، بھٹو، بھاشانی، نور الامین، دولتانہ، عبدالقیوم خان، فضل القادر چودھری، پروفیسر غلام اعظم اور مولوی فرید احمد‘ غرض سب لیڈروں سے ملاقاتوں کے ذریعے ایسی معلومات جمع کی گئیں جو تاریخ کا ایک مستند حوالہ بن گئی ہیں۔ جب مکتی باہنی منظم ہو کر پاکستان کے حامی طلبہ اور شہریوں کو قتل کر رہی تھی تو اس وقت بھی محب وطن بنگالی پاکستانیوں نے شاندار کردار کا مظاہرہ کیا۔
1971ء کی جنگ اور اس میں البدر کے رضاکاروں کی یادگار قربانیاں، نیز پاک فوج کی تینوں فورسز کے کارناموں کا تذکرہ بھی محفوظ کیا گیا ہے۔ ایئرفورس کے نوعمر پائلٹ راشد منہاس شہید نے بیس سال کی عمر میں جس جرأت کے ساتھ دفاع وطن کے لیے اپنی جان قربان کی اس کی بدولت ہر پاکستانی آج کے دن تک اس سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتا ہے۔ ''راشد کی یہ تیسری تنہا پرواز تھی۔ وہ ٹرینر جیٹ طیارے میں سوار ہوئے ہی تھے کہ ان کا انسٹرکٹر سیفٹی فلائٹ آفیسر مطیع الرحمان خطرے کا سگنل دے کر کاک پٹ میں داخل ہو گیا اور طیارے کا رخ بھارت کی سرحد کی طرف موڑ دیا۔ راشد نے ماڑی پور کنٹرول ٹاور سے رابطہ قائم کیا تو انہیں ہدایت دی گئی کہ طیارے کو ہر قیمت پر اغوا ہونے سے بچایا جائے۔
اگلے پانچ منٹ راشد اور غدار انسٹرکٹر کے درمیان طیارے کے کنٹرو ل کے حصول کی کشمکش میں گزرے، مطیع الرحمان نے راشد منہاس سے طیارے کا کنٹرول حاصل کرنے کی پوری کوشش کی، لیکن راشد منہاس نے اس کو ناکام بنا دیا۔ مطیع الرحمان کی تجربہ کاری کی بنا پر جب راشد منہاس نے محسوس کیا کہ طیارے کو کسی محفوظ جگہ پر لینڈ کرانا ممکن نہیں تو انہوں نے آخری حربے کے طور پر جہاز کا رخ زمین کی طرف موڑ دیا اور طیارہ زمین سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں راشد منہاس اور مطیع الرحمان دونوں وفات پا گئے، لیکن ایک نے قابلِ رشک موت یعنی شہادت کا درجہ پایا اور تاریخ میں اپنا نام امر کر لیا جب کہ دوسرا غدار کہلایا۔ راشد منہاس کے اس عظیم کارنامے کے صلے میں انہیں سب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر دیا گیا۔راشد! ہم تمہاری یاد میں نشانِ حیدر کو ہمیشہ تروتازہ رکھیں گے‘‘۔
شیخ مجیب کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں کہ شیخ صاحب کی سیاسی زندگی کا آغاز ایک سیاسی غنڈے کی حیثیت سے ہوا اور یہ رنگ ان پہ ہمیشہ غالب رہا۔ 1957ء میں نیپ کا افتتاحی اجلاس ڈھاکہ میں ہوا، تو اسے درہم برہم کرنے والے شیخ صاحب کے پلے ہوئے غنڈے تھے۔ یہ بات روزنامہ 'ٹائمز‘ کے نامہ نگار مسٹر انتھونی نے وضاحت سے لکھی ہے۔ پھر جنوری 1970ء میں پلٹن میدان کا وہ منظر کسے یاد نہیں جب جماعت اسلامی کے جلسے پہ مسلح غنڈوں نے حملہ کیا اور صحت مند سیاسی عمل کے سارے راستے روک دیے۔ اس طرزِ عمل سے احتجاج شیخ صاحب کی سیاست کا بنیادی پتھر بن گیا۔ قائداعظم کے خلاف احتجاج، 1956ء کے دستور کے خلاف احتجاج، مسلم قومیت کے خلاف احتجاج، مرکز کے خلاف احتجاج اور متحدہ پاکستان کے آخری دور میں رائونڈ ٹیبل کانفرنس کی شکست و ریخت کی تمام تر ذمہ داری اسی احتجاجی رویے پہ آتی تھی۔ (صفحہ 1244 تا 1245) اس کے بعد اسی مضمون میں شیخ مجیب الرحمن کا عبرت ناک انجام اور اپنے گھر کے اندر بے بسی کے ساتھ ان کے قتل کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ (ص: 1245)
مصنف نے بھٹو مرحوم کے آمرانہ دورِ حکومت کا بھی کچا چٹھا بیان کیا ہے۔ مجیب کی طرح تو نہیں مگر بھٹو صاحب بھی غیر فطری موت سے دوچار ہوئے۔ بھٹو دور میں مصنف کافی عرصہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے، مگر قلم کی روانی میں کوئی فرق نہ آیا۔ بلاشبہ ہمارے اس بزرگ دانشور کی قلمی اور علمی کاوشیں ہمیشہ قدردانوں سے خراجِ عقیدت وصول کرتی رہیں گی۔ 91سال کی عمر میں بھی ماہنامہ ''اردو ڈائجسٹ‘‘ اور ہر ہفتے کالم اور ہر مہینے آپ جو علمی مضامین تحریر فرماتے ہیں، وہ ایک نادر مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو صحت و عافیت کے ساتھ سلامت رکھے، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں