تحویلِ قبلہ کا عظیم واقعہ

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ پہنچے تو آغاز میں آپﷺ قبلۂ اول (بیت المقدس) کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے۔ اس وقت تک یہی اہلِ ایمان کا قبلہ تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ معظمہ میں اس بات کا اہتمام فرماتے کہ نماز کے وقت خانہ کعبہ کے جنوب کی طرف رکنِ یمانی اور حجرِ اسود کے درمیان والے حصے میں کھڑے ہو کر نماز پڑھیں۔ آپﷺ کا رخ شمال کی طرف ہوتا تو خانہ کعبہ بھی آپﷺ کے سامنے ہوتا اور بیت المقدس بھی۔ مکہ سے ہجرت کرکے جب مدینہ تشریف لائے تو مکہ جنوب میں تھا اور بیت المقدس شمال میں۔ اب آپﷺ نماز کے لیے قبلہ رخ ہوتے تو فطری طور پر خانہ کعبہ آپﷺ کی پشت پر ہوتا۔ آپﷺ کو یہ بات ناگوار گزرتی کہ خانہ کعبہ کی طرف پیٹھ کرکے نماز پڑھی جائے۔ آپﷺ بار بار آسمان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحویلِ قبلہ کا حکم آجائے۔ (السیرۃ الحلبیہ، جلد: 2، ص: 177 تا 178 ۔ سیرۃ ابن ہشام، ص: 606)
رجب یا شعبان 2 ہجری میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی کے ذریعے تحویلِ قبلہ کا حکم ملا۔ اس لحاظ سے یہ مدت سولہ ماہ بنتی ہے، کیونکہ آپﷺ نے ماہِ ربیع الاول (13 نبوی) میں مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ تحویلِ قبلہ کا حکم ایسے وقت میں آیا جبکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو حارثہ سے تعلق رکھنے والے ایک انصاری صحابی کے گھر میں نماز پڑھا رہے تھے۔ آپﷺ بنی سلمہ میں حضرت اُم بشرؓ کے گھر میں گئے تو اُمِ بشرؓ نے آپﷺ اور آپ کے صحابہؓ کے لیے کھانا تیار کیا، یہ ظہر کاوقت تھا۔ حضرت بشرؓ بن البراء بن معرور بھی صحابی ہیں اور ان کے والد حضرت براءؓ اور والدہ ام بشرؓ بھی صحابہ کی پاکیزہ جماعت میں شامل ہیں۔
ان کے گھر میں آپﷺ نماز کی دو رکعت پڑھا چکے تھے کہ تحویلِ قبلہ کا حکم آگیا، اسی وقت آپﷺ نے نماز کے دوران اپنا رخ تبدیل کیا اور پچھلی صف کے آگے جا کر جنوب کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوگئے۔ تمام صحابہ کرام نے بھی آپﷺ کی اتباع میں صفوں میں کھڑے کھڑے اپنا رخ جنوب کی طرف موڑ لیا۔ اس جگہ آج وہ مسجد بنی ہوئی ہے، جس کو مسجد قبلتین کہتے ہیں۔ اس تاریخی واقعہ کوکئی شعرا نے بھی اپنے اشعار کا حصہ بنایا ہے۔ ایک شاعر کہتا ہے:
کم للنبي المصطفی من آیۃ
غراء حار الفکر فی معناھا
نبی مصطفیﷺ کے معجزات کو کون شمار کرسکتا ہے، ہر ایک معجزہ چمک رہا ہے، بامعنی ہے اور فکر انگیز بھی۔
لما رأی الباري تقلب وجھہ
ولاہ أیمن قبلۃ یرضاھا
جب خالقِ باری تعالیٰ نے آپﷺ کا چہرہ اوپر کی طرف اٹھا ہوا دیکھا تو آپﷺ کے لیے آپ کا پسندیدہ قبلہ مقرر فرما دیا۔ (ایضاً، ص: 178 تا 179)۔
ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں سولہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے، جبکہ آپﷺ کی بڑی خواہش تھی کہ آپ اور آپ کی امت کا قبلہ خانہ کعبہ کو قرار دیا جائے۔ اس دوران ایک بار جبریل علیہ السلام جب آپﷺ کے پاس آئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے جبریل! میری یہ خواہش ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ میرا رخ یہود کے قبلے سے تبدیل کرکے بیت اللہ کی طرف پھیر دے۔ جواب میں جبریل علیہ السلام نے کہا کہ میں تو اللہ کا بندہ ہوں، فیصلہ تو اللہ کے اپنے ہاتھ میں ہے؛ پس آپ اپنے رب سے دعا مانگیں اور اپنی تمنا اس کے سامنے پیش کریں۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد حضرت جبریل آپﷺ کی طرف وحی لے کر آئے، جس میں تحویلِ قبلہ کا حکم آگیا۔ تحویلِ قبلہ حضرت اُمِ بشرؓ کے گھر میں ہوئی اور ان کے خاوند‘ حضرت ابو بشر البراء بن معرورؓ کہا کرتے تھے کہ خدا گواہ ہے کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہ نماز پڑھی، جس کے آغاز میں قبلہ بیت المقدس تھا لیکن جس کے انجام پر بیت اللہ قبلہ بن چکا تھا۔ (طبقات ابن سعد، مجلد الاول، ص: 241 تا 242)
سید مودودیؒ تحویلِ قبلہ کی تفصیل میں بیان فرماتے ہیں ''یہ حکم رجب یا شعبان سنہ 2 ہجری میں نازل ہوا۔ حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ بنی سلمہ میں یہ اطلاع دوسرے روز صبح کی نماز کے وقت پہنچی۔ لوگ ایک رکعت پڑھ چکے تھے کہ ان کے کانوں میں آواز پڑی: ''خبردار ہو، قبلہ بدل کر کعبے کی طرف کر دیا گیا ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی پوری جماعت نے اپنا رُخ بدل دیا۔
خیال رہے کہ بیت المقدس مدینے سے عین شمال میں ہے اور خانہ کعبہ بالکل جنوب میں۔ نماز باجماعت پڑھتے ہوئے قبلہ تبدیل کرنے میں لامحالہ امام کو چل کر مقتدیوں کے پیچھے آنا پڑا ہوگا اور مقتدیوں کو صرف رُخ ہی نہ بدلنا پڑا ہوگا، بلکہ کچھ نہ کچھ انہیں بھی چل کر اپنی صفیں درست کرنی پڑی ہوں گی؛ چنانچہ بعض روایات میں یہی تفصیل مذکور بھی ہے۔
اور یہ جو فرمایا کہ ''ہم تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اُٹھنا دیکھ رہے ہیں‘‘ اور یہ کہ ''ہم اسی قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو‘‘، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تحویلِ قبلہ کا حکم آنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے منتظر تھے۔ آپﷺ خود یہ محسوس فرما رہے تھے کہ بنی اسرائیل کی امامت کا دور ختم ہوچکا ہے اور اس کے ساتھ بیت المقدس کی مرکزیت بھی رخصت ہوئی۔ اب اصل مرکزِ ابراہیمی کی طرف رُخ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ (تفہیم القرآن، جلد اول، حاشیہ 146، صفحہ 121 تا 122)
تحویلِ قبلہ پر یہودیوں نے بہت شور مچایا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ سفہا تحویلِ قبلہ پر ناک بھوں چڑھائیں گے بلکہ اس کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیں گے۔ اے نبی! آپ ان کی فکر نہ کریں، ان دشمنانِ اسلام کو خود قرآن نے جواب دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''نادان لوگ ضرور کہیں گے، انہیں کیا ہوا کہ پہلے یہ جس قبلے کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھتے تھے، اس سے یکایک پھر گئے؟ اے نبی! ان سے کہو: ''مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ اللہ جسے چاہتا ہے، سیدھی راہ دکھا دیتا ہے‘‘۔ اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ''امتِ وسط‘‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ پہلے جس طرف تم رخ کرتے تھے، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے قبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون اُلٹا پھر جاتا ہے۔ یہ معاملہ تھا تو بڑا سخت، مگر اُن لوگوں کے لیے کچھ بھی سخت نہ ثابت ہوا جو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے۔ اللہ تمہارے اِ س ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا، یقین جانو کہ وہ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق و رحیم ہے‘‘۔ (البقرۃ: 142 تا 143)
مدینہ منورہ میں تو اسی روز صحابہ کرام کو اطلاع مل گئی کہ تحویلِ قبلہ کا حکم آگیا ہے، جس روز یہ آیات نازل ہوئیں۔ البتہ قباء میں دوسرے روز یہ اطلاع پہنچ سکی اور اہلِ قباء بھی بہت خوش ہوئے۔ اگلے دن ظہر کی نماز انہوں نے بیت اللہ کی طرف منہ کرکے پڑھی۔ صحیحین کی روایت کے مطابق فجر کی نماز باجماعت ہو رہی تھی کہ مسجد قباء کے باہر کسی شخص نے آکر نمازیوں کو بلند آواز سے مطلع کیا کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس سے قبلہ بیت اللہ کی طرف تبدیل کر دیا ہے ۔ فجر کی اس نماز میں بھی امام اور مقتدیوں نے دورانِ نماز ہی اپنا رخ شمال سے جنوب کی طرف پھیر لیا۔ (البدایۃ والنہایۃ، مجلد الاول، صفحہ:606)
حضرت عائشہ صدیقہؓ کی بیان کردہ ایک حدیث امام احمدؒ نے اپنی مسند میں لکھی ہے، وہ روایت کرتی ہیں: ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اہلِ کتاب ہم سے حسد تو کرتے ہیں، مگر سب سے زیادہ تکلیف انہیں اس روز ہوئی جب ہم نے جمعہ کے دن نمازِ جمعہ کا آغاز کیا۔ ان کے نزدیک تو سبت کے علاوہ ہفتے کا کوئی دن ایسا نہیں، جسے اس طرح کی اجتماعی عبادت کے لیے مختص کیا جائے۔ دوسری مرتبہ انہیں اس روز اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچی اور ان کا حسد شعلوں کی طرح بھڑک اٹھا‘ جب اللہ نے ہمارے لیے تحویلِ قبلہ کی آیات نازل فرمائیں۔ وہ جس بات سے بھٹک گئے تھے، اللہ نے ہمیں اس میں راہ راست دکھائی‘‘۔ (البدایۃ والنہایۃ، مجلد الاول، صفحہ 607)
تحویلِ قبلہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ایک تو سیدنا ابراہیم علیہ السلام‘ جو بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کے جدِ امجد ہیں‘ کا قبلہ بیت اللہ ہی تھا۔ دوسرا‘ یہ پہلا گھر ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنایا گیا۔ روایات کے مطابق یہاں حضرت آدم علیہ السلام نے بھی اللہ کا گھر بنایا تھا جو مرورِ زمانہ سے معدوم ہوگیا مگر اس کی بنیادیں موجود رہیں۔ اسی پر خانہ کعبہ تعمیر ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان بنیادوں کا پتا حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعے دیااور حکم ہوا کہ انہی بنیادوں پر بیت اللہ کی تعمیر کی جائے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں