اہلِ ایمان حج کی طرح ماہِ رمضان میں عمرے کے لیے بھی لاکھوں کی تعداد میں حرمین شریفین میں رونق افروز ہوتے ہیں۔ ایک بندۂ مومن جہاں مقدس مقامات پر حاضری دیتا ہے تو وہیں پوری تاریخ اس کے سامنے تازہ ہوجاتی ہے۔ اپنے تصور میں وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کو طواف کرتے ہوئے اور نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا ہے۔ فرطِ جذبات سے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور دل جذبۂ تشکر سے مالا مال ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے راقم الحروف کو کئی بار سعادت بخشی کہ ماہِ رمضان حرمین شریفین میں گزار سکوں۔ جب بھی رمضان آتا ہے تو وہ مناظر آنکھوں کے سامنے تازہ ہوجاتے ہیں۔ اس کیفیت کو محسوس کیا جاسکتا ہے، الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
قرآنِ مجید میں ارشاد ہے: إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا وَّہُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ فِیْہِ اٰیٰتٌم بَیِّـنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاہِیْمَ وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا وَّلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا وَّمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللہ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْن۔ (آلِ عمران: 96 تا 97)
''بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی ہے وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیروبرکت دی گئی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں، ابراہیم کا مقامِ عبادت ہے اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہوگیا۔ لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جو کوئی اس حکم کی پیروی کرنے سے انکار کرے تو اسے معلوم ہوجانا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔
خانہ کعبہ کی تعمیرِ اول حضرت آدم علیہ السلام نے کی تھی۔ مرورِ زمانہ سے یہ عمارت منہدم ہوگئی تو اس کی تعمیرنَو کی ذمہ داری حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سپرد ہوئی۔ روایات میں آتا ہے کہ جبریل امین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وہ بنیادیں دکھائیں جن پر حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ کے گھر کی عمارت اٹھائی تھی۔ بنیادوں کے آثار دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہت خوشی ہوئی۔ پھر دونوں باپ بیٹے نے اس گھر کی تعمیر کی‘ جس کا تذکرہ قرآنِ مجید میں کئی جگہ پر آیا ہے۔ اس اولین عبادت گاہ کو اللہ کی حفاظت حاصل ہے۔ اس کے دشمن ہمیشہ ناکام ونامراد ہوتے رہے ہیں۔ اللہ خود اس کا محافظ ہے اور اللہ والے بھی اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے ہمیشہ سربکف رہے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے اسی جذبۂ ایمانی کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنے مشہور ملی ترانے میں کیا خوب فرمایا:
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا
اے ارض پاک! تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم
ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا
سالارِ کارواں ہے میرِ حجازؐ اپنا
اس نام سے ہے باقی آرامِ جاں ہمارا
(کلیاتِ اقبال، ترانۂ ملی)
بیت المقدس کب قبلہ بنا، اس بارے میں مختلف روایات ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کے وقت ہی سے اسے بھی قبلے کا درجہ دے دیا گیا تھا، جبکہ اکثر کی رائے یہ ہے کہ بیت المقدس کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں قبلہ بنایاگیا۔ ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کو اس کی دلیل میں پیش کیا جاتا ہے۔ اگر پہلی رائے قبول کی جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ بنی اسرائیل کے لیے قبلہ بیت المقدس کو قرار دیا گیا جبکہ بنی اسماعیل کے لیے بیت اللہ مرکز قرار پایا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بعثت کے وقت تمام انسانیت کے لیے بیت المقدس قبلہ مقرر ہوگیا۔ اب جبکہ سید الانبیاء مبعوث ہوگئے تو اولین قبلہ یعنی خانہ کعبہ کو قبلہ عالم بنایا گیا۔ تحویلِ قبلہ کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ بنی اسرائیل قیادت و امامت کے منصب سے معزول کردیے گئے ہیں۔ اب امامت قیامت کے دن تک محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہے اور آپﷺ کی نیابت میں آپ کی امت اس منصب پر فائز ہے۔ اسی لیے اس سلسلۂ آیات میں ہمیں امتِ وسط قرار دیا گیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ ہم شہداء علی الناس کا فرض ادا کریں۔ یہ کام انبیاء کرام کا تھا، اب نبوت کا سلسلہ مکمل ہونے پر خاتم النبیین کے بعد کوئی نبی‘ رسول اور شارع نہیں آئے گا۔ آپﷺ کی شریعت قیامت کے دن تک کے لیے اللہ تعالیٰ کی منظور کر دہ شریعت ہے اور آپﷺ کی امت اس کی حامل، امین اور محافظ ہے۔
مولانا مودودیؒ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں: یہ امتِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت کا اعلان ہے‘ دراصل بیت المقدس سے کعبے کی طرف سمتِ قبلہ کا پھرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو دنیا کی پیشوائی کے منصب سے باضابطہ معزول کیا اور اُمتِ محمدیہ کو اس پر فائز کر دیا۔ ''امتِ وسط‘‘ کا لفظ اس قدر وسیع معنویت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کسی دوسرے لفظ سے اس کے ترجمے کا حق ادا نہیں کیا جاسکتا۔ اس سے مراد ایک ایسا اعلیٰ اور اشرف گروہ ہے، جو عدل و انصاف اور توسط کی روش پر قائم ہو، جو دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو، جس کا تعلق سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہو اور ناحق، ناروا تعلق کسی سے نہ ہو۔
پھر یہ جو فرمایا کہ تمہیں ''امتِ وسط‘‘ اس لیے بنایا گیا ہے کہ ''تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو‘‘، تو اس سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں جب پوری نوعِ انسانی کا اکٹھا حساب لیا جائے گا، اس وقت رسولﷺ ہمارے ذمہ دار نمائندے کی حیثیت سے تم پر گواہی دیں گے کہ فکرِ صحیح اور عملِ صالح اور نظامِ عدل کی جو تعلیم ہم نے اسے دی تھی، وہ رسول نے تم کو بے کم و کاست پوری کی پوری پہنچا دی اور عملاً اس کے مطابق کام کرکے دکھا دیا۔ اس کے بعد رسول کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے تم کو عام انسانوں پر گواہ کی حیثیت سے اُٹھنا ہوگا اور یہ شہادت دینی ہوگی کہ رسول نے جو کچھ تمہیں پہنچایا تھا، وہ تم نے انہیں پہنچانے میں، اور جو کچھ رسول نے تمہیں دکھایا تھا وہ تم نے انہیں دکھانے میں اپنی حد تک کوئی کوتاہی نہیں کی۔
اس طرح کسی شخص یا گروہ کا اس دنیا میں خدا کی طرف سے گواہی کے منصب پر مامور ہونا ہی درحقیقت اس کا امامت اور پیشوائی کے مقام پر سرفراز کیا جانا ہے۔ اس میں جہاں فضیلت اور سرفرازی ہے وہیں ذمہ داری کا بہت بڑا بار بھی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس امت کے لیے خدا ترسی، راست روی، عدالت اور حق پرستی کی زندہ شہادت بنے، اسی طرح اس امت کو بھی تمام دنیا کے لیے زندہ شہادت بننا چاہیے، حتیٰ کہ اس کے قول اور عمل اور برتاؤ، ہر چیز کو دیکھ کر دنیا کو معلوم ہو کہ خدا ترسی اس کا نام ہے، راست روی یہ ہے، عدالت اس کو کہتے ہیں اور حق پرستی ایسی ہوتی ہے۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح خدا کی ہدایت ہم تک پہنچانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذمہ داری بڑی سخت تھی، حتیٰ کہ اگر وہ اس میں ذرا سی کوتاہی بھی کرتے تو خدا کے ہاں ماخوذ ہوتے، اُسی طرح دنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی نہایت سخت ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔
اگر ہم خدا کی عدالت میں واقعی اس بات کی شہادت نہ دے سکے کہ ہم نے تیری ہدایت، جو تیرے رسول کے ذریعے سے ہمیں پہنچی تھی، تیرے بندوں تک پہنچا دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے، تو ہم بہت بُری طرح پکڑے جائیں گے اور یہی امامت کا فخر ہمیں وہاں لے ڈوبے گا۔ ہماری امامت کے دور میں ہماری واقعی کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گمراہیاں دُنیا میں پھیلی ہیں اور جتنے فساد اور فتنے خدا کی زمین میں برپا ہوئے ہیں، ان سب کے لیے ائمۂ شر اور شیاطینِ انس و جن کے ساتھ ساتھ ہم بھی ماخوذ ہوں گے۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب دنیا میں معصیت، ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا، تو تم کہاں مر گئے تھے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد اول، حاشیہ: 144، ص: 120)
آج ہماری حالت انتہائی عبرت انگیز ہے۔ سید مرحوم نے جس طرح دردِ دل کے ساتھ امت کا نقشہ کھینچا ہے، وہ ہر بندۂ مومن کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آج عوام اور حکمران، عامی اور عالم سبھی کا حال پتلا ہے۔ ہماری منزل بھی متعین ہے اور راستے کے سنگ ہائے میل بھی ، مگر نہ کوئی رہبر ہے، نہ پُرجوش کارواں! بقول اقبال:
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
آہ! وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
تیرے محیط میں کہیں گوہرِ زندگی نہیں
سیرتِ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اصلی پیغام یہی ہے کہ ہم اپنا جائزہ لیں، محاسبہ کریں اور خود کو سیرت پاک کے سانچے میں ڈھالنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔ دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی عزت وسرفرازی اتباعِ رسولِ رحمتؐ کے بغیر ناممکن ہے اور آخرت کی دائمی زندگی میں بھی اسوۂ مصطفی کی مکمل پیروی اور غیرمشروط اطاعت ہی نجات سے ہم کنار کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔
بمصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است!