دوزخ سے خلاصی کا عشرہ!

ماہِ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا ''عتق من النار‘‘ یعنی دوزخ سے خلاصی پانے کا عشرہ ہے۔ آخری عشرہ آگیا ہے۔ اللہ کے وہ بندے کس قدر خوش بخت ہیں جو دن اور رات، ہرگھڑی اپنا دامن نیکیوں سے بھرتے رہتے ہیں! ماہِ رمضان کے دوران دوزخ کی آگ سے نجات پالیتے ہیں اور جنت کے مستحق ہوجاتے ہیں۔
نبی اکرمﷺ عام دنوں میں بھی عبادت کا بڑا اہتمام فرمایا کرتے تھے مگر رمضان المبارک میں تو شان ہی نرالی ہوتی تھی۔ شعبان ہی میں کمرِ ہمت باندھ لیتے اور رمضان کی آمد کے ساتھ نیکیوں میں یوں مشغول ہو جاتے جیسے تند و تیز ہوا چلنے لگتی ہے۔ پھررمضان کا آخری عشرہ تو بالخصوص آپﷺ کے انہماک و وارفتگی کی ایسی تصویر پیش کرتا کہ سبحان اللہ! حضرت عائشہ صدیقہؓ کی زبانی امام مسلم نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ رمضان کے آخری عشرے میں عبادتِ الٰہی میں جس قدر محنت و مشقت فرمایا کرتے تھے،اس کی مثال کسی اور زمانے اور ایام میں نہیں ملتی۔
اس مہینے میں اعتکاف اور لیلۃ القدر کی تلاش اتنا عظیم عمل ہے کہ آنحضورﷺ نے اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان مواقع پر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر فخرکرتا ہے۔ امام بیہقی نے حضرت انس بن مالکؓ کی روایت نقل کی ہے جس کا ترجمہ یوں ہے: ''رسول اللہﷺ نے فرمایا:جب لیلۃ القدر ہوتی ہے تو جبریل ؑ ملائکہ کے ایک جھرمٹ میں (زمین پر) اترتے ہیں اور ہر اس بندے کے لیے دعا کرتے ہیں جو اس وقت کھڑاہوا یا بیٹھا ہوا اللہ عزوجل کا ذکر کر رہا ہو(جاگ رہا ہو اور عبادت کر رہاہو)،پھر عیدالفطر کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے ملائکہ کے سامنے فخر کرتا ہے اور انہیں مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو!اس اجیر (مزدور)کی جزا کیا ہے جس نے اپنے ذمے کا کام پورا کردیا۔فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اس کی مزدوری اسے پوری پوری دے دی جائے‘‘۔ اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ اے میرے ملائکہ ! میرے ان بندوں نے اپنا وہ فرض ادا کردیا جو میں نے ان پر عائد کیا تھا۔پھر اب یہ گھروں سے(عید کی نماز ادا کرنے اور)مجھ سے گڑگڑا کر مانگنے کے لیے نکلے ہیں اور میری عزت اور میرے جلال کی ،اور میرے کرم اور میری علوِّشان کی،اور میری بلند مقامی کی قسم ہے کہ میں ان کی دعائیں ضرور قبول کروںگا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے:جائو میں نے تمہیں معاف کردیا اور تمہاری برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دیا۔حضور کریمﷺ نے فرمایا کہ پھر وہ اس حالت میں پلٹتے ہیں کہ انہیں معاف کر دیا جاتا ہے‘‘۔ (سنن بیہقی )
سید مودودیؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں : ''اللہ تعالیٰ سال کے سال اپنے مومن بندوں کے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہے کیونکہ انہوں نے رمضان کے روزے رکھے اور لیلۃ القدر کی تلاش میں راتوں کو عبادت کرتے رہے۔ پھر عید کے روز نماز کے لیے نکلے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اس کے ہاں سے مغفرت اور مہربانیاں حاصل کرکے پلٹتے ہیں‘‘۔ (کتاب الصوم، ص: 266)
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف رسول اللہﷺ کی سنت مؤکدہ ہے۔ آپﷺ نے ایک سال کے سوا ہمیشہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ اعتکاف میں گزارا۔ ایک سال آپﷺ جہاد پر نکل جانے کی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے اور اگلے سال آپﷺ نے دس کے بجائے بیس روز کا اعتکاف فرمایا۔اتفاق سے یہی حضورﷺ کا آخری اعتکاف تھا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج پاکستان میں لاکھوں مرد مساجد میں اور ہزاروں خواتین اپنے گھروں میں اعتکاف میں بیٹھیں گی۔ پوری دنیا میں کروڑوں افراد اس سعادت سے اپنا دامن بھریں گے۔ خوش نصیب ہیں وہ اہلِ ایمان، مرد وخواتین جو اعتکاف کی روح کے مطابق اپنا وقت گزار یں گے۔
رمضان المبارک کا مہینہ ہر سال ہمارے اوپر سایہ فگن ہوتاہے۔اس میں امت مسلمہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت سے لیلۃ القدر کی نعمتِ عظمیٰ مقدر کر رکھی ہے۔ اس کی تلاش پورے رمضان المبارک میں ہونی چاہیے مگر آخری عشرہ خصوصی توجہ کا مستحق ہے۔جو مسلمان بھی اعتکاف کر سکتا ہو اُسے اپنا دامن بھرنے کے لیے ضرور اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ مردوں کے اعتکاف کے لیے لازمی شرط ہے کہ وہ اس مسجد میں اعتکاف کریں جس میں پانچ وقتہ نماز باجماعت کا مستقل اہتمام ہو۔ محلے کے لوگوں میں سے کوئی ایک بھی اعتکاف میں نہ بیٹھے تو محلے کے سب مسلمان گناہ گار ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ایک شخص اعتکاف میں بیٹھ جائے تو ثواب تو اسی کو ملے گا، لیکن اہلِ محلہ گناہ اور عذاب سے بچ جائیں گے۔ اعتکاف کے دوران موبائل فون کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ اعتکاف میں اپنے موبائل پر مختلف عزیزواقارب اور احباب سے گپ شپ لگا رہے ہوتے ہیں۔ یہ انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ البتہ موبائل فون میں قرآن پاک اور مسنون دعائیں ریکارڈ ہوں، ان کو پڑھنے کے لیے موبائل استعمال کیا جاسکتا ہے۔
آپ دس روز اعتکاف نہ بھی کرسکیں تو مسجد میں کچھ دیر کے لیے بھی اعتکاف کی نیت سے بیٹھ سکتے ہیں۔ یہ معروف معنوں کے دس روزہ اعتکاف کے علاوہ ایک مستحب عمل ہے۔ بہرحال مطلوب تو یہی ہے کہ آپ اعتکاف میں دس روز لگائیں۔یہی مسنون اعتکاف ہے۔یہ اعتکاف اجتماعی ہو تو اس کے نتائج و ثمرات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔یہ بات قابلِ ترجیح ہے کہ اپنے محلے یا بستی کی مسجد میں آپ اعتکاف کریں۔اعتکاف کیلئے اپنے ساتھی پہلے سے تلاش کرلیجیے۔ جو ساتھی آپ کی نظرمیں ہیں اور جن کو آپ دینِ حق کا کارکن اور ہم سفر بنانا چاہتے ہیں ان سے رابطہ کر لیجیے۔اعتکاف کے دس دنوں میں آپ اپنے اندر جتنا ذہنی انقلاب برپا کر سکتے ہیں شاید پورے سال میں اتنا ممکن نہ ہو۔
اعتکاف کے دوران دنیوی باتوں اور دلچسپیوں سے مکمل اجتناب کیجیے۔ اعتکاف سنت کے عین مطابق ہونا چاہیے۔ معتکفانتہائی اشد ضرورت کے تحت اپنے معتکَف (اعتکاف کے لیے مختص گوشہ) سے باہر نکل سکتا ہے مثلاً قضائے حاجت اور وضو وغیرہ کے لیے یا غسل واجب ہو جائے تو غسل کیلئے۔ اگر کوئی شخص کھانا پہنچانے والا نہ ہو تو کھانا لانے کیلئے جا سکتا ہے مگر کسی سے کوئی غیر ضروری بات وغیرہ نہیں کرسکتا۔ یہ سارا عرصہ ذکروفکر،نفل و عبادت،مطالعہ و تلاوت، تعلیم و تعلّم اور خیر و بھلائی کے لیے وقف کردینا چاہیے ۔سہولت کے مطابق پورے چوبیس گھنٹے کا ٹائم ٹیبل پہلے سے ہی بنا لینا چاہیے۔ دورانِ اعتکاف اس میں ردوبدل کرنا پڑے تو بھی مضائقہ نہیں۔ اعتکاف کو محض استراحت اور نیند کا ذریعہ نہ بنائیے۔اس کے دوران خیر و برکت سے اپنا دامن بھرنے کی فکر کیجیے۔
لیلۃ القدر کی تلاش میں راتوں کو بیشتر حصہ عبادت اور تلاوت میں گزاریے۔دل میں یقین رکھیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے آپ کو لیلۃ القدر کی نعمت عطا فرمائے گا۔ لیلۃ القدر نصیب ہوجائے تو سنت کے مطابق خوب دعائیں کیجیے۔خصوصاً اللہ سے عفو و درگزر اور دوزخ سے نجات کی التجا کیجیے۔ کشمیر وفلسطین ، بھارت ومیانمار اور دیگر علاقوں کے ان مظلوم مسلمانوں کو جو آج ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور ان کا کوئی والی وارث نہیں ہے، ضرور اپنی دعاؤں میں یارکھیے۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے آنحضورﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہﷺ! مجھے لیلۃ القدر نصیب ہوجائے تو کیا دعامانگوں؟ آپﷺ نے فرمایا : اللّٰہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی۔ (مسنداحمد) اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے معاف کردینا تجھے محبوب ہے پس مجھے بھی معاف فرمادیجیے۔
یہ بہت جامع دعا ہے۔ لیلۃ القدر کے علاوہ بھی بندۂ مومن کو اسے مستقل معمول بنا لینا چاہیے۔
خواتین بھی اعتکاف کرسکتی ہیں۔ ان کا اعتکاف گھروں میں ہوتا ہے۔ اپنے حالات کے مطابق اپنے گھروں میں دوران اعتکاف جن باتوں کے اہتمام کا تذکرہ بالائی سطور میں ہوا ہے، خواتین کوانہی پر عمل کرناچاہیے۔ اگر خواتین کا کوئی اسلامی ادارہ یا مرکز ہو اور وہ وہاں مقیم ہوں تو وہ بھی اجتماعی اعتکاف کرسکتی ہیں اور اس میںکوئی مضائقہ نہیں؛ تاہم خاتون کا بہترین اعتکاف اس کے اپنے گھر ہی میں ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ازواجِ مطہراتؓ کا اعتکاف بہترین مثال ہے۔
ازواجِ مطہراتؓ کا اعتکاف مسجد نبوی میں نہیں بلکہ اپنے حجروں میں ہی ہوتا تھا۔ تمام ازواجِ مطہرات کے حجرے مسجد نبوی کے ساتھ ملحق تھے اور ہر ایک کا دروازہ مسجد کے اندر کھلتا تھا۔ نبی کریمﷺ ازواجِ مطہراتؓ میں سے جس کے ہاں بھی قیام رکھتے تھے وہاں سے آپﷺ مسجد کے اندر تشریف لاتے تھے۔ چونکہ یہ حجرے مسجد سے متصل تھے اس لیے ازواجِ مطہراتؓ کو مسجد کے اندر آنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ویسے بھی عورتوں کا اعتکاف مسجد میں نہیں ہوتا، بلکہ گھروں ہی میں ہوتا ہے۔ اس لیے ازواجِ مطہراتؓ بھی رمضان کے آخری عشرے میں اپنے اپنے حجروں میں اعتکاف کرتی رہیں۔ اعتکاف مرد کا ہو یا عورت کا،اس میں روزہ ضروری شرط ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں