موت ہے ہنگامہ آرا قلزمِ خاموش میں
ڈُوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں
اس دنیا میں جو بھی آیا ہے‘ اسے اپنے مقررہ وقت پر یہاں سے چلے جانا ہے۔ 29جون 2023ء بروز جمعرات‘ عیدالاضحی کے مبارک دن میری اہلیہ امِ ہارون اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہو گئیں۔ پندرہ دن بعد میرا بھانجا ذوالکفل 33 سال کی عمر میں اپنے ڈیڑھ سالہ بیٹے زکریا، نوجوان اہلیہ اور بوڑھے باپ میاں عبدالماجد کو غم زدہ چھوڑ کر داغِ مفارقت دے گیا۔ اس جواں مرگ سانحہ پر ہمارے خاندان کے سب لوگ اب تک غم کی کیفیت سے نکل نہیں پائے۔ ذوالکفل کم گو مگر محنتی نوجوان تھا۔ جمعیت اور جماعت اسلامی میں بطور رکن مرحوم کی خدمات کو اس کے سبھی ساتھی ہر مجلس میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
دو سال قبل 7 جولائی2021ء کو لخت جگر‘ عزیزاز جان بیٹے ہارون ادریس کا کورونا کے موذی مرض میں انتقال ہوا۔ اللہ خالق ومالک اور حکیم وعلیم ہے۔ اس کے فیصلوں پر سرتسلیم خم کرنا اسوۂ نبوی اور شیوۂ ایمانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات بے حدوحساب ہیں۔ اس کی طرف سے بندوں کے امتحانات بھی اس کی حکمتوں کے تحت ہوتے ہیں۔ ستمبر2020ء میں میری بڑی ہمشیرہ کی وفات ہوئی۔ پھر ہارون 7 جولائی 2021ء کو الوداع کہہ گیا۔ ہارون کی وفات کے پندرہ دن بعد میری چھوٹی ہمشیرہ‘ ذوالکفل کی والدہ وفات پاگئیں۔ اولاد انسان ہی کو نہیں ساری مخلوق بشمول پرند، چرند اور حیوانات و حشرات سبھی کو اپنی جان سے بھی پیاری ہوتی ہے۔ ہارون کی وفات نے ہم سب اہلِ خاندان ہی کو نہیں بلکہ احباب کے ایک وسیع حلقے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ آج کے دن تک مرحوم کے جاننے والے جب بھی ملیں تو اس کی یادوں کے تذکرے موضوعِ محفل بن جاتے ہیں۔
یہ حقیقت تو اظہر من الشمس ہے کہ ماں کی مامتا کا دنیا میں کوئی بدل نہیں ہوتا۔ خالق کائنات نے ماں کی مامتا کو پیمانہ قرار دیتے ہوئے‘ انسان کو سمجھانے کی خاطر‘ اپنی رحمت کا تذکرہ فرمایا ہے۔حضور نبی پاکﷺ کا ارشاد ہے: ''اللہ تعالیٰ فرتا ہے کہ میں اپنے بندوں پر ستر مائوں کی مامتا سے بھی زیادہ مہربان ہوں‘‘۔ مامتا کے اس بے مثال تعلق کی وجہ سے نوجوان اور انتہائی مودّب و خدمت گزار بیٹے ہارون کی وفات نے اس کی بوڑھی ماں کا سینہ چاک کر دیا تھا۔ ہم دن رات محسوس کرتے تھے کہ اس کا جگر پھٹ گیا ہے، دل بیٹھ گیا ہے اور زندگی اس کے لیے وبالِ جان بن کر رہ گئی ہے۔ دن رات میں کئی بار پیارے بیٹے کی یادیں اس کے دل کو تڑپا دیتی تھیں۔ وہ صبر کا مظاہرہ تو کرتی، مگر کسی وقت اچانک صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا، پھر بھی اللہ کا شکر ہے کہ اس نے نہ کبھی تقدیر کا شکوہ کیا، نہ کوئی ایسا لفظ زبان سے نکالا جو ربِّ رحمان و رحیم کو ناپسند ہو۔ وہ بے بسی کے عالم میں کہتی ''اے میرے اللہ! مجھے کب ہارون سے ملانا ہے؟‘‘ اس کی دوسری دعا اور تمنا یہی ہوتی تھی کہ اللہ اسے محتاجی و معذوری سے محفوظ رکھے اور چلتے پھرتے اپنے دربار میں بلا لے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ دعا قبول فرما لی۔ وہ محتاجی و معذوری کے بغیر سفرآخرت پر روانہ ہو گئی اور اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ اپنے بیٹے ہارون سے علییّن میں جا ملی ہو گی۔
امِ ہارون رشتے میں میری خالہ زاد تھیں۔ ان کی والدہ‘ ہماری خالہ محترمہ کسی ایسی خطرناک بیماری میں مبتلا تھیں جس نے ان کو چارپائی سے لگا دیا تھا۔ ہمارے خالو میاں فتح عالم اور ہمارے نانا جان حافظ فضل الٰہی نے مریضہ کے علاج معالجے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی مگر صورت حال یہی رہی کہ ''مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘۔ آخر اللہ تعالیٰ نے جوانی ہی میں ہماری خالہ مرحومہ کو اپنے دربار میں بلا لیا۔ ان کی وفات کے وقت ان کے بچوں (دو بیٹوں اور پانچ بیٹیوں) میں سے کوئی بھی شادی شدہ نہیں تھا۔ ہماری خالہ مرحومہ اپنے چھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں۔ تین بھائی تھے اور تین ہی بہنیں۔ ہمارے بڑے ماموں حافظ نور محمد تو ہماری پیدائش سے پہلے ہی اپنے لڑکپن میں فوت ہو گئے تھے جبکہ ایک خالہ نور بی بی بھی جوانی میں وفات پا گئی تھیں۔ ہماری والدہ کا نمبر ان دونوں بہن بھائیوں کے بعد تھا جبکہ خالہ مرحومہ ان سب سے بڑی تھیں۔ ہمارے دونوں ماموں صاحبان میاں سخی محمد اور حافظ غلام محمد جماعت اسلامی کے رکن تھے۔ ان دونوں بھائیوں کے حالات ہماری کتاب ''عزیمت کے راہی‘‘ جلد چہارم صفحہ 200تا 210 میں محفوظ ہیں۔
ہماری والدہ مرحومہ کو اپنی بڑی بہن کی بیماری اور پھر جوانی میں وفات کا بڑا غم تھا۔ وہ اپنے بھانجوں، بھانجیوں سے بہت محبت کرتی تھیں۔ خالہ مرحومہ کے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں۔ سب سے چھوٹی بیٹی کنیز فاطمہ تھی اور اس سے بڑی فریدہ خانم۔ والدہ کی وفات کے وقت کنیز کی عمر سات‘ آٹھ سال تھی اور فریدہ دس سال کی تھی۔ بعد میں بزرگوں سے سنا کہ ہماری والدہ نے خاندانی روایات کے مطابق چھوٹی عمر ہی میں فریدہ خانم کا رشتہ میرے لیے طے کر رکھا تھا۔ اللہ کے فیصلے کے مطابق فریدہ تیرہ‘ چودہ سال کی عمر میں بیمار پڑی اور اللہ کو پیاری ہو گئی۔ وہ بہت ذہین تھی۔ اس نے قرآن پاک نصف سے زیادہ حفظ کیا ہوا تھا۔ فریدہ کے بعد کنیز اور پھر ان سے بڑی بہن عزیز بی بی بھی چند سالوں کے وقفے سے وفات پا گئیں۔ اب والدہ مرحومہ نے والد صاحب کی اجازت سے میرا رشتہ رشیدہ بی بی (امِ ہارون) سے طے کر دیا حالانکہ وہ مجھ سے عمر میں چند سال بڑی تھیں۔
میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ والدین کی نافرمانی زندگی بھر کبھی نہیں کی۔ اس موقع پر بھی میں نے اپنے ذاتی خیالات و تصورات اور پسند و ناپسند کو نظرانداز کر کے والدین کے حکم پر سرِتسلیم خم کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ معمولی اختلافات تو کبھی نہ کبھی رونما ہوئے مگر بحیثیت مجموعی عائلی زندگی کے 57 سال کامیابی اور خوشی سے گزرے۔ جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی میں ذمہ داریوں کے دوران کئی بار مشکلات اور قیدوبند کے مرحلوں سے گزرنا پڑا، مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ کبھی کمزوری نہیں دکھائی۔ گھر کے محاذ کو اہلیہ نے میرے والد صاحب کی سرپرستی میں پوری طرح سنبھالے رکھا۔ جب میں نے میٹرک کا امتحان 1963ء میں دیا تو میری عمر 18سال تھی۔ امِ ہارون کے بھائیوں کی شادیاں طے ہو گئی تھیں اس لیے اسی موقع پر ہمارا نکاح بھی ہو گیا۔ عملاً رخصتی 1966ء میں ہوئی۔ میں اس وقت گورنمنٹ لاہور میں بی اے سال اول میں تھا۔ اس طرح ہمارا باہمی ساتھ 57 سالوں پر محیط ہے۔
مولانا مودودیؒ کے حکم سے کینیا میں اسلامک فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر کے طور پر بارہ سال (1974تا1985ء) قیام رہا۔ 1985ء میں میاں طفیل محمد صاحب کے حکم پر پاکستان واپسی ہوئی تو مرکز جماعت میں نائب قیم کی ذمہ داری لگ گئی۔ منصورہ میں اپنا گھر بننے سے پہلے مرکز جماعت کے فلیٹ میں 8 سال رہائش رہی۔ اس عرصے میں بچوں کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ دائود ادریس نے اسلامیہ کالج سول لائنز سے بی اے کیا۔ ہارون نے گائوں میں مڈل کا امتحان پاس کر لیا تھا۔ اسے پائلٹ ہائی سکول وحدت روڈ لاہور میں 9thکلاس میں داخل کرا دیا جہاں سے اس نے شاندار کامیابی کے ساتھ میٹرک پاس کیا۔ اس کے بعد اس نے مرکز تحفیظ القرآن منصورہ سے سوا سال میں قرآن پاک حفظ کیا۔ پھر اس نے انٹر کا امتحان پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے دیا اور شاندار کامیابی حاصل کی۔ اگلے سالوں میں اس نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد اور جامعہ پنجاب سے اعلیٰ تعلیم کی منازل طے کیں۔ لائبریری سائنسز اس کا مضمون تھا ۔ اسی مضمون میں اس نے جرمنی سے ایچ ای سی کے سکالرشپ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور سرگودھا یونیورسٹی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر اس کا تقرر ہوا۔
پیاری بیٹی سمیّہ ادریس نے گائوں میں پرائمری تک تعلیم حاصل کی تھی ۔ گائوں سے لاہور آنے پر اسے منصورہ گرلز ہائی سکول میں داخل کرایا گیا جہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج وحدت روڈ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد جامعہ پنجاب سے ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات شاندار نمبروں کے ساتھ پاس کیا۔ موت کا وقت خالق و مالک نے پہلے ہی سے طے کر رکھا ہوتا ہے۔ مرحومہ امِ ہارون دبلی پتلی ہونے کے باوجود کافی مضبوط جسم اور بے مثال قوتِ ارادی کی مالک تھیں۔ وفات سے کم و بیش 25 سال قبل‘ 1998ء کے لگ بھگ شوگر کے موذی مرض میں مبتلا ہو گئیں۔ اس کے لیے شروع میں تو دوا استعمال کرتی تھیں بعد میں انسولین باقاعدگی سے لگواتی تھیں۔ گھر میں شوگر اور بلڈ پریشر چیک کرنے کا انتظام بچوں نے کر رکھا تھا۔ بیس سال قبل دل کی تکلیف ہوئی تو ڈاکٹرز ہسپتال میں انجیوپلاسٹی ہوئی ، پھر دس سال بعد دوبارہ انجیوپلاسٹی کرانا پڑی۔ ڈاکٹروں نے تجویز کیا تھا کہ اب دل کے لیے مستقل دوائیں استعمال کرتی رہیں۔ اس عرصے میں دائود ادریس نے باقاعدگی سے دوائی بروقت دینے کا فریضہ ادا کیا۔ وقتاً فوقتاً چیک اپ بھی ہوتا رہا اور معاملات اللہ کے فضل سے درست سمت میں چلتے رہے۔
عید کے روز فجر کی نماز کے لیے اٹھیں تو خود وضو کیا، نماز کے بعد ذکر واذکار میں وقت گزارا۔ پھر دوبارہ سو گئیں، ناشتے کے وقت بچیوں نے اٹھایا تو واش روم کی طرف جاتے ہوئے گر گئیں۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ دل کا دورہ پڑا تھا۔ مغرب سے قبل وفات پاگئیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگلی منزلیں آسان فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین!