اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد! …(2)

مؤرخین نے لکھا ہے کہ یزید نے اس مشاورت کے بعد عبیداللہ بن زیاد کے متعلق اپنی سابقہ رائے تبدیل کرلی اور اسے نہ صرف بصرہ کی گورنری پر بحال رکھا بلکہ حضرت نعمان بن بشیرؓ کو معزول کرکے کوفہ کو بھی اس کی ولایت میں دے دیا۔ عبید اللہ ابن زیاد انتہائی سفاک اور شقی القلب انسان تھا۔ اس نے یہ منصب مل جانے کے بعدلبادہ اوڑھا اور بھیس بدل کر کوفہ کا سفر کیا اور وہاں پہنچ کر اپنے حواریوں کے ذریعے لوگوں کو یہ چکما دیا کہ گویا وہ حسین ابن علی ہے۔ کئی لوگ اس غلط فہمی کا شکار بھی ہوئے؛ چنانچہ ابن زیاد نے گورنر ہائوس میں ڈیرہ جما کر مختلف لوگوں کو بڑی بڑی رقوم دیں اور جاسوسوں کے ذریعے حضرت مسلم بن عقیلؓ کے خلاف سازش کا ایسا تانا بانا بُنا کہ بالآخر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ حضرت مسلم بن عقیلؓ حضرت ہانی بن عروہؓ کے مکان میں مقیم تھے۔
حضرت ہانی بن عروہؓ کو گورنر ہائوس بلایا گیا اور ابن زیاد نے انہیں سخت سزا دی اور مسلم بن عقیلؓ کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتانے سے انکار کر دیا۔ پھر اس کے دربار میں ہانی بن عروہؓ کے سامنے ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا کہ مسلم تمہارے گھر میں ہے اور یہ وہی شخص تھا جو ہانی بن عروہؓ کے گھر میں جاکر حضرت مسلم بن عقیلؓ کے ہاتھ پر نہ صرف بیعت کر چکا تھا بلکہ ایک خطیر رقم بھی پیش کی تھی۔ دنیاداروں کا یہ طرزِ عمل یعنی بزدلی اور منافقت ہر دور میں اللہ والوں کے معاملے میں رونما ہوتا رہا ہے۔
ہانی بن عروہ حضرت حسینؓ کے زبردست حامی تھے مگر اس جاسوس کی مخبری اور پھرگواہی کے بعد سخت خلجان کا شکار ہوگئے۔ اب وہ زخمی حالت میں یہ سب منظر دیکھ رہے تھے۔ انہیں قید کرنے اور حضرت مسلم بن عقیلؓ کو پکڑنے ، قتل کرنے اور ان کا سر ابنِ زیاد کے سامنے پیش کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا۔ جس شخص نے یہ جاسوسی کی تھی، اس کا نام مورخین نے سرجون بیان کیا ہے۔ یہ مسلمان نہیں تھا؛ البتہ یہ ثابت نہیں کہ عیسائی تھا یا یہودی۔ کہا جاتا ہے کہ اسے یزید نے دمشق سے ابنِ زیاد کے پاس بھیجا تھا۔ حضرت مسلمؓ کو ہانی بن عروہ کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنے حمایتیوں کو ساتھ لے کر مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ ان کے ساتھ ساڑھے تین‘ چار ہزار کے لگ بھگ کوفی میدان میں نکل کھڑے ہوئے مگر جوں ہی ان بد بختوں نے بڑے بڑے سرداروں کو عبید اللہ بن زیاد کے محل میں دیکھا اور انہوں نے بالکونی سے اپنے اپنے قبیلے کے تمام لوگوں کو سرزنش کی تو آہستہ آہستہ یہ بدعہد، بے وفا اور غدار حضرت مسلم بن عقیلؓ کا ساتھ چھوڑ کر منتشر ہوگئے۔ آخر میں ان کے ساتھ صرف چند سو افراد رہ گئے۔
حضرت مسلمؓ نے یہ صورتِ حال دیکھی تو انہوں نے بھی شام کے وقت کسی محفوظ جگہ کی طرف نکلنا چاہا۔ اس دوران پورے شہر میں جاسوسی کا جال پھیلایا جاچکا تھا۔ اسی رات کو حضرت مسلم بن عقیلؓ کو سرکاری جتھوں نے گرفتار کیا اور گورنر ہائوس لے آئے۔ ظلم وبربریت کی انتہا ملاحظہ فرمائیں کہ حضرت مسلمؓ کے دو کمسن بچے بھی شہید کر دیے گئے تھے۔ ابنِ زیاد نے حضرت مسلمؓ کو دیکھتے ہی حکم دیا کہ انہیں فی الفور قتل کردیا جائے۔ ان کا بے سر لاشہ محل کے سامنے پھینک دیا جائے۔ حضرت ہانیؓ کو سولی پر چڑھانے کا حکم صادر ہوا۔ یوں ایک جانب یہ نقشہ یکسر بدل گیا مگر دوسری جانب حضرت حسین بن علیؓ تک بروقت درست اطلاعات نہ پہنچ سکیں۔ وہ اس وقت تک حجاز سے حدودِ عراق میں داخل ہوچکے تھے۔ ان کے ساتھ کوئی بہت بڑا لشکر نہیں تھا۔ ان کے قافلے میں کچھ خواتین تھیں اور ڈیڑھ سو کے قریب ان کے اعیان و انصار تھے۔
یہ بات بھی تاریخ میں منقول ہے کہ قادسیہ کے قریب حُر بن یزید آپؓ سے ملا اور اس نے کوفے کے حالات آپؓ کو بتائے۔ حضرت مسلم بن عقیلؓ اور ان کے بچوں کی شہادت کی خبر بھی ملی۔ حُر کی رائے یہ تھی کہ قافلے کو وہیں سے واپس پلٹ جانا چاہیے۔ مؤرخین میں بعض کی رائے یہ ہے، مگر ہمارے خیال میں حضرت حسینؓ نے یہ رائے قائم نہیں کی تھی۔ حضرت حسینؓ کا بھی اسی جانب میلان تھا۔ اس موقع پر حُر کی بات سن کر حضرت مسلم بن عقیلؓ کے بھائیوں نے کہا کہ جب ہمارا بھائی قتل ہوگیا ہے تو ہم یہاں سے کیسے واپس جاسکتے ہیں۔ اصل بات تو یہی ہے کہ تقدیر ہر چیز پر غالب ہوتی ہے۔ حضرت حسینؓ نے اپنا رُخ کوفہ سے کربلا کی طرف موڑ لیا۔ یہ بات قابل ِذکر ہے کہ حُر بن یزید تمیمی بھی یزیدی سالاروں میں سے تھا، مگر حضرت امام حسینؓ کی گفتگو کو سن کر اس نے عہدہ ومنصب کو لات مار دی اور حضرت حسینؓ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس کے ساتھ چند ایک دیگر سپاہیوں نے بھی یہی عزم کیا۔ یہ لوگ شہدائے اہلِ بیت کے ساتھ میدانِ کربلا میں شہادت سے سرفراز ہوئے۔ قبیلہ بنوتمیم کو حُر کے اس جرأت مندانہ عمل اور قربانی کی وجہ سے بعد کے زمانے میں بھی عربوں کے ہاں تکریم سے دیکھا جاتا تھا۔
راستے میں جگہ جگہ یزیدی دستوں نے قافلۂ اہلِ بیت کو روکنا چاہا مگر وہ کسی نہ کسی طرح کربلا تک آپہنچے۔ یہ 60ھ کے آخری دن تھے۔ اسی اثنا میں نئے سال کا ہلال طلوع ہوا۔ عمرو بن سعد‘ جو صحابیٔ رسول حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کا بیٹا تھا‘ بنو امیہ کی حکومت میں ایک علاقے کا حاکم تھا۔ جب اسے ابنِ زیاد نے اس قافلے کو قتل کرنے کا حکم دیا تو شروع میں اس نے کافی پس و پیش کیا مگر آخر کار ابنِ زیاد کے دبائو کے تحت عمرو بن سعد نے اس جرم کا ارتکاب کر ہی ڈالا۔
جب عمرو بن سعد نے حضرت حسینؓ کا راستہ روکنا چاہا تو آپؓ نے اسے بتایا کہ مجھے اہلِ عراق نے آنے کی دعوت دی، جس کے نتیجے میں میں حجاز سے چل کر یہاں آیا۔ آپؓ نے خطوط کا انبار بھی اس کے سامنے پیش کیا۔ عمرو بن سعد نے حضرت حسینؓ کے دعوے کی تکذیب نہیں کی بلکہ کہا کہ اہلِ کوفہ نے آپ کو خطوط لکھے مگر اب وہ آپ کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ آپ کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ یزید کی بیعت کرلیں۔ حضرت حسینؓ نے فرمایا کہ میں ایسا شخص نہیں ہوں جو دب کر بیعت کرلے۔ میں تمہارے سامنے تین شرائط پیش کرتا ہوں۔ طبری اور دیگر مورخین نے ان شرائط کا ذکر کیا ہے جو درج ذیل ہیں:
مجھے چھوڑ دو کہ میں براہِ راست یزید کے پاس چلا جائوں اور خود اس سے معاملہ طے کروں۔
مجھے چھوڑ دو کہ میں جہاں سے آیا ہوں، وہیں واپس چلا جائوں۔
مجھے چھوڑ دو کہ میں کسی سرحد پر چلا جائوں۔
عمرو بن سعد نے امام کا موقف سننے کے بعد کسی حد تک نرمی کا اظہار کیا مگر کہا کہ وہ خود کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ اسے ابنِ زیاد سے منظوری لینا پڑے گی۔ جب ابنِ زیاد تک یہ پیغام پہنچا تو وہ آگ بگولہ ہوگیا اور اس نے سخت الفاظ میں عمرو بن سعد کو سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ یا تو حسین سے بیعت لویا اس کا سر قلم کر کے میرے دربار میں بھیجو۔ سیدنا حسینؓ کو جب اس صورتِ حال کا علم ہوا تو انہوں نے پوری جرأتِ ایمانی کے ساتھ فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں سر تو کٹوا سکتا ہوں مگر زبردستی مجھ سے بیعت نہیں لی جاسکتی۔ اب وہ مرحلہ آگیا کہ جو تاریخ میں معروف ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت حسین ابن علیؓ اور ان کے ساتھیوں نے ایک بڑی قربانی پیش کی، جس کا مقصد آمریت و ملوکیت کا انکار اور اسلامی دستور کی اہم ترین شق‘ خلافت و شورائیت کا تحفظ تھا۔
حضرت حسینؓ کے ساتھی ایک ایک کرکے شہید ہوتے چلے گئے۔ آخر میں آپؓ تنہا رہ گئے۔ پانی تک رسائی بھی ممکن نہ تھی۔ گرمی کی حدت اور جنگ کی شدت‘ اس لمحے کی سختی اور دل دہلا دینے والا منظر‘ اس سب کچھ کے باوجود سیدنا حسین بن علیؓ کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ وہ بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے مگر یزید کی ناجائز حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔کیا خوب کہا گیا ہے ؎
سرداد نہ داد دست در دستِ یزید
حقّا کہ بنائے لا الٰہ است حسینؓ
شہادتِ حسینؓ کے بعد بناتِ رسول کو کوفہ اور پھر دمشق کے درباروں میں پیش کیا گیا۔ کوفہ میں عبیداللہ بن زیاد نے گستاخانہ گفتگو کی، مگر شیرخدا کی بیٹی اور آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی زینب بنت علیؓ نے اس کے ہر الزام کا مسکت جواب دیا۔ اسی طرح دمشق میں بھی یزیدی دربار میں سیدہ زینبؓ نے جس حوصلے اور جرأت کے ساتھ یزید کے اعتراضات کا ردّ کیا وہ تاریخِ اسلامی کے ماتھے کا جھومر ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے دمشق پھر دمشق سے مدینہ تک کے سفر کا ہر لمحہ قیامت سے کم نہیں تھا۔ خاتونِ کربلا نے کسی جگہ بھی ہمت نہیں ہاری، حالانکہ ان کا پورا خاندان اللہ تعالیٰ کے راستے میں کٹ چکا تھا۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں