پاکستان، اس کے حصول کی جدوجہد، اس کا بنیادی نظریہ اور اس سب کچھ کی نقشہ کشی اور اس کے حصول کی خاطر عملی کاوشوں کا ریکارڈ ایک اہم موضوع ہے۔ اس موضوع پر مختلف افکار رکھنے والے طبقات وعناصر نے اپنے اپنے انداز میں علمی وفکری کام کیا ہے۔ ڈاکٹر حافظ ساجد انور نے تحریک قیام پاکستان ، سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ کی فکری مماثلت کے عنوان سے ایک علمی وتحقیقی مقالہ لکھا ہے۔ اس مقالے کا مرکزی موضوع دو اہم اسلامی شخصیات کی حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں عملی وفکری کاوشوں کا مدلل احاطہ ہے۔ دونوں شخصیات کی پہچان قرآن وسنت کے علوم میں اعلیٰ خدمات کی وجہ سے علمائے حق کے طو رپر مسلّم ہے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کا اپنا اپنا حلقۂ اثر اور میدانِ عمل تھا۔ دونوں کے اخلاص، علم، قابلیت اور بے لوث خدمتِ اسلام سے کوئی منصف مزاج شخص انکار نہیں کرسکتا۔ اس مقالے کو دیکھ کر قاری کو بیسیوں حوالوں سے دونوں علمائے حق کے بارے میں کئی ایمان افروز حقائق معلوم ہوتے ہیں۔
پاکستان اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ آزادی سے قبل جن حالات میں حصولِ پاکستان کی جدوجہد جاری تھی، بظاہر وہ اس کے حق میں سازگار نہیں تھے۔ ایک توہندو اکثریت اسلام دشمنی میں بالکل واضح اور نمایاں تھی۔ ہندو لیڈروں نے تو یہاں تک بھی کہا تھا کہ پاکستان ہماری لاشوں پر ہی قائم ہوسکتا ہے۔ ان میں موہن داس گاندھی بھی شامل تھے۔ دوسرے نمبر پر انگریز بھی اسلام اور امتِ مسلمہ ہی کو اپنا اصلی حریف سمجھتے تھے، کیونکہ انہوں نے ہندوستان کی حکومت مسلمانوں ہی سے چھینی تھی۔ ان کا جھکاؤغیرمسلم آبادی کی طرف تھا جس کی مثالیں تقسیمِ ہند کے وقت بھی سامنے آگئیں۔ اس کے ساتھ سب سے زیادہ نازک مسئلہ ہندوستان کی اہم ترین دینی درسگاہ دیوبند اور اس کے علماء و فضلا اور اساتذہ و قائدین کی طرف سے کانگریس کا کھل کر ساتھ دینا تھا۔ ان کا یہ مؤقف تحریک پاکستان کی شدید مخالفت کا غماز تھا۔ سیاسی وفکری محاذ کی عظیم مسلمان شخصیت مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم تو کانگریس کی صفِ اول کی قیادت میں شامل تھے۔
شروع میں قائداعظم محمد علی جناح بھی کانگریس میں شامل تھے۔ 1920ء میں جب کانگریس نے ''ستیہ گرہ‘‘ مہم شروع کی تو ہندوئوں کے عزائم کھل کر سامنے آگئے کہ وہ اکھنڈ بھارت کو ہندو ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ اس سے قبل بھی قائداعظم کانگریس کے ساتھ چلتے ہوئے ، ہندوئوں کے رویوں کی وجہ سے مطمئن نہیں تھے، مگر اب تو انہوں نے پوری یکسوئی کے ساتھ فیصلہ کرلیا کہ کانگریس کا ساتھ چھوڑ دینا ہے۔ چنانچہ آپ نے کانگریس سے استعفا دے کر پورا وقت مسلم لیگ کے لیے وقف کردیا۔ قائداعظم کی پُروقار شخصیت، شفافیت اور دیانت وامانت کی ان کے مخالفین بھی گواہی دیتے تھے۔ اس کے ساتھ قائداعظم کو اللہ تعالیٰ نے ذہانت اور قائدانہ صلاحیتوں سے بھی خوب نوازا تھا۔
کانگریس کے مقابلے میں مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے آزاد مسلم ریاست کی جدوجہد شروع کررکھی تھی۔ مسلم لیگ عملاً ڈھاکہ میں دسمبر 1906ء میں نواب سلیم اللہ خان کی سربراہی میں قائم ہوچکی تھی۔ آزاد مسلم ریاست کا تصور علامہ اقبال نے پیش کیا تھا، جس پر برصغیر کے مسلمانوں کی بڑی تعداد یکسو تھی۔ قائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ نے اسی تصور کو آگے بڑھایا۔ قائد اعظم مخلص مسلمان، دیانتدار سیاسی رہنما، جرأت مند لیڈر اور قول و عمل میں کھرے انسان تھے۔
اس جدوجہد میں علما کرام میں سے مولانا اشرف علی تھانویؒ کے عظیم کردار کا کوئی بھی محقق انکار نہیں کرسکتا۔ آپ نے کھل کر جمعیت علمائے ہند کے متحدہ بھارت کے تصور کی مخالفت کی اور اپنے تمام عقیدت مندوں کو مسلم لیگ کی حمایت پر آمادہ کیا۔ مولانا شبیراحمد عثمانیؒ، مولانا ظفراحمد تھانویؒ، مفتی محمد شفیعؒ اور شبیراحمد تھانویؒ نے تحریک پاکستان میں یادگار کردار ادا کیا۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ نے مختلف مواقع پر حکمت کے ایسے موتی بکھیرے جن سے تحریک پاکستان کو بہت تقویت ملی۔ اس مقالے کے محقق جناب حافظ ساجد انور نے ایسے حوالے دیے ہیں کہ جن سے حضرت تھانویؒ کی ان خدمات کا پورا تعارف سامنے آجاتا ہے۔ مثلاً: ''17 ستمبر 1938ء کو لکھنؤ میں فرمایا: میری دلی تمنا اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حکومت مسلمہ عادلہ قائم فرمائے اور میں اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں‘‘۔ (مولانا اشرف علی تھانویؒ اور تحریک آزادی، از پروفیسراحمد سعید، ص: 109)
ہندوئوں کے اسلام دشمن عزائم اور منصوبوں کو قائداعظم نے بھی اچھی طرح سمجھا تھا اور علمائے کرام میں سے مولانا تھانویؒ نے بھی اس کا خوب پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ آپ نے ایک بیان میں فرمایا: ''واردھا سکیم مسلمانوں کی مذہبی زندگی کیلئے خطرناک ثابت ہو گی چونکہ اس سکیم میں گاندھی ازم اور دہریت کی تخم ریزی کی گئی ہے‘‘۔ (الجمعیۃ، ہمارا پاکستان، از شبیراحمد عثمانی، ص: 22، 1938ء)
مولانا تھانویؒ کی طرح مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے بھی تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا ۔ مولانا مودودیؒ ابتدائی عمر سے ہی بہت اچھے مصنف اور محقق تھے۔ آپ کا مطالعہ بھی وسیع تھا اور ذہانت بھی اللہ تعالیٰ نے بے مثال عطا فرمائی تھی۔ آپ کو ایک اسلامی ریاست کے قیام کا اس قدر شوق تھا کہ آپ نے اپنی ایک تحریر میں فرمایا: ''مسلمان ہونے کی حیثیت سے میری نگاہ میں اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں کہ ہندستان ایک ملک رہے یا دس ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے، تمام روئے زمین ایک ملک ہے۔ انسان نے اس کو ہزاروں حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ یہ اب تک کی تقسیم اگرجائز تھی تو آیندہ مزید تقسیم ہوجائے گی تو کیا بگڑ جائے گا۔ اس بت کے ٹوٹنے پر تڑپے وہ جو اسے معبود سمجھتا ہو۔ مجھے تو اگر یہاں ایک مربع میل کا رقبہ بھی ایسا مل جائے جس میں انسان پر خدا کے سوا کسی کی حاکمیت نہ ہو تو میں اس کے ایک ذرۂ خاک کو تمام ہندوستان سے زیادہ قیمتی سمجھوں گا‘‘۔ (سیاسی کشمکش، سوم، ص: 76 تا 77)
مولانا مودودیؒ نے آغازِ جوانی میں جمعیت علمائے ہند کے ترجمان رسالے مسلم کی ادارت کے فرائض ادا کیے۔ یہ رسالہ بند ہوگیا تو جمعیت نے اپنا رسالہ الجمعیۃ نکالا، اس کے مدیر بھی مولانا مودودیؒ ہی مقرر ہوئے۔ کچھ عرصے کے بعد مولانا مودودیؒ نے اس بنیاد پر الجمعیۃ کی ادارت چھوڑ دی کہ جمعیت علمائے ہند کے سیاسی نظریات سے آپ کو شدید اختلاف تھا۔ اس کے بعد آپ نے مئی 1933ء میں رسالہ ترجمان القرآن کی ادارت سنبھالی اور یہ رسالہ اپنے نام سے جاری کیا۔
مولانا مودودیؒ نے ترجمان القرآن میں اپنے مضامین بعنوان ''مسلمان اور سیاسی کشمکش‘‘ میں دوقومی نظریے کو اس طرح پورے دلائل کے ساتھ نکھار کر پیش کیا کہ مسلم لیگ کی قیادت جو آزاد ریاست کے مطالبے پر جدوجہد کررہی تھی، کو اپنے مشن کے لیے بہترین لوازمہ مل گیا۔ چنانچہ اسی کا نتیجہ تھا کہ مسلم لیگ کا شعبہ نشرواشاعت مولانا کے مضامین کو کتابچوں کی صورت میں چھاپ کر پورے ملک میں بڑی تعداد میں تقسیم کررہا تھا۔ مولانا مودودیؒ اتنے صاف گو تھے کہ ایک جانب انہوں نے پاکستان کے قیام کو ضروری قرار دیا اور متحدہ ہندستان کے نظریے کو پاش پاش کردیا، دوسری جانب انہوں نے اپنے مضامین میں یہ بات بھی واضح کردی کہ ایک اسلامی ریاست کے لیے جس اخلاق وکردار کی قیادت درکار ہے، مسلم لیگ کی صفوں میں شامل ہونے والے مفادپرست سیاست دان، وڈیرے اور جاگیردار اس پر پورے نہیں اترتے۔ اس حقیقت کو بیان کرنے کی پاداش میں مولانا پر آج تک لغو الزامات لگائے جاتے ہیں کہ آپ نے پاکستان کی مخالفت کی ۔
ان الزامات میں کوئی وزن اور دلیل نظر نہیں آتی کیونکہ غیر جانب دار اور معتبر شخصیات نے اس کی تردید کی ہے۔ شریف الدین پیرزادہ سے لے کر منیرنیازی تک اور م ش سے لے کر مولانا عبدالماجد دریابادی تک سب نے مولانا مودودیؒ کے تحریک پاکستان کی حمایت میں علمی کردار کی مثالیں دی ہیں۔ ہفت روزہ تھنکر بابت 27 دسمبر 1963ء میں چھپنے والے ایک مضمون میں مضمون نگارریمن سن نے جماعت اسلامی کے تاسیسی رکن قمرالدین خان کی قائداعظم سے ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔
قمرالدین صاحب نے فرمایا: ''راجہ آف محمود آباد کی مدد سے گل رعنا(دہلی) میں ہماری ملاقات کا انتظام کیا گیا۔ قائد اعظم پینتالیس منٹ تک بڑے صبر سے میری بات سنتے رہے اور پھر کہا کہ مولانا(مودودی) کی خدمات کو وہ نہایت پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست کا حصول ان کی زندگی اور کردار کی تطہیر سے زیادہ فوری اہمیت کا حامل ہے۔انہوں نے کہا کہ جماعت اور لیگ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جماعت اگر ایک اعلیٰ مقصدکے لیے کام کر رہی ہے تو لیگ اس فوری حل طلب مسئلے کی طرف متوجہ ہے جسے اگر حل نہ کیاجا سکا تو جماعت کا کام مکمل نہ ہو سکے گا‘‘۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم نے مولانا مودودیؒ کی خدمات کی قدرافزائی کی۔ مولانا مودودیؒ نے ریڈیو پاکستان سے مختلف موضوعات پر قوم سے خطاب کیا اور اسلام کے مختلف شعبوں کی وضاحت کی۔ یہ تقاریر ریڈیو پاکستان سے بعنوان: ''اسلام کا اخلاقی نظام‘‘ مورخہ 6 جنوری 1948ء، ''اسلام کا سیاسی نظام‘‘ 20 جنوری، ''اسلام کا معاشرتی نظام‘‘ 10 فروری، ''اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ 2 مارچ، ''اسلام کا روحانی نظام‘‘ 16 مارچ کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئیں۔ یہی خطابات نشری تقریریں کے نام سے بیسیوں مرتبہ چھپ چکے ہیں۔
11 ستمبر 1948ء کو قائداعظم وفات پا گئے۔ ٹھیک تین ہفتے بعد حکومت نے 4 اکتوبر 1948ء کو مولانا مودودیؒ کو گرفتار کر لیا۔ قائداعظم کی زندگی میں مولانا مودودیؒ محب وطن پاکستانی تھے اور ان کی وفات کے بعد حکمرانوں کی نظر میں وہ ریاست کے لیے خطرہ بن گئے۔ ''بسوخت عقل ز حیرت کہ ایں چہ بوالعجبی است‘‘