نائب امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش، سابق ممبر قومی اسمبلی اور عالمی شہرت کے حامل مبلغِ اسلام، جرم بے گناہی میں بنگلہ دیش کی جیل میں عمرقید کے دوران شہادت پا گئے۔ دلاور حسین سعیدیؒ تو شہادت پا کر سرخرو ہوگئے مگر ان کے درندہ صفت دشمن دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہ پا سکیں گے۔ سعیدی شہید کی کبر سنی، امراض اور علاج کی سہولتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان کے جملہ اہل و عیال اور سبھی عقیدت مند فکر مند تھے۔ آپ دیگر بیماریوں کے علاوہ عارضۂ قلب میں بھی مبتلا تھے۔ ہارٹ اٹیک ہی کی وجہ سے آخر وہ لمحہ آ پہنچا کہ دوریش صفت بندہ اس دنیا کی تنگ نائیوں سے نکل کر جنت کی وسعتوں کی طرف کوچ کر گیا۔ ان شاء اللہ وہ مسافر اس لمحے بہت خوش اور خوش نصیب ہو گا کہ اس کا استقبال اللہ کے فرشتے کر رہے ہوں گے اور اللہ ہی کا پیغام سنا رہے ہوں گے، یٰٓاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ O ارْجِعِیْٓ إِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً O فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْO وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْO (سورۃ الفجر: 27 تا 30)
ترجمہ: اے نفس مطمئن، چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجامِ نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں۔
وہ چلے غنچوں کی مانند‘ مسکرا کے چلے
پر اپنے چاہنے والوں کو خوں رلا کے چلے
دلاور حسین سعیدی 2 فروری 1940ء کو باریسال ڈسٹرکٹ سے بننے والے نئے ضلع فیروزپور ڈسٹرکٹ کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولانا محمد یوسف سعیدی اپنے علاقے کے مقامی سماجی رہنما اور معروف عالم دین تھے۔ آپ نے اپنے گائوں میں ایک معیاری دینی مدرسہ قائم کر رکھا تھا جہاں سے بہت سے دیگر طلبہ کے ساتھ ان کے بیٹے دلاور حسین سعیدی صاحب نے بھی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ سعیدی صاحب اس کے بعد مدرسہ عالیہ سرسینہ میں 1962ء میں داخل ہوئے جہاں سے عالیہ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تخصص کے لیے عالیہ مدرسہ ضلع کھلنا میں داخلہ لیا۔ آخر میں کراچی کے اعلیٰ تعلیمی ادارے جامعہ بنوریہ میں داخل ہوئے اور 1970-71ء میں وہاں سے فارغ التحصیل ہوئے۔ آپ کے کراچی میں قیام برائے تعلیم کے دوران بنگلہ دیش وجود میں آیا۔ مبینہ طور پر حکومت نے جس دور کو بنیاد بنا کر آپ کے خلاف مقدمات قائم کیے اس دور میں آپ مشرقی پاکستان میں تھے ہی نہیں۔ اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ ان الزامات کی اصلیت اور حقیقت کیا ہے؟
اپنے گائوں سے شروع ہونے والے علمی سفر میں اول سے آخر تک سعیدی صاحب ہر امتحان میں شاندار کامیابی حاصل کرتے رہے۔ دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بھی مکمل کی اور پھر مشرقی پاکستان کے مختلف مدرسوں میں تدریس کے فرائض ادا کیے۔ دور طالب علمی میں سعیدی صاحب اپنے تعلیمی اداروں کے ذہین طالب علم اور بہترین مقرر کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ آپ کراچی سے تکمیلِ تعلیم کے بعد واپس گئے تو اپنے علاقے کی ایک بڑی جامع مسجد کے خطیب کے طور پر ان کو بڑی شہرت ملی۔ اس کے بعد آپ مختلف ایام کی مناسبت سے عوامی جلسوں میں خطاب فرمانے لگے۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد آپ کے پبلک خطابات کو اتنی شہرت ملی کہ آپ پورے ملک میں سب سے زیادہ مؤثر مبلغ و خطیب کے طور پر مشہور ہوئے۔ آپ کو عربی، اردو اور بنگلہ زبان پر تو عبور حاصل تھا ہی مگر آپ انگریزی زبان میں بھی بلا جھجک گفتگو کر سکتے تھے۔ اس کے ساتھ فارسی اشعار بالخصوص کلامِ اقبالؔ پر آپ کو پوری دسترس حاصل تھی۔
آپ جماعت اسلامی کے پیغام سے بنگلہ دیش بن جانے سے پہلے بھی ذہنی و فکری طور پر متاثر و متعارف تھے، مگر عملاً جماعت میں شمولیت بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اختیار کی۔ آپ جماعت کے رکن بنے اور پھر مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ زندگی کے آخری کئی سال نائب امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے طور پر ذمہ داری ادا کی تاآنکہ حضورِ حق سے بلاوا آ گیا۔
آپ کے خطابات کھلے میدانوں میں ہوتے اور ان میں بلامبالغہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوتے۔ آپ کا سیرت النبیؐ پر سلسلۂ خطابات منفرد اور انتہائی مقبول تھا۔ آپ کے خطابات کی کئی لوگ ریکارڈنگ کرتے جس کی کاپیاں (کیسٹس) ہزاروں کی تعداد میں ملک بھر میں چند دنوں میں پھیل جاتیں۔ سیرت پر بہت بڑے عوامی مجمع میں آپ کا پہلا خطاب اتنا فصیح وبلیغ اور متاثر کن تھا کہ اس کے بارے میں کئی بنگالی احباب نے بتایا کہ ملکی سطح پر اس کی پذیرائی و مقبولیت نے ناقابل شکست ریکارڈ قائم کر دیا۔ بنگلہ دیش میں ملکی سطح پر ایک مجلسِ سیرت پہلے سے قائم تھی۔ اس مجلس کے صدر مشہور عالم دین مولانا دین محمد اور سیکرٹری مولانا سید معصوم تھے۔ اس مجلس کے تحت بڑے بڑے شہروں میں سیرت کے عظیم الشان جلسے ہوتے تھے۔ پہلا جلسہ جس میں سعیدی صاحب پبلک میں آئے، 1972ء میں ارمانی ٹولا پارک‘ ڈھاکہ میں ہوا۔ منتظمین کا خیال تھا کہ سعیدی صاحب کا خطاب عصر کی نماز کے بعد رکھا جائے اور انہوں نے آپ کے لیے دس سے پندرہ منٹ کا وقت مختص کیا تھا۔ جماعت اسلامی کے بعض نوجوانوں نے کوشش کر کے سیرت کے جلسے میں سعیدی صاحب کے خطاب کا وقت مغرب کی نماز کے بعد رکھوا دیا۔ منتظمین کے ذہن میں اب بھی یہی خیال تھا کہ ان کا خطاب زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس منٹ کا ہو گا۔
مغرب کے بعد جب ان کی تقریر شروع ہوئی تو مجمع پر ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو بھی تھے اور زبانوں پر نعرے بھی۔ مولانا دین محمد نے مولانا سید معصوم سے کہا کہ مقرر کو کہو کہ وقت ختم ہو چکا ہے، جواب میں انہوں نے کہا کہ مولانا محترم! پورا مجمع خطیب کی مٹھی میں ہے۔ بڑا چھوٹا‘ ہر شخص مسحور ہے۔ اب کیسے عوامی مجمع کی پسند کے خلاف کوئی اعلان کیا جا سکتا ہے؟ اس پہلی عوامی تقریب میں سعیدی صاحب کی شہرت ملک گیر حیثیت اختیار کر گئی۔ بس پھر کیا تھا آپ درسِ قرآن، درسِ حدیث، جلسۂ سیرت النبیؐ، ایامِ صحابہ اور دیگر دینی ایام کی نسبت سے ملک کے سب سے بڑے مربّی، خطیب اور انقلابی مقرر کے طور پر معروف ہو گئے۔ ملک کے چپے چپے اور دور دراز دیہات اور حتیٰ کہ غیر مسلم آبادی کے نوجوانوں کے بھی پسندیدہ ترین عوامی مقرر آپ ہی تھے۔
آپ کی تقریر میں حضرت مولانا عطااللہ شاہ بخاریؒ کی طرح شعلہ نوائی ہی نہیں تھی بلکہ یہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی طرح ذہنوں کو بدلنے اور عمل پر ابھارنے کی صفات سے مالا مال ہوتی تھی۔ بہت سے غیر مسلم آپ کے خطاب، باہمی گفتگو اور سوال و جواب کے نتیجے میں اسلام میں داخل ہوئے۔ آپ کی شہادت کے بعد کئی نوجوانوں اور بزرگوں نے نہایت دلچسپ اور ایمان افروز انداز میں اپنے تجربات بیان کیے ہیں۔ کئی لوگوں نے بیان کیا کہ وہ محض وقت گزاری کے لیے ان کے جلسے میں گئے کہ چند لمحات کے لیے ان کی باتیں سن لیں، مگر خطیب کے پُرجوش و ایمان افروز خطاب نے انہیں اپنے دام میں یوں لے لیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے اس کے عقیدت مند بن گئے۔ کئی لوگ جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں انہی خطابات کی برکت سے شامل ہوئے اور پھر قابلِ قدر خدمات سرانجام دیں۔
نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اندازِ بیان میں اتنی تاثیر ہوتی ہے کہ لوگوں کو مسحور کر لیتا ہے۔ (صحیح بخاری، عن عبداللہ بن عمرؓ) واقعتاً اس کا تجربہ انسانی تاریخ میں بارہا ہوا ہے۔ اخوان المسلمون کے بانی مرشد عام حسن البنا شہید (1906-1949ء) کے طرزِ خطاب میں بھی اتنی تاثیر تھی کہ مصر کی کئی عظیم شخصیات نے آپ کا ایک خطاب سننے پر ہی اپنی سوچ کا رخ موڑ دیا اور پھر زندگی بھر ہر مشکل کو برداشت کرتے ہوئے جانبِ منزل رواں دواں رہے۔ حسن البناؒ کے جانشین اور اخوان کے دوسرے مرشد عام حسن الہضیبیؒ (1891 -1973ء) بہت بڑے قانون دان اور عدالت عالیہ کے جج تھے۔ وہ اخوان میں کیسے آئے‘ خود ان کا بیان پڑھیے۔
آپ نے فرمایا کہ میں اپنے ساتھی ججوں اور وکلا کے ساتھ شام کو دریائے نیل کے کنارے سیر کے لیے نکلا کرتا تھا۔ ایک روز ہم سیر کے لیے گئے تو یکے بعد دیگرے نوجوانوں اور بوڑھوں کے بڑے بڑے گروپ اسی جانب جاتے ہوئے دیکھے جدھر ہم جا رہے تھے۔ ہم نے پوچھا: کہاں جا رہے ہو؟ تو انہوں نے بتایا کہ فلاں کھلے میدان میں حسن البنا کا خطاب سننے جا رہے ہیں۔ میں نے کہا: چلو ہم بھی چلتے ہیں، تو میرے ساتھیوں نے کہا کہ ان مذہبی خطیبوں کے خطابات میں کیا رکھا ہوتا ہے۔ ایسے ہی کہانیاں سناتے ہیں جن کا سر پیر ہوتا ہی نہیں۔ میں نے کہا: کون سا ہم نے ٹکٹ لینا ہے ، اگر کوئی اچھی بات ہوئی تو سن لیں گے ورنہ اپنی راہ لیں گے۔
جب ہم اس میدان میں پہنچے تو لوگوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھا۔ عین اسی لمحے سٹیج پر ایک خوب صورت نوجوان نمودار ہوا۔ یوں محسوس ہوا کہ جیسے اس کے سر کے اوپر روشنی کا ہالا ہے۔ اعلان ہوا کہ حسن البنا کا خطاب شروع ہونے والا ہے۔ مقرر نے خطاب شروع کیا تو محسوس ہوا کہ تمام حاضرین کے دل اس کی مٹھی میں بند ہیں۔ کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے کا خطاب ہوا اور وقت گزرنے کا پتا ہی نہ چلا۔ (جاری)