صحابیٔ رسول حضرت ذوالبجادین رضی اللہ عنہ کا اصلی نام عبدالعزیٰ بن عبد نہم تھا۔ آپؓ قبیلہ بنو مزینہ سے تھے۔ بنو مزینہ کا سلسلۂ نسب مضر اور معد بن عدنان سے جا ملتا ہے۔ یہ قبیلہ بہت مشہور تھا اس قبیلہ میں تاریخِ اسلام کے مشہور سپہ سالار حضرت نعمان ابن مقرنؓ مزنی پیدا ہوئے جو فتحِ عراق میں بہت نمایاں مقام رکھتے ہیں (خصوصاً جنگِ نہاوند میں)۔ یہ چھ بھائی تھے اور بنو مقرن کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ سبھی بھائی شجاعت و بہادری اور فن سپہ گری میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے۔ اسی قبیلہ میں عبدالعزیٰ نے آنکھ کھولی۔
عبد العزیٰ ابھی بچہ ہی تھا کہ باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا، اس کی والدہ نے اسے پالا پوسا۔ جب جوان ہوا تو چچا نے اپنی بکریاں چرانے پر لگا دیا۔ اس کے عوض میں ایک بکری اس کے نام کردی۔ اس طرح عبدالعزیٰ کو معاشی لحاظ سے گزر بسر میں کوئی دِقت نہیں ہوئی۔اس کی ایک بکری سے بھی اس کا اپنا ایک گلہ بن گیا۔
حضورِ اکرمﷺ کی دعوت و تبلیغ کی شہرت چند ہی سال میں دُور دُور تک پھیل گئی تھی۔ مکہ میں جو بھی قافلے حج یا تجارت کی غرض سے آتے تھے، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کے سامنے توحید کا پیغام پیش فرماتے۔ مکہ اور اس کے گردونواح کے اجتماعات تبلیغ اسلام کا ایک بہترین ذریعہ بن گئے تھے۔ سوقِ عکاظ میں عرب کا سب سے عظیم الشان میلہ لگتا تھا اور جس میں تقریباً پورے جزیرہ نمائے عرب سے لوگ شامل ہوتے تھے۔ حضورِ اکرمﷺاپنا پیغامِ حق لوگوں کو سناتے تھے اس موقع پر آپﷺ کی بڑی سخت مخالفت بھی ہوتی تھی۔ آپﷺ کا چچا ابولہب آپ کے ساتھ لگا رہتا۔ جوں ہی آپﷺ بات کرنے کی کوشش کرتے ابولہب مٹی کی مٹھی بھر کر آپﷺ کی جانب اچھالتا اور کہتا ''لوگو! اس کی بات نہ سننا، یہ مجنون ہے‘‘۔ معاذ اللہ!
بہرحال آپﷺ کی دعوت سُن کر لوگ واپس جاتے تو قبائل کی محفلوں میں یہ دعوت موضوعِ بحث بنی رہتی۔ اس طرح بے شمار پرستارانِ حق غائبانہ طور پر اسلام کی طرف راغب ہو چکے تھے۔عبدالعزیٰ بھی‘ جو آگے چل کر ذوالبجادین بنے، انہی متلاشیانِ حق میں سے تھے۔
عبدالعزیٰ دل سے توحید کا قائل ہو گیا تھا، اسے اس پیغام کی حقانیت میں کسی قسم کا شک نہ تھا جو محمدرسول اللہﷺ نے پیش کیا تھا۔ وہ مسلمان تو ہو چکا تھا لیکن ابھی تک اس نے اس کا اظہار نہ کیا تھا۔ جب مکہ فتح ہو گیا تو عرب کے تمام قبائل جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ عبدالعزیٰ کا خیال تھا کہ اب تو اس کا چچا بھی مدینہ جا کر اسلام میں داخل ہو جائے گا اور یوں اس کے لیے بھی راستہ کھل جائے گا، لیکن اس کے چچا پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ بدستور ایک صحرائی مقام پر اپنی بکریوں اور اونٹوں کی تعداد بڑھانے میں مصروف تھا۔آخر ایک دن وہ اپنے چچا کے پاس گیا اور اس سے کھل کر اپنا مدعا بیان کر دیا۔ عبدالعزیٰ اپنے چچا کو اپنا محسن سمجھتا تھا، اس نے عمر بھر اس کی کسی بات سے اختلاف نہ کیا تھا مگر اب ایک موڑ ایسا آ گیا تھا جہاں سے دونوں کی راہیں الگ الگ ہونے والی تھیں۔ دل میں ایک آگ لگی ہوئی تھی اور اس کے شعلے اب چھپائے نہ چھپ سکتے تھے۔
عبدالعزیٰ نے اپنے چچا سے کہا ''پیارے چچا! میں مدتوں سے اسلام کی تڑپ دل میں لیے ہوئے ہوں۔ میں اجازت چاہتا ہوں کہ اسلام قبول کر لوں‘‘۔چچا نے بھتیجے کی یہ گفتگو سُنی تو بہت غصے ہوا اور کہا ''خبردار! اگر تو نے محمد بن عبداللہ کا دین اختیار کیا تو‘ میں سب کچھ تجھ سے چھین لوں گا‘‘۔یہ سُن کر عبدالعزیٰ نے فوراً جواب دیا ''مجھے مال و دولت کی ہرگز پروا نہیں، میں ضرور اسلام قبول کروں گا۔ آپ یہ سارا زرومال سنبھالیے، مجھے یقین ہے کہ یہ سب کچھ یہیں دھرا رہ جائے گا۔ میں دنیا کے لیے دین کو ترک نہیں کر سکتا‘‘۔چچا نے کہا ''اچھا یہ بات ہے تو پھر یہ کپڑے بھی اُتار دو اور یہاں سے چلے جائو‘‘۔
عبدالعزی نے شام کو کپڑے اُتار پھینکے اور مادر زاد برہنہ ہو کر اپنی ماں کے پاس چلا گیا۔ ماں نے اسے اس حال میں دیکھا تو سخت پریشان ہوئی۔ عبدالعزیٰ ایک کونے میں دب کر بیٹھ گیا اس کی ماں نے اسے ایک کمبل دیا، مردِحق آگاہ نے وہ کمبل بدن کے گرد لپیٹ لیا۔ ماں نے پوچھا ''یہ تم کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘عبدالعزیٰ نے کہا کہ میں مسلمان اور مؤحد ہو گیا ہوں، چچا نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا ہے، میں اب مدینے جا رہا ہوں جہاں میرا اَن دیکھا محبوب جلوہ افروز ہے۔
الوداعی کلمات کہنے کے بعد عبدالعزیٰ وہاں سے رخصت ہوا اس کی منزل مدینہ تھی۔ اس نے کمبل پھاڑ کر اس کے دو ٹکڑے بنا لیے تھے۔ ایک تہبند کے طور پر کمر سے باندھ لیا اور دوسرا جسم پر ڈال لیا۔ راہِ حق میں بڑی مشکلات آیا کرتی ہیں، حبِ مال و دولت اور ہوسِ زر انسان کے قدم باندھنے کی کوشش کرتی ہے تو کمزور انسان حق سے منہ موڑ لیتا ہے اور نفس کا بندہ بن جاتا ہے۔ اس کا دل ایک بات کی گواہی دیتا ہے لیکن عمل اس گواہی کے اُلٹ ہوتا ہے۔ قبولِ حق کی راہ میں عزیز و اقارب اور برادری کی محبت بھی روڑا بنتی ہے۔ یہ رشتہ داریاں بھی بسا اوقات دامن دل کھینچ لینے میں کامیاب ہو جاتی ہیں اور آدمی نورِ حقیقت کو دیکھ لینے کے باوجود تاریکی میں ہی رہتا ہے۔ عبدالعزیٰ کے سامنے بھی رکاوٹیں پورے طمطراق کے ساتھ آئیں لیکن اس نے ان کو ایک ضربِ مجاہدانہ سے پاش پاش کر دیا۔ وہ چچا کی ازحد عزت کرتا تھا لیکن جب چچا اسلام کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے پر مصر ہوا تو اس نے چچا کو بھی چھوڑ دیا۔
مدینہ کی راہ تھی اور عبدالعزیٰ کے تیزی سے بڑھتے ہوئے قدم، وہ بڑی محبت اور اشتیاق سے دیارِ محبوب کی طرف رواں دواں تھا، ساری رات وہ سفر کرتا رہا، صبح دَم وہ مدینے میں داخل ہوا، مسجد نبوی کی ایک دیوار سے ٹیک لگائی اوربیٹھ کر سو گیا۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو پوچھا ''یاذوالبجادین تم کون ہو؟‘‘۔ جواب دیا: میں ایک غریب الدیار مسافر ہوں، میرا نام عبدالعزیٰ ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ''تمہارا نام عبداللہ ہے اور تمہارا لقب ذوالبجادین (یعنی دو کمبلوں والا)‘‘۔ پھر اس کی پوری کہانی سنی اور خوش ہو کر فرمایا: تم ہمارے مہمان ہو اور یہیں ہمارے قریب رہو۔اگلے روز نمازِ فجر کے بعد آپﷺ نے صحابہ کرام کو کہا کہ تم سب اپنے بھائی کی ایمان افروز کہانی سنو۔
یوں عبدالعزیٰ عبداللہ ذوالبجادینؓ بنے اور سب کچھ چھوڑ کر آنے والے کو ہادیٔ برحقﷺ کا مہمان بننے کا شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے اصحابِ صفہ کے ساتھ مسجد نبوی میں رہائش اختیار کر لی۔ اب وہ دن رات قرآن و حدیث کی تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ اسی دوران اللہ کا حکم آیا اور حضورپاکﷺ نے غزوۂ تبوک کی تیاری کا اعلان کیا تو حضرت عبداللہؓ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ''یا رسول اللہﷺ! میرے پاس سواری نہیں اور میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: میں تمہیں لے چلوں گا۔ اس پر بہت خوش ہوگئے۔ راستے میں ایک منزل پر حضورپاکﷺ سے عرض کیا : دعا فرمائیے کہ مجھے شہادت مل جائے۔ آپﷺ نے دعا فرمائی: یا الٰہی میں عبداللہ کا خون کفار پر حرام کرتا ہوں۔
حضرت عبداللہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ!میں تو شہادت کا طلب گار ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا ''جب تم جہاد کی نیت سے نکلو اور بخار میں مبتلا ہو کر مر جائو تو تم شہید ہو اور اللہ کے ہاں تمہارا اجر مقدر ہے‘‘۔تبوک پہنچ کر بالکل یہی ہوا۔ حضرت عبداللہؓ بخار میں مبتلا ہوئے اور دنیا سے رحلت فرما گئے۔حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا کہنا ہے کہ رات کی تاریکی میں مَیں نے روشنی دیکھی۔ میں فوج سے نکل کر روشنی کی طرف گیا۔ میں نے دیکھا کہ بلالؓ کے ہاتھ میں شمع ہے اور عبداللہ ذوالبجادینؓ کا جنازہ ادا کیا جا رہا ہے۔ جنازے کے بعد حضورِ اکرمﷺ قبر کے اوپر کھڑے تھے اور ابوبکر صدیق اور عمر رضی اللہ عنہما اپنے شہید بھائی کی لاش قبر میں اُتار رہے تھے۔ حضورِ اکرمﷺ بڑی محبت سے کہہ رہے تھے: ادبا الی اخیکما اکرما اخاکما۔ ''اپنے بھائی کا ادب ملحوظ رکھو، اپنے بھائی کا احترام ملحوظ رکھو‘‘۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ''اے باری تعالیٰ! میں آج شام اس سے راضی تھا، پس تو بھی (اپنے اس بندے پر) راضی ہو جا۔‘‘حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ قابلِ رشک منظر دیکھا تو دل میں آیا ''کاش! اس قبر میں آج مجھے دفن کیا جا رہا ہوتا‘‘۔اللہ اللہ! کہاں یہ مرتبۂ عظیم اور کہاں دنیا کی متاعِ حقیر!
شہدائے غزہ کی قبریں بھی ذوالبجادین کی قبر سے مکمل مشابہت رکھی ہیں۔ اے اللہ! تونے تبوک سے قیصر کے لشکر کو بھگا دیا۔ ہاتھیوں کے لشکر کو ابابیلوں سے مروا دیا۔ اب بھی تُو ہی سہارا ہے، باقی سب سہارے ناکام ہیں۔ تجھی سے فریاد ہے، تجھی سے التجا ہے!