رسولِ رحمتﷺ اور نصرتِ خداوندی

طاغوتی قوتوں کے پاس ہر دور میں مادی وسائل اور اسلحے کی قوت اہلِ حق کے مقابلے میں زیادہ رہی ہے۔ جب بھی اہلِ حق نے اخلاص کے ساتھ حق کا عَلم اٹھایا‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو حقیقی معنوں میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرے، اللہ اسے مشکلات سے نجات کا راستہ بھی دے دیتا ہے اور رزق بھی ایسے ذرائع سے عطا فرماتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔ (الطلاق: 2 تا 3) غزوۂ احزاب کے تفصیلی حالات سورۂ احزاب میں اور احادیث کے تمام مجموعوں میں مغازی کے ابواب میں بیان ہوئے ہیں۔ اس جنگ میں جو قابلِ ذکر اور فیصلہ کن واقعات رونما ہوئے ان میں حضرت نعیم بن مسعودؓ کا قبولِ اسلام اور اسلام کے حق میں ان کی جنگی چال نہایت اہم ہے۔ یہ مردِ دانا قبیلہ بنو غطفان سے تعلق رکھتا تھا اور اسلام کو ختم کرنے کے لیے مشرکینِ قریش اور غطفان کی فوجوں کے ساتھ مدینے کے محاصرے میں شریک تھا۔ اﷲ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اس شخص کو دوزخ کی آگ سے بچا کر جنت کا مستحق بنا دیا جائے اور اس کے ذریعے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا جائے۔ چنانچہ طویل محاصرے کے دوران اس کے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی اور اس نے ایک عظیم اور تاریخی کارنامہ سرانجام دیا۔ حضرت نعیم بن مسعودؓ کا ذکر کیے بغیر جنگ خندق کا تذکرہ مکمل نہیں ہو سکتا۔
حضرت نعیمؓ کے اسم علم کا تلفظ حُسین کے وزن پر نُعیم ہے نہ کہ عظیم کے وزن پر نعیم۔ اللہ کی قدرت سے جب نُعیم بن مسعودؓ کے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی تو انہوں نے اس کا اظہار کرنے کے بجائے اسے مخفی رکھا۔ سب سے پہلے وہ خفیہ طور پر آنحضورﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور اپنے قبولِ اسلام کا ذکر کیا۔ پھر آنحضورﷺ کے حکم کے مطابق دشمنانِ اسلام کے پاس یکے بعد دیگرے گئے۔ آنحضورﷺ نے اس عظیم صحابی کو اجازت دی کہ وہ اپنے اسلام کو خفیہ رکھیں اور دشمن کو زک پہنچانے کے لیے حسبِ ضرورت توریہ سے کام لیں۔ حضرت نعیم بن مسعودؓ نے سب سے پہلے یہودانِ بنو قریظہ سے رابطہ قائم کیا۔ پھر سردارانِ قریش کے پاس گئے اور سب سے آخر میں اپنے قبیلے بنو غطفان کے تین رئوسا سے بات چیت کی۔ ان کی اس مہم کا مختصر مگر ایمان افروز تذکرہ پیشِ خدمت ہے۔
ایک روز رات کی تاریکی میں نعیم بن مسعودؓ اپنے خیمے سے نکلے اور لشکر کفار سے بچتے بچاتے خندق کے پاس آ گئے۔ قریش کے لشکر میں سے نکل جانا بھی احتیاط کا کام تھا مگر خندق کے اس پار آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچنا تو انتہائی دشوار تھا۔ دل میں شمعِ اسلام روشن تھی اور خطرات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے یہ پروانہ شمع کی طرف دیوانہ وار لپک رہا تھا۔ آخر کار خندق کو عبور کر کے وہ شمعِ رسالتﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ انہوں نے آنحضورﷺ تک پہنچنے سے پہلے صحابہ کرام سے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ ایک اہم کام کے سلسلے میں وہ حضور اکرمﷺ کی خدمت میں شرف باریابی چاہتے ہیں۔ نعیم بن مسعودؓ معروف آدمی تھے جن کو کئی صحابہ کرام پہنچاتے تھے۔ چنانچہ صحابہ انہیں ساتھ لے کر آنحضورﷺ کے پاس پہنچے تو نعیم نے عرض کیا ''یا رسول اﷲﷺ! اﷲ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی نعمت عطا فرما دی ہے۔ میرے قبولِ اسلام کا ابھی تک کسی کو پتا نہیں۔ میں آپ کے حکم کا منتظر ہوں۔ میرے ذہن میں ایک نقشہ ہے جس پر عمل کرکے جنگ کا پانسہ پلٹا جا سکتا ہے۔ پھر انہوں نے اپنا پورا نقشہ پیش کیا۔
حضرت نعیمؓ عرب کے ذہین ترین لوگوں میں سے تھے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تجویز کی تحسین فرمائی اور فرمایا: الحرب خدعۃ (یعنی جنگ میں تو چالیں ہی چلی جاتی ہیں) آنحضورﷺ کا یہ مختصر اور جامع قول میدانِ حرب و ضرب میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ آپﷺ نے اس سے پہلے بھی جنگیں لڑی تھیں مگر یہ پہلا موقع تھا کہ جب آپﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی تو آپﷺ کے جاں نثاروں نے اس پر بکمال و تمام عمل کر دکھایا۔ نعیم بن مسعودؓ اپنے دورِ جوانی سے یثرب آتے رہتے تھے۔ یہاں مختلف لوگوں سے ان کے تعلقات تھے۔ ان سے سب سے زیادہ مانوس بنو قریظہ تھے۔ وہ ان کی مجالس میں بیٹھتے اور ان کی شعر و شاعری اور بادہ و جام سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ رات کی تاریکی میں جب وہ بنو قریظہ کے ہاں پہنچے تو میزبانوں کو کوئی تعجب نہ ہوا۔ یہ مہمان ان کے لیے اجنبی تھا نہ خطرناک! بنو قریظہ نے ان کا استقبال کیا اور انہیں عزت کے ساتھ بٹھایا۔ انہوں نے ان کے سامنے کھانے پینے کی چیزیں لا کر رکھ دیں۔ مگر نعیم نے ان سے کہا کہ حالات اتنے خطرناک ہو چکے ہیں کہ مجھے کھانا سوجھتا ہے نہ شراب!
بنو قریظہ کے لوگوں نے تجسس کے ساتھ پوچھا: ''کیا بات ہے؟‘‘ انہوں نے فرمایا: ''اے بنو قریظہ! تم مجھ سے بھی اچھی طرح واقف ہو اور اپنے ساتھ میری دوستی اور محبت کو بھی خوب جانتے ہو۔ میں نے ہمیشہ تمہاری میزبانی کا لطف اٹھایا ہے، تمہاری مجلسوں میں مجھے ہمیشہ اعزاز و اکرام حاصل رہا ہے۔ جواب میں مَیں نے بھی ہمیشہ تمہارے ساتھ حسنِ سلوک کیا اور دوستی کا حق نبھایا ہے۔ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟‘‘ بنو قریظہ کے سرداروں نے بیک زبان کہا: ''تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو، ہمیں تمہاری دوستی کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے‘‘۔
نعیم بن مسعودؓ نے کہا: ''قریش اور غطفان کا معاملہ تم سے بالکل مختلف ہے۔ قریش اور غطفان دور دراز سے چل کر آئے ہیں۔ ان کے گھر بار اور بال بچے یہاں سے کوسوں دور بالکل محفوظ و مامون ہیں۔ تمہارا معاملہ یہ ہے کہ تمہارے گھر بار اور بال بچے مسلمانوں کی زد میں ہیں۔ قریش اور غطفان کے لوگوں کو میں نے ایسی باتیں کرتے ہوئے سنا ہے جو پریشان کن ہیں۔ وہ آپس میں محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صلح کرنے کی باتیں بھی کرتے ہیں اور کبھی اچانک محاصرہ اٹھا کر واپس چلے جانے کی باتیں بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر فتح مل جائے تو اچھا ہے وگرنہ واپسی کا راستہ کس نے بند کیا ہے؟ جبکہ تمہارا معاملہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والا ہے۔ محمد(ﷺ) کے ساتھ بھی تم نے اپنا معاہدہ توڑ دیا ہے اور اتحادی فوجوں کا بھی کوئی بھروسہ نہیں ہے‘‘۔
نعیم بن مسعودؓ کی باتیں سن کر بنی قریظہ سخت پریشان ہوئے۔ انہیں اپنی غلطیوں کا بھی احساس ہوا اور اس مشکل صورتِ حال سے نکلنے کی فکر بھی دامن گیر ہوئی۔ انہوں نے نعیم سے پوچھا: ''پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ نعیم نے جواب دیا: ''میں ایک دوست کی حیثیت سے حق نصیحت ادا کرتے ہوئے تمہیں مشورہ دیتا ہوں کہ اتحادی فوجوں کو یہ پیغام بھیجو کہ ''اگر تم ہماری حمایت چاہتے ہو تو اپنے ستر منتخب آدمی ہمارے حوالے کر دو۔ اگر قریش اور غطفان کے ستر آدمی تمہارے پاس ہوں گے تو پھر تمہارے ساتھ وہ کوئی بدعہدی نہیں کر سکیں گے۔ ورنہ ان کا کوئی بھروسہ ہے نہ اعتماد‘‘۔ بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ نعیم نے ان ستر یرغمالی افراد کے نام بھی تجویز کیے تھے۔ سردارِ قریش ابوسفیان بن حرب کے بیٹے معاویہ بن ابی سفیان کا نام بھی ان میں شامل تھا۔ بنو قریظہ نے نعیم کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے اس آڑے وقت میں دوستی کا حق ادا کیا اور انہیں خطرے سے آگاہ کر دیا۔ نعیم نے بنو قریظہ کو تاکید کی کہ اس کی آمد کے بارے میں کسی کو اطلاع نہ دیں۔ رات کی تاریکی ہی میں نعیم واپس اپنے لشکر میں پہنچ گئے۔
یہاں سے اب نعیم فوراً سردارانِ قریش کے پاس پہنچے اور سپریم کمانڈر ابوسفیان سے ملاقات کی۔ انہوں نے ابوسفیان سے کہا کہ وہ ایک بہت اہم مگر انتہائی خطرناک خبر لائے ہیں۔ ابوسفیان نے کہا کہ اگر کوئی ایسا معاملہ ہے تو باقی سردارانِ قریش کو بھی مشاورت میں شریک کر لیا جائے۔ نعیم نے کہا: ضرور ان کو بلا لیا جائے؛ چنانچہ سب سردار جمع ہو گئے۔ نعیم نے اپنی بات کا آغاز یوں کیا: ''سردارانِ قریش! تمہارے ساتھ میری دوستی اور محبت اور مسلمانوں کے ساتھ میری نفرت اور عداوت کوئی راز تو نہیں؟‘‘ سب سرداروں نے کہا ''نہیں اس امر میں کسی کو کیا شک ہے‘‘۔ اب نعیم نے اپنی بات شروع کی: ''تم جانتے ہو کہ بنو قریظہ مجھ پر بڑا اعتماد کرتے ہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ بنو قریظہ کو محمد (ﷺ) کے ساتھ معاہدہ توڑنے پر سخت ندامت ہے۔ انہوں نے محمد (ﷺ) کے ساتھ رابطہ قائم کیا ہے اور تجدیدِ عہد کے لیے ان کے درمیان یہ بات طے پا گئی ہے کہ بنو قریظہ قریش اور غطفان کے ستر منتخب افراد ان کے حوالے کر دیں گے تاکہ وہ ان کی گردنیں کاٹ سکیں۔ بنو قریظہ کی اس پیش کش کو مسلمانوں نے قبول کر لیا ہے اور اس شرط کے پورا ہونے پر ان کی بدعہدی معاف کر دینے کا وعدہ کر لیا ہے‘‘۔
قریش کے سردار غم و غصے کے ساتھ یہودیوں کی بے وفائی کا تذکرہ سن رہے تھے اور خوف و دہشت ان کے دل و دماغ پر حاوی تھی۔ نعیم نے دیکھا کہ تیر نشانے پر لگا ہے تو فرمایا : ''یہودیوں کا پیغام ملے تو ایک آدمی بھی ان کے حوالے نہ کرنا‘‘۔ قریش ایک جانب صورتِ حال سے مایوس تھے، اپنے دل میں یہودیوں کو کوس رہے تھے اور دوسری جانب نعیم بن مسعود کے شکر گزار تھے کہ اس نے انہیں بروقت متنبہ کرکے ایک بڑے خطرے سے بچا لیا۔ اس کے بعد قریش نے نعیم بن مسعود کو اکرام و احترام کے ساتھ رخصت کیا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں