بچپن کی چند یادیں! …(1)

میں نے بچپن کے واقعات پر مشتمل اپنی ایک پرانی ڈائری دیکھی تو بعض دلچسپ واقعات اس میں ملے۔ بعض واقعات گھر سے باہر کی زندگی سے متعلق تھے اور بعض خاندانی اور گھریلو امور کے بارے میں تھے۔
میرے دادا جان بلند قامت اور بہت دبلے پتلے انسان تھے۔ ہم نے تو ان کو عمر کے آخری حصے ہی میں دیکھا تھا۔ بزرگوں سے مرحوم کی ذہانت، حاضرجوابی،بہادری اور مردانگی کے بہت سے واقعات سنے۔ خاندانی روایات کے مطابق آپ نوعمری ہی سے بہترین شاہ سوار تھے۔ میرے نانا جان (جن کی وفات 1970ء میں ہوئی) ہمیں بہت سے واقعات سنایا کرتے تھے۔ میرے بچپن میں حفظِ قرآن کے لیے مرحوم نے جو کاوشیں کیں ان کی وجہ سے مجھے ان کے بارے میں بزرگوں سے سنے ہوئے واقعات آج تک بہت محبوب ہیں۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ دادا جان نوعمری میں ایک گائوں کے پاس سے گزرے۔ اس گائوں کے ایک بڑے زمیندار کی مجلس کے پاس پہنچے تو اس بزرگ نے اپنی طرف بلایا اور تعارف پوچھا۔ آپ نے اپنا نام بتایا: میاں فتح علی، اور پھرخاندانی تعارف کرایا تو وہ بزرگ بولے: فتح علی کے ساتھ میاں جچتا نہیں، پھر حقارت سے کہنے لگے کہ ایسے نام تو چودھریوں کے ہوتے ہیں۔ دادا جان اس بزرگ کو اچھی طرح جانتے تھے۔ آپ نے فرمایا ''میاں صاحب نام تو والدین نے ہی رکھا تھا، میرا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ آپ کا نام تو ماشاء اللہ پیغمبری ہے، میاں محمد اسماعیل! مگر آپ کے کارنامے تو سب میاں برادری کے لیے باعثِ عار ہیں۔ جس شخص کی بھی بھینس چوری ہو جائے اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ آپ کے ذریعے دریائے جہلم یا چناب پار کر چکی ہو گی‘‘۔ ساری مجلس دم بخود تھی اور میاں اسماعیل بھی لاجواب! ایک شخص نے کہا: نوجوان میاں محمد مصطفی کا بیٹا اور بابا عبدالخالق کا نمائندہ ہے۔
ایک بار نوعمری میں گائوں سے جانبِ شمال (اپنی زمینوں اور پھر آگے ڈھولہ گائوں کی طرف) جانے والے راستے پر گھوڑی دوڑائی تو اس سے گر گئے۔ آپ کے بڑے بھائی حافظ غلام علی صاحب نے اپنے مکان کی چھت سے یہ منظر دیکھا۔ آپ کے گھوڑوں اور گھوڑیوں کے بارے میں ہم نے بزرگوں سے یہ بھی سنا تھا کہ سوار کے گر جانے پر وہ کہیں دور بھاگ جانے کے بجائے اس کے پاس آ کر کھڑی ہو جاتی تھیں۔ جانوروں کی اپنے مالک سے وفاداری کے بہت سے واقعات تاریخ انسانی میں محفوظ ہیں۔ دادا جان نے اٹھ کر گھوڑی پر پھر چھلانگ لگائی اور ایڑ لگا کر اسے دوبارہ دوڑا دیا۔ پھر فصلوں اور زمینوں کا چکر لگا کر واپس آئے۔ حافظ غلام علی صاحب کے دروازے سے گزر رہے تھے تو انہوں نے کہا ''ہاں بھائی صاحب! آج خوب بازی لگی؟‘‘ فرمانے لگے: ''حافظ جی! سواروں کی بازیاں تو لگتی ہی رہتی ہیں، جو مردانِ ہنرمند گھروں میں انگیٹھیاں اور چولھے بنانے میں مصروف رہیں، وہ بازیوں سے محفوظ ہوتے ہیں‘‘۔
بزرگوں سے یہ واقعہ سنا تو بے ساختہ غالبؔ کا شعر یاد آ گیا:
گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
دیہات ہوں یا شہر‘ سماجی و معاشرتی معاملات پہ نظر رکھنے والی کوئی اتھارٹی یا ذمہ دار افراد اور محکمے نہ ہوں تو معاشرہ بگاڑ کا شکار ہو جاتا ہے۔ کمزور بے بس اور طاقتور منہ زور ہو جاتے ہیں۔ دانش مندی اور بہادری کا امتزاج اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ موجود ہو تو اس معاشرتی مرض کا علاج ممکن ہوتا ہے۔ ورنہ بدچلنی اور سینہ زوری معاشرے کا سرطان بن جاتی ہے۔ ہمارے گائوں کے بزرگ ہمارے دادا جان کے متعلق کئی واقعات کا اکثر تذکرہ کیا کرتے تھے۔ بیشترواقعات میری پیدائش سے پہلے کے ہیں جو اپنے خاندانی بزرگوں کے علاوہ علاقے کے دیگر لوگوں سے بھی سننے کا موقع ملا۔
پرانے وقتوں میں جدید تعلیم یافتہ افراد بہت شاذ و نادر ہوتے تھے۔ ہمارے گائوں کے ایک پڑھے لکھے فرد‘ جو شعبہ تعلیم میں ملازم تھے‘ اپنا پرانا مکان گرا کر نئے سرے سے تعمیر کر رہے تھے، ان کا گھر جس گلی میں واقع ہے، وہ پہلے سے ہی تنگ تھی۔ اسے تنگ گلی یا اندرونی گلی کہا جاتا تھا۔ موصوف منشی جی (ٹیچر کو ماسٹر یا منشی کہا جاتا تھا) نے اپنی دیوار گلی کی طرف مزید بڑھانے کی کوشش کی۔ ہمارے دادا جان گائوں کے اندر ایسے تمام معاملات پر نظر رکھا کرتے تھے۔ منشی جی کے گھر کی دوسری جانب بے چارے غریب اور غیر کاشتکار (جولاہے) لوگوں کے گھر تھے جو کھڈیوں میں کپڑا بُنا کرتے اور اپنی روزی کماتے۔ دادا جان مرحوم کو اس واقعہ کا علم ہوا تو موقع پر پہنچے اور مزدوروں‘ مستریوں کو کام سے روک دیا۔ منشی جی اندر سے آئے اور بحث مباحثہ شروع ہو گیا۔ دادا جان انہی دنوں حج کر کے واپس آئے تھے۔ منشی شرف دین صاحب کہنے لگے ''کیا مکہ اور مدینہ والوں نے آپ کو یہ کہا ہے کہ جا کر لوگوں کے ذاتی کاموں میں رکاوٹ ڈالتے رہنا؟‘‘ اس کے جواب میں دادا جان نے فرمایا '' انہوں نے مجھے یہ بھی نہیں کہا کہ آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہنا، جو کسی کے جی میں آئے وہ کرتا پھرے، اپنی من مانی سے دوسروں کا حق چھینتا رہے۔ یہ میرا اخلاقی و دینی فرض ہے کہ میں کمزور لوگوں کے حقوق پر کسی طاقتور کو ڈاکا نہ ڈالنے دوں‘‘۔ پس وہ دیوار اپنی اصلی جگہ پر چلی گئی اور جولاہا برادری کے غریب لوگوں نے بابا جی کا بہت شکریہ ادا کیا۔ اس طرح کے کئی واقعات ہیں، مگر طوالت کے خوف سے انہیں چھوڑتا ہوں۔
ہمارے گائوں میں‘ جہاں تک مجھے معلومات ملی ہیں‘ قتل کا المیہ ایک مرتبہ کے سوا پوری تاریخ میں کبھی وقوع پذیر نہیں ہوا۔ یہ سانحہ غیرت کے معاملے میں دو خاندانوں گورسی اور کھوکھر کے درمیان ہوا۔ یہ ہماری نوعمری کا واقعہ ہے، دادا جان کی وفات کے بعد کا، مرحوم کی زندگی کا جو مختصر دور دیکھنے کی مجھے سعادت ملی، اس میں افراد یا برادریوں کے درمیان کوئی تنازع کھڑا ہو جاتا تو فریقین کو ہمارے بزرگ اپنی چوپال یا اپنے گھر میں بلا لیتے اور ان کے درمیان صلح کرا دیتے۔ ایک آدھ بار ایسا بھی ہوا کہ فریقین میں سے کسی ایک نے دوسرے کا قرض دینا ہوتا جو ادا کرنا اس کی سکت میں نہ ہوتا، تو دادا جان غلّے کی صورت میں خود اس کی ادائیگی کر کے معاملہ حل کر دیتے اور مقروض سے کہتے کہ وہ اپنی سہولت کے مطابق جب ممکن ہو‘ غلہ واپس کر دے۔
میرے ایک رشتہ دار جن کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں ہمارے ساتھ مل جاتا ہے، مجھے کئی مرتبہ ایک واقعہ بڑی محبت کے ساتھ سنایا کرتے تھے۔ مرحوم نے بتایا کہ ان کے والد (جن کو ہم نے بھی بہت قریب سے دیکھا تھا) اپنی زمینوں پر کھیتی باڑی میں دلچسپی لینے کے بجائے سیر سپاٹے کے شوقین تھے۔ ''میں اکیلا بھائی اور دو بہنیں تھیں، ہمارے معاشی حالات نے مجھے چھوٹی عمر میں ہل چلانے پر مجبور کر دیا۔ ان دنوں میں میری والدہ ضرورت کے وقت آپ کی پھوپھی سے مدد مانگتیں اور چولھا جلتا۔ اس زمانے میں ہندو آبادی‘ جو ملحقہ گائوں جوڑا میں رہتی تھی‘ ضرورت مند لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتی تھی۔ میرے ماں باپ نے ارادہ کیا کہ ان کھتریوں سے قرض لیاجائے۔ جب بابا فتح علی مرحوم کو اس بات کا پتا چلا تو انہوں نے میرے ماں باپ کو اپنے پاس بلایا۔ (ان لوگوں کا گھر ہمارے گھر سے بالکل متصل جانب مشرق واقع تھا)۔ انہوں نے میری والدہ کی محنت و مشقت اور گھریلو معاملات کو سلیقے سے سنبھالنے کی تحسین فرمائی۔ اس کے بعد میرے والد کی جو کلاس لی وہ یادگار تھی۔ اس ایک روز کی سرزنش اور سخت الفاظ میں لعن طعن نے ہمارے گھر کی قسمت بدل دی۔ میرے والد نے اپنی ذمہ داریوں کو سنبھال لیا اور خوب نبھایا۔ میں بھی ان کے ساتھ حسب معمول محنت و مشقت کرتا رہا۔
سود پر رقم لینے کے ارادے پر بابا جی اس قدر غصے ہوئے کہ مجھے لگا وہ ہمارے باپ کی ٹھکائی کر دیں گے، مگر سختی کے بعد انہوں نے پیار محبت اور نرمی سے معاملہ سلجھا دیا۔ ساتھ ہی کہا ''جتنے غلّے اور پیسوں کی ضرورت ہے، وہ لے لیں، مگر خبردار! کبھی سود کا خیال دل میں نہ لائیں۔ فصل پکنے پر جتنا ممکن ہو غلہ واپس کر دیں اور حالات درست ہو جائیں تو قرض اتار دینا۔ حافظ جی!(متکلم عطا محمد مرحوم مجھ سے کئی سال بڑے تھے، مگر احتراماً مجھے حافظ جی کہہ کر ہی مخاطب کیا کرتے تھے) میرے جسم کارواں رواں اس عظیم بزرگ کا احسان مند ہے جس نے ہمیں بہت نیچے سے اوپر اٹھایا‘‘۔
بھائی عطا محمد اور ان کی اولاد کو اللہ تعالیٰ نے خوشحالی سے مالامال کیا۔ مرحوم کے پانچ بیٹے تھے، ایک جوان بیٹا ان کی زندگی میں فوت ہو گیا، ایک ان کے ساتھ پاکستان اور تین بیٹے یورپی ممالک میں رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ رہنے والے بیٹے کو بھٹہ خشت میں اللہ نے بے پناہ برکت دی۔ اللہ ان سب کو سلامت رکھے اور مزید برکات سے نوازے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں