فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
قرآنِ مجید نے غزوۂ بدر کو یوم الفرقان قرار دیا ہے۔ اس روز فیصلہ ہو گیا تھا کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون؟ سید کونین ﷺ نے اپنی طرف سے مادی تیاری بھی کر لی تھی اور پھر اللہ سے دعائوں کے ذریعے نصرت بھی طلب کر رہے تھے۔ یہ بدر کا میدان تھا، رمضان 2ھ کی سترھویں رات تھی۔ حضورﷺ اپنے خیمے میں رات بھر جاگتے رہے۔
آپﷺ نمازِ عشاء سے فارغ ہو کر اپنے عریش میں دوزانو بیٹھ گئے اور اللہ کی موعودہ نصرت کو آواز دی۔ وہ رات بھی تاریخ کی عجیب رات تھی! اہلِ ایمان عشاء کی نماز کے بعد نوافل، تلاوت، ذکر الٰہی اور دعا و مناجات میں مشغول تھے۔ کسی کی آواز میں لحنِ داؤدی کا جادو تھا تو کسی کی آواز ہچکی بندھ جانے سے لرزاں و ترساں تھی۔ کوئی سربسجود تھا تو کوئی قیام میں کھڑا تھا۔ ہچکیاں بھی تھیں اور سسکیاں بھی‘ امید بھی تھی اور ایقان بھی۔
دوسری جانب اہلِ کفر کے خیموں میں اور ہی عالم تھا۔ ضیافتیں، بھُنا ہوا گوشت، بادہ و جام، قہقہے، اشعار، مزاح، کبر و غرور، خاندانی تفاخر، بہادری کے قصے اور نہ معلوم کیا کیا خرافات۔ پیٹ بھر کر کھا چکے تو صراحیوں کے منہ کھل گئے۔ رقص و موسیقی اور قریش کی بہادری پر مشتمل رزمیہ ترانے! اور اس کلچر شو کے درمیان بہکے ہوئے نوجوانوں کا غل غپاڑہ اور شور ہنگامہ! دونوں جانب کے جنگجو ایک دوسرے سے کتنے مختلف تھے! چشمِ فلک یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی اور گوشِ ارض سب کچھ سن رہا تھا۔
آسمان کی بلندیوں پر چاند مشرق سے مغرب کی جانب رواں دواں تھا۔ صحرا میں چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ منظر بے حد دلربا تھا۔ چاند سر پر آیا۔ رات کا آدھا حصہ بیت چکا تھا۔ اب ہر جانب ہُو کا عالم تھا۔ جنوب میں قریش کے خیموں میں تھرکتے ہوئے جسم تھک ہار کر بے حس پڑے تھے۔ جام کو گردش دینے والے بے سدھ خراٹے لے رہے تھے۔ قالینوں پر جگہ جگہ بادہ و ساغر اوندھے پڑے تھے۔ دوسری جانب ذرا فاصلے پر شمال میں فاقہ مستوں کے خیموں میں بھی خوش الحان قرّاء اور شب زندہ دار عابدین تھک ہار کر سو گئے تھے۔ دعائیں مانگی گئیں، آنسو بہائے گئے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و نصرت کی امید پر پہلو فرشِ خاک پر ٹکا دیے گئے۔ اب ہُو کا عالم تھا۔ نہ کسی پرندے کے پَر مارنے کی آواز، نہ درندے کے دھاڑنے کی صدا، نہ کوئی چرند اس سکوت کو توڑنے کیلئے متحرک تھا۔
عریش کے دروازے پر جاں نثارِ رسول صدیق اکبرؓ کھڑے ہیں۔ عریش کے اندر آفتابِ رسالت جلوہ فرما ہیں۔ اس سکوت میں بس ایک ہی آواز ہے جو سنائی دے رہی ہے۔ یہ اس کائنات کے سب سے بڑے اور سب سے سچے انسان محمد مصطفی ﷺ کی صدائے التجا ہے۔ عریش کے مدخل سے آسمانی چاندکی کرنیں اندر داخل ہو رہی ہیں اور زمینی چاند‘ ماہتابِ نبوت کا منور چہرہ صاف نظر آرہا ہے۔ آنسوؤں کی لڑیاں موتیوں کی صورت ریش مبارک میں جذب ہو رہی ہیں۔ کندھے سے چادر بار بار گر پڑتی ہے۔ ہچکی بندھ گئی ہے۔ ایسے میں سب سو جائیں تو سو جائیں مگر ابوبکر صدیقؓ کو نیند کیسے آ سکتی ہے؟ وہ رات بھر سے کھڑے ہیں۔ چادر بار بار اٹھا کر شانۂ مبارک پر رکھتے ہیں۔
حضور نبی کریمﷺ کی کیفیت کو دیکھ کر ابوبکرؓ کا کلیجہ منہ کو آنے لگا اور عرض کیا حسبک یا نبی اللہ۔ (یا نبی اللہ! اب بس کیجیے)۔ عین اس لمحے سرورِ دوعالمﷺ نے سر مبارک اٹھایا اور فرمایا: ابشر یا ابابکر، اے ابوبکر خوش خبری سن لو۔ جبریل آئے کھڑے تھے۔ فرشتوں کی جماعت صف بستہ حاضر تھی۔ وعدۂ ربانی پورا ہو گیا تھا۔ دعائیں مستجاب ہو چکی تھیں۔ حضور اکرمﷺ نے اللہ تعالیٰ سے یوں دعا مانگی: ''اے اللہ! یہ قریش کے لوگ ہیں اپنے تکبر اور غرور کے ساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ خداوند! جس مدد کا تُو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اب وہ آ جائے۔ اے اللہ اگر یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہو گئی تو روئے زمین پر کہیں تیری عبادت نہ ہو گی۔ اے اللہ! کل ان کفار کا کام تمام کر دے‘‘۔
ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے یہ دعا بھی مانگی: ''اے اللہ اس امت کا فرعون ابوجہل بچ کر نہ جائے‘‘۔ کچھ دوسرے سرداروں کے نام بھی ملتے ہیں جن کے قتل کی آپﷺ نے دعا مانگی تھی۔ ان میں سے ایک بھی نہ بچ کر نکلا۔ دعا میں ''ھذہ العصابہ‘‘ (یہ مٹھی بھر جماعت) کے الفاظ خاص طور پر قابلِ غور ہیں۔ قریش کی نخوت و طاقت کا تذکرہ بھی دعا میں ملتا ہے اور اپنے ساتھیوں کی بے چارگی و بے سرو سامانی کے اشارات بھی ملتے ہیں۔ حضور کریمﷺ کا کل سرمایہ وہی تھا جو آپ نے میدان میں لا کر پیش کر دیا تھا۔ یہ 313 نفوس حضور پاکﷺ کی پونجی تھی۔ آپؐ نے اپنے دامن میں جو ہیرے اور موتی جمع کیے تھے وہ یہی تھے۔ یہ تو جذبۂ شہادت سے سرشار تھے، جان قربان کر دیتے، مگر ان کی شکست کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کی عبادت کرنے والا زمین پر کوئی نہ رہتا۔
سوچئے دعا تو مدینہ منورہ میں بھی کی جا سکتی تھی۔ مسجد نبوی بدر کے میدان سے کہیں زیادہ بابرکت اور اللہ کو پسند ہے۔ یہ دعا عین میدانِ بدر میں کی گئی۔ رحمان کے بندے اور شیطان کے ساتھی ایک دوسرے کے مدمقابل آ گئے تھے، موت آنکھوں کے سامنے تھی، یہاں دعا کا فلسفہ بھی سمجھ میں آ گیا کہ پہلے اپنا سب کچھ نذر کے لیے پیش کرو پھر دستِ دعا پھیلاؤ۔ اس شان سے جب دعا مانگی گئی تو درِ قبولیت کھلا اور بظاہر ناممکن ممکن بن گیا۔ جنگ کے دن حضور اکرمﷺ نے صحابہ سے خطاب فرمایا۔ نہایت پُراثر اور جامع‘ مختصر اور دلنشین‘ جنت کی وسعتوں کا تذکرہ اور اس کی غیر فانی نعمتوں کا بیان۔ صف بندی بھی کی اور جنگ کے دوران حکمت عملی اختیار کرنے کیلئے ہدایات بھی دیں۔ صف بندی کا طریقہ پہلی مرتبہ حضور نبی پاکﷺ ہی نے دنیا کی حربی تاریخ میں متعارف کرایا۔ اس کے بعد سے آج تک یہ مختلف انداز کے ساتھ جنگوں میں رائج چلا آ رہا ہے۔
آپﷺ نے جنگی حکمت عملی کیلئے جو ہدایات دی تھیں ان میں اہم باتیں یہ تھیں۔ نظم و ضبط اور جرأت کا مظاہرہ کیا جائے۔ جنت کا حصول اور رضائے الٰہی مقصود ہو۔ تیر اس وقت چلایا جائے جب دشمن اس کی زد میں ہو۔ کوئی ایک تیر بھی اس طرح نہ چلایا جائے کہ وہ ضائع ہو جائے۔ دشمن کے قریب آنے پر پہلے نیزے کا استعمال کرنا اور پھر جب دشمن بالکل روبرو آ جائے تو تلوار سے کام لینا اور جان رکھنا کہ جو بندہ گھمسان میں صبر و ہمت اور ثابت قدمی و استقامت دکھاتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کیلئے آسانی پیدا کر دیتا ہے اور غم سے نجات عطا فرماتا ہے۔
اسلحے اور تعداد کی کمی کے پیش نظر حضور اکرمﷺ کی یہ ہدایات نہایت مفید‘ جامع اور بہترین حکمت عملی کا حسین مرقع ہیں۔ یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ حضور اکرمﷺ نے اپنے عریش کو بطور آپریشن روم یا کمان پوسٹ کے استعمال کیا‘ مگر مستشرقین کا یہ خیال کہ آپ عملاً میدانِ جنگ سے مجتنب رہے‘ درست نہیں ہے۔ حضورﷺ دشمن سے لڑائی کے وقت میدانِ جنگ میں موجود تھے۔ علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی معروف تاریخ ''البدایہ و النہایہ‘‘ میں سیدنا علیؓ بن ابی طالب کا یہ قول نقل کیا ہے: ''یومِ بدر میں ہم نے دیکھا کہ سخت لڑائی کے وقت حضور اکرمﷺ ہم میں سے سب سے آگے تھے اور دشمن پر حملہ کر رہے تھے۔ ہم جب بھی اپنے آپ کو مشکل میں پاتے حضورﷺ کے سایے میں پناہ لیتے تھے‘‘۔ (البدایہ و النہایہ‘ الجز الاول)