داعیانِ حق اور مشکلاتِ راہ …(7)

کبھی وہ وقت تھا کہ ترکی میں سکارف کے ساتھ کوئی خاتون کسی سرکاری ذمہ داری پر نہیں آسکتی تھی‘ نہ ہی پارلیمان کی رکن بن سکتی تھی۔ 2002ء میں اسلامی سوچ رکھنے والی خاتون مروہ قہوجی کو سکارف نہ اتارنے کی وجہ سے پارلیمان کی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ آج ترک پارلیمان میں 22 ایسی خواتین ہیں جو سکارف کے ساتھ وہاں موجود ہیں۔ موجودہ خاتونِ اول کبھی سکارف کے بغیر نہیں دیکھی گئیں۔ مخالف قوتوں کی بھر پور کاوشوں کے باوجود اللہ نے جسٹس پارٹی کو بھرپور کامیابی سے ہم کنار کیا ہے۔ وہ دنیا بھر کی طاغوتی قوتوں کی آنکھوں کا کانٹا ہے اور اسے سخت چیلنج بھی درپیش ہیں۔ اس کے باوجود امتِ مسلمہ کے سلگتے مسائل پر اگر کہیں سے کوئی جرأت مندانہ آواز اٹھتی ہے تو وہ ترکیہ ہے۔ فلسطین‘ کشمیر‘ بنگلہ دیش‘ مصر‘ شام اور میانمار کے مظلوم اہلِ حق کی حمایت کی توفیق ہمیں اور عرب ممالک کو تو نہ ہوسکی؛ البتہ ترکیہ نے اپنا فرض ادا کیا۔
اسلامی تحریکیں ملائیشیا‘ انڈونیشیا اورافریقی ممالک الجزائر‘ موریطانیہ وغیرہ میں بھی سیاسی میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ کہیں زیادہ کہیں کم‘ ان کا وجود مجالسِ قانون ساز میں قابلِ ذکر تعداد میں موجود ہے۔ بعض چھوٹے صوبوں یا یونٹس میں ان کی حکومتیں بھی قائم ہیں‘ البتہ ان کو بھی بڑی‘ سیکولر اور قومیت پرست سیاسی قوتوں کے مقابلے میں بڑے چیلنج درپیش ہیں۔ انڈونیشیا میں پچھلی صدی میں جو تحریک ماشومی پارٹی کے نام سے قائم ہوئی تھی‘ اس کے بارے میں مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم فرماتے ہیں: ''الاخوان کے بعد انڈونیشیا کی ماشومی پارٹی کسی نہ کسی حد تک دین کی جامعیت اور ہمہ گیری کا تصور رکھتی ہے اور اس کے لیے اپنی صوابدید کے مطابق کچھ نہ کچھ کرتی رہی ہے۔ انڈونیشیا میں کوئی دور نیم دینی تحریکوں سے خالی نہیں رہا۔ البتہ ملک گیر نیم دینی ونیم سیاسی تحریک‘ تحریک خلافت کے سلسلے میں اٹھی۔ 1922ء میں مرکزی خلافت کمیٹی قائم ہوئی اور پھر 1926ء میں مؤتمراسلامی مکہ مکرمہ کی شاخ کا قیام بھی عمل میں آیا۔ لیکن اس کا اثر جلدی ہی ختم ہوگیا۔عرض کیا جاچکا ہے کہ یہاں محمدیہ اور نہضۃ العلما کے نام سے دو مذہبی جماعتیں کام کررہی تھیں۔ 1937ء میں ان دونوں کے کارکنوں نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر ''المجلس الاسلامی الاعلیٰ الاندونیسی‘‘ قائم کی۔ لیکن پچھلی بڑی لڑائی کے دوران اس کا شیرازہ درہم برہم ہوگیا۔ جنگ کے خاتمے اور اعلانِ آزادی کے بعد تمام مسلمان انجمنوں اور اداروں کی ایک مشترک کانفرنس منعقد ہوئی‘ جس کا نام ''مجلس شوریٰ مسلمی انڈونیشیا‘‘ رکھا گیا۔ ''ماشومی‘‘ اس کا مخفف ہے اور عام طور پر یہ پارٹی ''مشومی‘‘ ہی کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے دستور میں یہ دفعہ بھی شامل ہے: ''جہاں تک ملک کی حکومت اور سیاست کا تعلق ہے‘ اسلام کے مقاصد کو پورا کرنا اس کے پیشِ نظر ہے‘‘۔ (رودادِ جماعت اسلامی‘ششم)
ماشومی پارٹی کے لیڈر ڈاکٹر ناصر 1950کی دہائی میں انڈونیشیا کے وزیراعظم بھی رہے۔ انڈونیشیا میں موجودہ صدی میں نئے سرے سے تحریک نے حزب العدالہ والرفاہیہ (جسٹس اینڈ ویلفیئر پارٹی) کے نام سے کام شروع کیا۔ اس وقت وہ حکومت میں شریک ہے۔ ملائیشیا میں اسلامی تحریک (PAS) کے پاس پارلیمان میں 18نشستیں ہیں۔ اس سے قبل کی پارلیمان میں وہ 21نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے۔ سابق وزیراعظم نجیب رزاق کی پارٹی کو بہت بری شکست ہوئی جبکہ اس کے برعکس اس کی اتحادی اسلامی تحریک کے اراکین کو تین نشستوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس کی بڑی وجہ بھی یہ ہوئی کہ ان کے اپنے کئی سابقہ اراکین مہاتیر محمد کے ساتھ جا ملے تھے۔ اب انوار ابراہیم کی اتحادی حکومت کے مقابلے پر اسلامی پارٹی اپوزیشن میں ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی انفرادی نشستوں کے مقابلے میں ان کی نشستیں زیادہ ہیں۔ صوبائی یا ریاستی اسمبلیوں میں بھی ان کی نمائندگی کم و بیش ہر جگہ موجود ہے۔
موریطانیہ مغربی افریقہ کا مسلم ملک ہے‘ جس کی کل آبادی تقریباً 46لاکھ اور رقبہ 10لاکھ مربع کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہے۔ حکومت کا سرکاری نام اسلامی جمہوریہ موریطانیہ ہے۔ اس ملک کو بار بار فوجی بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہاں پر اسلامی تحریک کا نام التجمّع الوطنی لاصلاح الوطنیۃ (تواصل) ہے۔ یہاں کی پارلیمان میں کل 157نشستیں ہیں۔ حکمران پارٹی گزشتہ انتخابات میں 97نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ اسلامی پارٹی ''تواصل‘‘ 14نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ حکومتی پارٹی کے بعد یہ دوسرے نمبر پر ہے۔ باقی 46نشستیں مختلف چھوٹی پارٹیوں کے درمیان تقسیم ہیں۔ ''تواصل‘‘ کی قیادت اور اراکین اخوان کی فکر سے متاثر اور پُرامن جدوجہد کے ذریعے ملک میں تبدیلی لانے کے علم بردار ہیں۔ الجزائر میں اسلامی تحریک نے اپنا نام حرکۃ المجتمع الاسلامی رکھا‘ جس کا مخفف حماس تھا۔ حکمران ٹولے نے فلسطین کی اسلامی تحریک حماس سے مماثلت کی وجہ سے اس نام پر پابندی لگا دی۔ تحریک نے اپنا نام حرکۃ المجتمع السلّم یعنی حمس رکھ لیا۔ یہ تحریک بھی سرگرمِ عمل ہے اور ہر طرح کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے قیادت اور کارکنان پُرعزم ہیں۔ سرویز کے مطابق اگر الجزائرمیں لوگوں کو آزادانہ رائے کے استعمال کا حق مل جائے تو اسلامی تحریک سب پارٹیوں سے سبقت لے سکتی ہے۔ غزہ کی اسلامی تحریک حماس دشمن کے مقابلے پر بے انتہا مشکلات کے باوجود ڈٹی ہوئی ہے۔ صہیونی قوت امریکہ اور مغربی ممالک کی پشت پناہی کے ساتھ ان حریت پسندوں کو کچلنا چاہتی ہے۔ ایسے حالات میں اپنے بھی بیگانے بن گئے ہیں مگر عسکری اور سیاسی‘ دونوں محاذوں پر حماس سربلند ہے۔ اللہ ان لوگوں کی حفاظت فرمائے اور مشکلات کو آسانی میں بدل دے۔ یہ تو ان ممالک کے حالات تھے جہاں مسلمان کسی نہ کسی طرح جمہوری راستوں سے اپنے نمائندگان منتخب کر سکتے ہیں یا منتخب کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ افغانستان اور بعض دیگر ممالک مثلاً لیبیا‘ یمن‘ صومالیہ وغیرہ میں وہاں کے جغرافیائی اور معروضی حالات خاص نوعیت کے ہیں۔ جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے وہ عالمِ اسلام کے اہم ممالک میں سے ہے۔ ایشیا میں تو اس کا مقام علامہ اقبال کے بقول کلیدی حیثیت کا ہے۔
آسیا یک پیکرِ آب و گل است ؍ملتِ افغان در آں پیکر دل است
از کشادِ او، کشادِ آسیا؍ وز فسادِ او، فسادِ آسیا
افغانستان میں ایک قوت امریکہ اور نیٹو کے ظالمانہ تسلط کے خلاف برسرپیکار رہی ہے۔ یہ طالبان ایسی قوت ہیں جن سے امریکہ جنگ لڑنے اور نفرت کرنے کے باوجود وقتاً فوقتاً مذاکرات کے لیے بھی ہاتھ پاؤں مارتا رہا تھا۔ آخر امریکہ بری طرح شکست کھا کر افغانستان میں اپنا سارا اسلحہ چھوڑ کر وہاں سے فرار ہو گیا۔ اب وہاں طالبان کی حکومت قائم ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک نے اسے تسلیم نہیں کیا مگر اس کے باوجود وہ اپنے معاملات کو کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ ایک مسئلہ البتہ یہ ہے کہ کچھ دہشت گرد وہاں سے وقتاً فوقتاً پاکستان پر حملے کرتے رہتے ہیں۔ طالبان حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے برادر ملک پر حملے کرنے والوں کو پاکستان کے حوالے کرے۔
کشمیر اور فلسطین کے مخصوص حالات میں اسلامی تحریکوں کے لوگ ظلم کے خلاف سخت ترین جبر کے باوجود پوری ہمت اور جذبے کے ساتھ مصروفِ جہاد ہیں۔ فلسطین اور غزہ کا تذکرہ تو آج عالمی خبروں میں یہی سرفہرست ہے۔ نہتے فلسطینی مجاہدین دنیا کی ساری طاغوتی ریاستوں کی مجموعی قوت کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اگر ان کو اسلحہ اور خوراک کے ذرائع دستیاب ہوں تو اسرائیل کو چند دنوں کے اندر ملیا میٹ کر دیں مگر افسوس ہے کہ مسلم دنیا کی کوئی ریاست اس جانب قطعاً توجہ نہیں دے رہی۔ پھر بھی ان لوگوں اور دنیا کے ہر مخلص مسلمان کو یقین ہے کہ اسرائیل مٹ جائے گا اور حماس کو اللہ کامیاب کرے گا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں