قرآن مجید میں سورۂ مریم میں اللہ نے ارشاد فرمایا ہے: پھر تُو نے دیکھا اُس شخص کو جو ہماری آیات کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو مال اور اولاد سے نوازا ہی جاتا رہوں گا۔ کیا اسے غیب کا پتا چل گیا ہے یا اس نے رحمان سے کوئی عہد لے رکھا ہے؟ ہرگز نہیں! جو کچھ یہ بکتا ہے اسے ہم لکھ لیں گے اور اس کے لیے سزا میں اور زیادہ اضافہ کریں گے۔ جس سروسامان اور لاؤ لشکر کا یہ ذکر کررہا ہے وہ سب ہمارے پاس رہ جائے گا اور یہ اکیلا ہمارے سامنے حاضر ہو گا۔ (سورۂ مریم: 77 تا 80)
امام ابن کثیر ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ''حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں لوہار تھا اور میرا کچھ قرض عاص بن وائل کے ذمے تھا‘ میں اس سے تقاضا کرنے کو گیا تو اس نے کہا میں تو تیرا قرض اس وقت تک ادا نہ کروں گا جب تک تُو محمد (ﷺ) کی فرمانبرداری سے نہ نکل جائے ۔ میں نے کہا: میں تو یہ سوچ اس وقت تک بھی ذہن میں نہیں لا سکتا کہ جب تُو مر کر دوبارہ زندہ ہو جائے۔ اس کافر نے کہا: بس تو پھر یہی رہی‘ جب میں مرنے کے بعد زندہ ہوں گا تو ضرور مجھے میرا مال اور میری اولاد بھی ملے گی‘ وہیں تیرا قرض بھی ادا کر دوں گا‘ تُو اس وقت میرے پاس آجانا۔ اس پر مذکورہ آیات اُتریں ۔ (بخاری و مسلم) ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضرت خبابؓ کہتے ہیں کہ میں نے عاص بن وائل کے لیے مکے میں تلواریں بنائی تھیں‘ ان کی اُجرت اس کے ذمہ واجب الادا تھی‘ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا اسے غیب کی خبر مل گئی؟ یا اس نے رحمن سے کوئی قول و قرار لے لیا؟ اس روایت میں آپ نے مزید فرمایا کہ اس پر میرے بہت سے درہم بطور قرض کے چڑھ گئے تھے‘ اس نے میرے مطالبے پر مجھے جو جواب دیا‘ میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہﷺ سے کیا‘ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ بعض روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کئی مسلمانوں کا قرض اس کے ذمے تھا اور یہ ظالم ان سب کا نادہندہ تھا اور مقروض ہونے کے باوجود وہ سب کو دھمکیاں دیتا تھا۔ ان سب کے تقاضوں پر اس نے کہا کہ کیا تمہارا دین تمہیں یہ نہیں بتاتا کہ جنت میں سونا‘ چاندی‘ ریشم‘ پھل پھول وغیرہ ہوں گے؟ سب نے کہا: ہاں ہے تو! اس پر اس نے کہا: بس تو یہ چیزیں مجھے ضرور ملیں گی میں وہیں تم سب کو دے دوں گا۔ پس یہ آیات اسی تناظر میں سورۂ مریم کی مذکورہ آیات اتریں۔
اس مغرور کو جواب ملتا ہے کہ کیا اسے غیب پر اطلاع ہے؟ اسے آخرت کے اپنے انجام کی خبر ہے جو یہ قسمیں کھا کر کہہ رہا ہے؟ یا اس نے اللہ سے کوئی قول و قرار‘ عہد و پیمان لیا ہے یا اس نے اللہ کی توحید مان لی ہے؟ کہ اس کی وجہ سے اسے دخولِ جنت کا یقین ہو؟ چنانچہ ان آیات میں اس کے طنزیہ کلام کی تاکید کے ساتھ نفی کی جاتی ہے۔ کلام ربانی میں اس کے خلاف موکد بیان ہو رہا ہے کہ اس کا یہ غرور کا کلمہ بھی ہمارے ہاں لکھا جا چکا ہے۔ اس کا کفر بھی ہم پر روشن ہے۔ دارِ آخرت میں تو اس کے لیے عذاب ہی عذاب ہے جو ہر وقت بڑھتا رہے گا۔ اسے مال و اولاد وہاں ملنا تو کجا‘ اس کے برعکس دنیا کا مال و متاع اور اولاد و کنبہ بھی اس سے چھین لیا جائے گا اور وہ تن تنہا ہمارے حضور پیش ہو گا۔
حضرت خبابؓ کا دل نورِ ایمانی سے جگمگا رہا تھا اور زبان ذکرِ الٰہی سے تر رہتی تھی۔ آپؓ کی بھاری رقم غصب کر لی گئی مگر آپؓ نے کوئی رونا دھونا نہیں کیا۔ آپؓ کو شرح صدر حاصل تھا کہ آپ کی ایک ایک پائی محفوظ ہے اور اس روز ان کے کھاتے میں آجائے گی جب ہر شخص نفسی نفسی پکار رہا ہو گا۔ حلال طریقے سے کمائی گئی اس مادی دولت کو چھوڑ کر آپؓ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی اور وہاں آپؓ کی مواخات حضرت جبیرؓ بن عتیق سے ہوئی۔ آپؓ نے مدینہ منورہ میں بھی اپنے اسی پیشے کو جاری رکھا جس میں انہیں اعلیٰ درجے کی مہارت حاصل تھی۔ بہترین تلواریں اور نیزے بناتے تھے جن سے اچھی خاصی یافت پا لیتے تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپؓ کی وفات کے وقت چالیس ہزار درہم پس انداز تھے۔ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے میں آپؓ نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ جہاد کا حکم ہوا تو آپ نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ بدر سے لے کر تبوک تک ہر جنگ میں حصہ لیا۔ کسی ایک معرکے سے بھی غیر حاضر نہیں رہے۔
جب آنحضورﷺ کا وصال ہوا تو حضرت خبابؓ دیر تک روتے رہے۔ پھر انہوں نے مسجد نبوی میں آنحضورﷺ کے ساتھ گزری ہوئی ایک رات کا ذکر کیا۔ مسند احمد کی روایت کے مطابق حضرت خباب فرماتے ہیں کہ اس رات کوآنحضورﷺ نے ساری رات نماز میں گزاری۔ صبح ہوئی تو میں نے عرض کیا: ''آج رات آپﷺ نے جیسی نماز پڑھی اس سے پہلے کبھی نہیں پڑھی‘‘۔ حضورﷺ نے فرمایا: ''یہ بیم و رجا کی نماز تھی۔ میں نے بارگاہِ رب العزت میں (اپنے اور) اپنی امت کے لیے تین چیزوں کی دعا مانگی تھی جن میں سے دو چیزیں تو منظور کر لی گئیں اور تیسری قبول نہیں ہوئی۔ جو دعائیں قبول ہوئیں وہ یہ تھیں کہ اللہ دشمنوں کو مجھ پر غلبہ نہ دے‘ اور اللہ میری امت کو کسی ایسے عمومی عذاب سے ہلاک نہ کرے جس طرح سے گزشتہ امتیں ہلاک ہوئی تھیں‘‘۔ تیسری دعا جو قبول نہ ہو سکی وہ یہ تھی کہ اے اللہ میری امت کو باہمی لڑائیوں سے محفوظ فرمانا مگر یہ دعا قبول نہ کی گئی۔ یہ حدیث حضرت عبداللہ بن خبابؓ نے اپنے والد حضرت خبابؓ سے روایت کی ہے۔
حضرت خبابؓ کا تقویٰ اور للہیت لائقِ تقلید ہے۔ سنن درامی میں مشہور تابعی حضرت عبدالرحمن بن بشیر سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت خبابؓ بن ارت کے پاس موجود تھے۔ ان کے اور بھی دوست احباب ان کے پاس بیٹھے تھے مگر حضرت خبابؓ بالکل خاموش تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپؓ اپنے ساتھیوں سے کوئی بات چیت کیوں نہیں کر رہے؟ اس پر حضرت خبابؓ نے جواب دیا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ میں کوئی ایسی بات نہ کہہ دوں کہ جس پر میں خود عمل نہیں کرتا۔ مشہور تابعی قیس بن ابی حازم کی ایک روایت ہے کہ میں ایک بار صحابی رسول حضرت خبابؓ بن ارت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اُس وقت وہ اپنے مکان کی دیوار بنوا رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے کہا کہ ہم نہایت عسرت میں اسلام لائے۔ صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ ہجرت کی۔ ہمارے بہت سے ساتھی اس حال میں دنیا سے اُٹھ گئے کہ انہوں نے دنیا میں اپنے اعمال کا پھل نہیں دیکھا۔ مصعبؓ بن عمیر غزوۂ احد میں اس حال میں شہید ہوئے کہ صرف ایک دھاری دار چادر ان کا کُل اثاثہ تھی۔ کفن دیتے وقت جب ہم چادر سے ان کا سر ڈھانپتے تو ان کے پائوں کھل جاتے اور اگر پائوں ڈھانپتے تو سر کھل جاتا۔ رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کا سر ڈھانپ دیں اور پائوں پر اذخر گھاس ڈال دیں۔ ان کے بعد آج ہمیں اتنا مال ملا کہ (سمجھ نہیں آتا کہ ) اسے کہاں خرچ کریں۔
امیر المومنین حضرت عمرؓ بن خطاب حضرت خبابؓ کا بہت احترام کرتے تھے۔ ایک مرتبہ فاروقِ اعظمؓ اپنی سواری پر سوار تھے اور خبابؓ کو اپنے پیچھے بٹھا رکھا تھا۔ اس موقع پر آپؓ نے فرمایا ''اس سواری پر خبابؓ کے علاوہ ایک ہی اور شخص ہے جو میرے ساتھ سوار ہونے کا حقدار ہے۔ حضرت خبابؓ نے پوچھا: امیرالمومنین وہ کون ہے؟ آپؓ نے فرمایا ''بلال‘‘۔ حضرت خبابؓ نے عرض کیا: اے امیر المومنین میں نے جتنی اذیتیں برداشت کیں اتنی کسی اور صحابی کو برداشت نہیں کرنا پڑیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ یہ درست ہے مگر آپ کے علاوہ جن صحابہ نے ابتلا و امتحان میں استقامت دکھائی ان میں بلال کا بڑا حصہ ہے۔ حضرت بلالؓ کو سیدنا عمرؓ ''سیدی یا بلال‘‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے یعنی بلالؓ ہمارے سردار ہیں۔ بہرحال دنیا داروں نے جنہیں حقیر جانا تھا‘ ان کے ایمان کی بدولت اسلام میں وہ نہایت احترام کے مستحق سمجھے گئے۔ (جاری)