یثرب کے بڑے قبیلے بنو خزرج کی ایک شاخ بنو ادی بن سعد بن علی کے ایک معزز سردار جبل بن عمرو کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جو غیر معمولی وزن اور قد کی وجہ سے ماں باپ اور سارے خاندان کو بہت پیارا لگا۔ رنگ روپ اور نقش ونگار بہت خوبصورت اور آنکھیں موتی کی مانند چمکدار۔ خاندان کی تمام خواتین اس نومولود کو دیکھنے آئیں تو والدین کو بار بار مبارکباد دینے لگیں۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ زبانِ خلق نقارۂ خدا بن جائے گی اور یہ بچہ واقعی تاریخِ اسلام کا مایۂ ناز فرزند اور جماعت صحابہ کا تابناک ہیرا بن کر تا قیامت چمکتا رہے گا۔ اس بچے کا نام معاذ رکھا گیا۔ ناز ونعمت سے پلنے والا یہ بچہ چھوٹی عمر ہی میں بھاگنے دوڑنے لگا۔ اپنے ہم عمر بچوں سے قد کاٹھ میں بھی لمبا تھا اور قوت میں بھی سب سے برتر۔
یہ بچہ ایک کاشتکار خاندان میں پلتے بڑھتے‘ چھوٹی عمر ہی میں اپنے باغ اور کھیت میں دلچسپی لینے لگا۔ اس کی ذہانت سے قبیلے کے سب لوگ بہت خوش ہوتے۔ اس کی سنجیدگی اور قوت کا امتزاج بتاتا تھا کہ یہ بڑا انسان بنے گا۔ اس عرصے میں مکہ میں اللہ نے اپنے آخری نبیﷺ کو مبعوث فرمایا تو تھوڑی ہی مدت میں نبوت کی روشنی یثرب تک پہنچ گئی۔ یہ نوجوان اب اٹھارہ سال کا ہو گیا تھا۔ جب اسے بعض دوستوں کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ مکہ میں نبوت کا دعویٰ کرنے والا شخص بنو ہاشم میں سے ہے اور وہ بتوں کی پوجا سے منع کرتا ہے تو اس ذہین یثربی نوجوان کے دل کو یہ بات اچھی لگی۔ اس نے کہا کہ بت انسانوں کے ہاتھوں سے بنائی ہوئی مورتیاں ہی تو ہیں‘ یہ کسی کا کیا بگاڑ سکتی ہیں اور کسی کو کیا فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔ اندھیرے کتنے ہی چھا جائیں‘ فطرتِ سلیمہ ہمیشہ انسانوں کے درمیان موجود رہی ہے۔ یہ نوجوان بھی سلیم الفطرت اور خوش بخت تھا۔ اس دوران آنحضورﷺ نے اہلِ یثرب کی درخواست پر حضرت مصعبؓ بن عمیر کو بطور معلم ومبلغ وہاں بھیج دیا۔ آپؓ کی دعوت پر دیگر اہلِ یثرب کی طرح معاذؓ بن جبل بھی دائرہِ اسلام میں داخل ہو گئے۔
قبولِ اسلام کے بعد حضرت معاذؓ دو کاموں میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ ایک تو حضرت مصعبؓ کی مجلس میں بیٹھ کر اسلامی تعلیمات سے خود کو مزین کرنے میں اور دوسرے اپنے ہم عمر صحابہ کے ساتھ مل کر گھروں اور بت خانوں کے اندر سجائے ہوئے بتوں کو رات کے وقت توڑ دینے میں۔ نوجوان صحابہ کے بت شکنی کے بہت سے واقعات تاریخ میں منقول ہیں۔ حضرت عمروؓ بن جموح بھی آپ کے قبیلے کے رؤسا میں سے تھے۔ قبولِ اسلام سے قبل انہوں نے بہت بڑا بت خانہ اپنے گھر میں بنا رکھا تھا۔ ان کے نوجوان بیٹے معاذ‘ معوذ اور خلاد مسلمان ہو چکے تھے۔ حضرت معاذؓ بن جبل بھی انہی کے قبیلے سے تھے اور آپس میں ان سب کی دوستی بھی تھی۔ ان نوجوانوں نے مل کر عمرو بن جموح کے بت خانے سے بت اٹھا کر گندگی کے ایک ڈھیر پر پھینک دیا۔ کئی روز تک یہ عمل جاری رہا۔ عمرو بن جموح ہر روز بت کو اٹھا کر گھر لاتے اور نہلا دھلا کر اس کی جگہ پر رکھ دیتے۔ بت کے ساتھ یہ سلوک کئی روز جاری رہا۔ آخر عمرو بن جموح نے بت سے بیزاری کا اظہار کرکے کہا کہ تُو اپنی حفاظت نہیں کر سکتا مجھے کیا نفع نقصان دے گا۔ اس کے بعد وہ مسلمان ہو گئے۔ حضرت عمروؓ بن جموح کے حالات میں مؤرخین نے یہ واقعہ تفصیلاً بیان کیا ہے۔
اس عرصے میں یثرب سے وقتاً فوقتاً کئی لوگوں نے مکہ جا کر اللہ کے سچے نبی سے ملاقات کی اور ان پر ایمان لے آئے۔ سنہ 12 نبوت کے زمانۂ حج میں یثرب سے حجاج کا ایک قافلہ چلا جو پانچ‘ چھ سو افراد پر مشتمل تھا۔ اس قافلے میں مشرکین کے ساتھ اہلِ ایمان بھی کافی تعداد میں شامل تھے۔ معاذؓ بن جبل انہی اہلِ ایمان میں سے ایک تھے۔ مکہ میں ایک رات کو طے شدہ پروگرام کے مطابق اہلِ ایمان نے آنحضورﷺ سے ایک گھاٹی پر ملاقات کی اور آپﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یہ کل 75 اہلِ ایمان تھے جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں۔ اس موقع پر ان اہلِ ایمان نے آنحضورﷺ کو مکہ چھوڑ کر مدینہ میں آنے کی دعوت دی اور آپﷺ سے ایسا عہد کیا جو تاریخ انسانی میں یادگار ہے۔ پھر اس عہد پر عمل کرنے کی جو مثال ان لوگوں نے قائم کی وہ پوری دنیا کی تاریخ میں کہیں اور نہیں ملتی۔ انہوں نے عہد کیا تھا کہ ہم رسولِ پاکﷺ اور آپ کے صحابہ کی اسی طرح حفاظت کریں گے جس طرح اپنے اہل وعیال کی حفاظت کرتے ہیں۔
اس عہد وپیمان کے تقریباً ایک سال بعد آنحضورﷺ مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت کر گئے۔ آپﷺ کی آمد پر تمام اہلِ مدینہ بہت خوش تھے‘ بالخصوص حضرت معاذؓ بن جبل کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔ ان کو آنحضورﷺ سے بے پناہ محبت تھی اور کمال یہ ہے کہ خود آنحضورﷺ نے ایک سے زیادہ مواقع پر ارشاد فرمایا کہ آپ کو معاذ بہت محبوب ہیں۔ صحابہ کرام حضرت معاذؓ کے اس اعزازکی وجہ سے ان پر رشک کرتے تھے۔ کئی احادیث میں یہ تذکرہ موجود ہے کہ نبی اکرمﷺ سفرکے دوران اکثر معاذؓ بن جبل کو اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھا لیتے تھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر آنحضورﷺ نے حضرت معاذؓ کو خطاب کرتے ہوئے کہا: اے نوجوان! حضرت معاذؓ نے جواب دیا ''لبیک یا رسول اللہﷺ‘‘۔ آپﷺ نے دو مرتبہ حضرت معاذؓ کو خطاب کیا اور حضرت معاذؓ نے دونوں مرتبہ جواب دیا مگر آپﷺ نے کچھ نہ کہا۔ حضرت معاذؓ منتظر تھے کہ آپﷺ کیا فرماتے ہیں۔ تیسری مرتبہ آپﷺ نے کہا: یا غلام۔ حضرت معاذؓ نے حسب سابق جواب دیا۔ اب آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا: اے معاذ! خدا کی قسم میں تجھ سے بہت محبت کرتا ہوں۔ حضرت معاذؓ نے کہا: یا رسول اللہﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں‘ میں بھی آپﷺ سے بہت محبت کرتا ہوں۔ اس موقع پر خوشی سے حضرت معاذؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ اللہ کے رسولﷺ نے انہیں کتنا بڑا مقام عطا فرمایا ہے۔ اب آنحضورﷺ نے ارشادفرمایا: اے معاذ ہر فرض نماز کے بعد یہ کلمات ضرور پڑھا کرنا: اللھم اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک۔ (اے اللہ تو میری مدد فرما کہ تیرے ذکر اور تیرے شکر کا حق ادا کر سکوں اور مولا مجھے توفیق عطا فرما کہ میں تیری عبادت بطریق احسن ادا کر سکوں) (سنن ابوداؤد)۔ نبی اکرمﷺ کی زبان مبارک سے یہ ارشاد سننے کے بعد حضرت معاذؓ کا یہ معمول بن گیا تھا اور وہ زندگی بھر اپنے ملنے جلنے والے سبھی افراد کو یہ حدیث سناتے اور اس پر عمل کرنے کی تاکید فرماتے تھے۔
ہجرت مدینہ کے بعد حضور اکرمﷺ نے مہاجرین وانصار صحابہ کے درمیان مواخات قائم کی تو حضرت عبداللہؓ بن مسعود کو حضرت معاذؓ بن جبل کا اسلامی بھائی بنایا۔ اللہ کی قدرت کہ دونوں دینی بھائی علم وعرفان کے بحر بے کراں تھے اور دونوں کو اللہ تعالیٰ نے علم کی دولت سے یوں نوازا تھا کہ جب صحابہ کرام آنحضورﷺ سے سوال کرتے کہ وہ علم کے حصول کیلئے کس کے پاس جائیں تو آپﷺ دیگر صحابہ کے ساتھ ان دونوں صحابہ کا لازماً ذکر فرماتے۔ حضرت معاذؓ بن جبل نے حضرت عبداللہؓ بن مسعود کو اس وقت تک اپنے گھر میں بڑے اکرام واعزاز کے ساتھ مہمان رکھا جب تک آپ کا اپنا مکان نہ بن گیا۔ اپنا مکان بن جانے کے بعد حضرت ابن مسعودؓ اس میں منتقل ہو گئے مگر دونوں بھائیوں کے مابین اس کے بعد بھی آمدورفت اور ضیافت ومہمان نوازی کا سلسلہ جاری رہا۔ میدانِ جہاد میں بھی دونوں اسلامی بھائیوں نے بڑے عظیم کارنامے سر انجام دیے۔ (جاری)