"HRC" (space) message & send to 7575

آنے والا کل

کتاب میں لکھاہے : بندے اپنی چال چلتے ہیں اور پروردگار اپنی چال… اور وہی سب سے بہتر چال چلنے والا ہے ۔ رہا مستقبل تو کون جانتا ہے کہ آنے والے کل میں کس کے لیے کیا لکھا ہے؟ تاریخ حادثات سے بنتی ہے‘ حادثات سے۔ ڈرائنگ روم کا دروازہ اچانک کھلا اور پروفیسر احمد رفیق اختر نے کہا: راجہ صاحب سے تو آپ کی ملاقات ہی نہیں ہوئی۔میں اس شخص کے احترام میں اٹھا، دھیرے دھیرے جو قدم اٹھا رہا تھا ۔ چہرے پر کہولت کے آثار تھے اور ذہانت کی روشنی ۔ جہلم کے 77سالہ راجہ افضل کرسی پر بیٹھ گئے اور کسی تمہید کے بغیر کمال اپنائیت سے بات کا آغاز کیا ۔\"حقیقی سیاستدان\"میں نے سوچا: ایسے آدمی سے بچ نکلنا مشکل ہے ۔ انہوںنے بتایا کہ 32برس تک وہ مسلم لیگ سے وابستہ رہے مگر اب خیر باد ۔اپنے دو صاحب زادوں کے ساتھ ، جو قومی اسمبلی کے منتخب رکن ہیں ۔ تیز روشنی چندھیا دیتی ہے ۔ اچانک کسی سے سامنا ہو تو ایک دھند سی ہوتی ہے۔ بتدریج حافظہ روشن ہوا۔ جی ہاں ! دو ہفتے قبل راجہ صاحب کے فرزند پیپلز پارٹی سے وابستہ ہو چکے ۔ کراچی کی جس تقریب میںیہ اعلان ہوا، اخبار نویسوں کے ہجوم سے راجہ صاحب نے یہ کہا: نون لیگ چھوڑنے او رپیپلز پارٹی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے مگر لیگ کو برا کہوں گا اور نہ پیپلز پارٹی کو اچھا۔ ایک واقفِ حال کے مطابق بعد ازاں قدرے شگفتہ انداز میں زرداری صاحب نے ان سے کہا: ہم اتنے برے ہیں کہ ہمارے ساتھ وابستگی کے ہنگام بھی آپ ہمیں اچھا کہنے پر آمادہ نہیں؟ کس بات پر وہ انہیں اچھا کہتے؟ کون سا کارنامہ اس آدمی نے انجام دیا ہے ،جسے بہترین مواقع ملے اور بدترین کردار کا جس نے مظاہرہ کیا ۔ حدتو یہ ہے کہ اپنی بیوی کے قاتلوں کا سراغ لگانے سے بھی گریز کیا۔ سیاست الگ، شوہر پر بیوی کے احسانات اتنے ہیں کہ شمار نہیں کیے جا سکتے۔ ان کے پاس جو کچھ ہے ، وہ اسی مرحومہ کا دیا ہوا۔ اگر وہ ان سے وفا نہ کر سکے تو اور کس سے کریں گے؟ تین ماہ ہوتے ہیں ، راجہ صاحب نے تحریکِ انصاف سے وابستہ ہونے کا ارادہ کیا تھا ۔ جاوید ہاشمی اور شاہ محمود کی ان سے ملاقات ہوئی اور کپتان کی بھی ۔ اچانک مگر انہوںنے زرداری صاحب کا انتخاب کیا۔ اس وقت ، جب ملک کے مالدار اور بارسوخ طبقات نے پاکستانی عوام کے خلاف اپنا وزن شریف برادران کے پلڑے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ بھاڑے کے ٹٹوئوں کا تو ذکر ہی کیا، جب اقتدار سامنے پا کر بڑے بڑے جغادری طفیلیے بن چکے، اس اقدام کا پسِ منظر کیاہے ؟ یہ ایک بڑی ہی دلچسپ کہانی ہوتی مگر راجہ صاحب بتانے پرآمادہ نہ تھے ۔ جن لوگوں کے ساتھ زندگی کابہترین زمانہ بسر ہوا، وہ ان کے بارے میں بات نہ کرنا چاہتے تھے ۔ حاضرینِ مجلس میں سے ایک نے یہ کہا:بتیس کیا، آپ پچاس سال بھی ا ن کے ساتھ رہتے تو آخر چھوڑنا پڑتا۔ عزتِ نفس رکھنے والا کوئی شخص ہمیشہ ان کا رفیق نہیں ہو سکتا۔ راجہ صاحب نے کوئی تبصرہ نہ کیا۔ سیاستدان وہ ہوتا ہے ، جو صرف اتنی بات کہتاہے ، جو کہنی چاہیے۔ ایک سوال کا جواب البتہ انہوںنے دے دیا: کپتان سے میں ملا تو مجھے احساس ہوا کہ وہ جو کچھ بھی ہو مگر سیاستدان ہرگز نہیں ۔ ظاہر ہے کہ بات اتنی سی نہیں ، پسِ پردہ کچھ اور بھی ہوگا۔ اوّلین ملاقات میں مگر بے تکلفی روا نہ تھی ۔ ازراہِ کرم انہوںنے کہا کہ وہ کسی وقت ملاقات کے لیے تشریف لائیں گے ۔ عرض کیا: 15سال آپ مجھ سے بڑے ہیں ، پھر یہ کہ اکثرمیں جی ٹی روڈ سے لاہور جاتا ہوں ، کسی وقت خود حاضر ہوں گا۔ ایک واقعہ خلیل ملک مرحوم نے بتایا تھا ، حافظے میں گونجتا رہا۔ جنرل پرویز مشرف کا مارشل لا شباب پر تھا ۔ فوجی خنجر سے نون لیگ کے قتلے کاٹے جا رہے تھے کہ ایک افسر سے راجہ صاحب کی ملاقات ہوئی ۔ ایک جملے میں جہاندیدہ سیاستدان نے معاملہ نمٹا دیا: فوج میں بھرتی ہونے کے لیے میری عمر موزوں نہیں ۔ واقعی! شریف خاندان فوج سے وابستہ ہوا تو بڑے بھائی کی عمر 34اور چھوٹے کی غالباً 32برس تھی ۔ اللہ کی شان ، آج یہ خاندان جمہوریت کا سب سے بڑا چیمپئن ہے ۔ جنرل محمد ضیاء الحق جسے گود میں بٹھا کر دودھ پلاتے رہے ، خفیہ ایجنسیوں نے جس کے سر پہ سایہ کیے رکھا۔ جنرل جیلانی جس کے اتالیق اور سرپرست تھے ۔ اب بھی جس کے فرستادے جنرل کیانی کی خدمت میں حاضر ہوتے اور نیک چلنی کا یقین دلاتے ہیں ۔ عربوں اور امریکیوں کے جو نیاز مند ہیں اور بھارت نواز اخبار نویسوں کے نخرے اٹھاتے ہیں کہ پاکستانی پریس میں وہ موثر ہیں ۔ دانشوروں کی پرورش اور کردار کشی ،دونوں میں شریف برادران کا ثانی کوئی نہیں ۔ اس وقت مگرراجہ افضل کا ذکر ہے ۔ 9اکتوبر 1999ء کو ایک بزرگ دوست سے ان کی ملاقات ہوئی ۔ دور دور تک مارشل لا کے آثار نہ تھے ۔ دو ٹوک الفاظ میں راجہ صاحب نے کہا: زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں مارشل لا نافذ ہو جائے گا۔ تین دن بعد ہو گیا۔ اب کیا ہوگا؟ راجہ صاحب سے میں نے پوچھا : میں نہیں جانتا ، انہوںنے کہا : ایک بات مگر پورے یقین سے کہتا ہوں : نواز شریف وزیرِ اعظم نہ بن سکیں گے ۔ میںحیرت زدہ رہ گیا۔ میڈیا اگر کسی چیز پر متفق ہے تو وہ یہ کہ نون لیگ کی یلغار کو روکا ہی نہیں جا سکتا۔ نصف صدی کا تجربہ رکھنے والے اس لیڈر کوکیاہوا؟ تجزیے پر خواہش نے غلبہ پالیا؟وہ ناراض ہیں ، ردّعمل کا شکا ر وگرنہ اس وقت جب ہر ابن الوقت رائے ونڈ روانہ ہے ، وہ پیپلز پارٹی کا انتخاب کبھی نہ کرتے ۔ اپنی بات انہوںنے دہرائی اور پھر یہ کہا: 1993ء میں قاضی حسین احمد نے نواز شریف کے اقتدار کی راہ روک دی تھی ، 32سیٹوں کے نتائج مرحوم کی وجہ سے مختلف ہو گئے؛حالانکہ مختلف حلقوں میں وہ 2سے 7فیصد ووٹوں پر ہی اثر انداز ہو سکتے تھے ۔ اب تو کپتان ہے، د س سے چالیس فیصد ووٹوں والا!…راجہ صاحب اچانک اٹھے اور جہلم روانہ ہو گئے ۔ شام ہو گئی تھی ، سیاست سے زیادہ انہیں اپنی صحت کی فکر رہتی ہے ۔ پروفیسر احمد رفیق اختر سے ، جو آخری مرحلے میں شریک تھے ، سوال کیا : آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں ؟ بولے : راجہ صاحب کے سب نکات سے میں اتفاق نہیں کرتا مگر ایک بات آپ کو بتاتا ہوں ، دانشور جسے دانستہ یا نادانستہ نظر انداز کرتے ہیں۔ (تحریکِ انصاف کے ممبروں کی تعداد ملحوظ رکھتے ہوئے ) آئندہ الیکشن میں کپتان کو دو کروڑ ووٹ یقینا ملیں گے ۔ میں ششدر رہ گیا ۔\" پروفیسر صاحب! دو کروڑ؟\" کہا :کوئی دعویٰ نہیں کہ غیب تو اللہ ہی جانتا ہے مگر میرا اندازہ یہی ہے ۔ 23مارچ کو مینارِ پاکستان پرعمران خاں کے جلسۂ عام کا انتظار کیجئے ۔ اس اجتماع کے بعد فضا بدل جائے گی ۔ صرف دو حریف میدان میں رہ جائیں گے ۔ نون لیگ اور تحریکِ انصاف۔ سحر اخبار اٹھایا ۔ صفحہ اوّل پر سرخی یہ تھی : پختون خوا میں تحریکِ انصاف انتشارکا شکار ۔ تین بار متن پڑھا ۔تجزیے میں ایک لفط بھی اس موضوع پر نہ تھا ، ایک لفظ بھی نہیں ۔پھر یہ سرخی کیسے جما دی گئی ؟ صاف ظاہر ہے کہ چند اخبار نویسوں کے سوا تقریبا سارا میڈیا نون لیگ کی جیب میں ہے ۔ 23مارچ کے بعد وہ کیا کریں گے ؟ کتاب میں لکھاہے : بندے اپنی چال چلتے ہیں اور پروردگار اپنی چال… اور وہی سب سے بہتر چال چلنے والا ہے ۔ رہا مستقبل تو کون جانتا ہے کہ آنے والے کل میں کس کے لیے کیا لکھا ہے ؟ تاریخ حادثات سے بنتی ہے‘ حادثات سے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں