اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: اپنے بھائی کی مدد کرو‘ ظالم ہو یا مظلوم۔ ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کا ہاتھ پکڑ لیا جائے۔ نجات پا لینی چاہیے‘ ان سے نجات! صاف اور شفاف الیکشن؟ سیاستدانوں کی اکثریت تو سچے اور کھرے الیکشن کی آرزو مند ہرگز نہیں‘ دھاندلی پر تُلے ہیں‘ وہ دھاندلی پر۔ عادت جب فطرتِ ثانیہ بن جاتی ہے تو بدل نہیں سکتی۔ پنجابی کے اس نادرِ روزگار شاعر وارث شاہ نے کہا تھا ؎ وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں بھاویں کٹیے پوریاں پوریاں اوئے (آدمی کو خواہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے‘ فطرت اس کی بدل نہیں سکتی) اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: احد پہاڑ اپنی جگہ سے ہل سکتا ہے‘ مگر عادت نہیں۔ میاں محمد نوازشریف‘ صدر آصف علی زرداری‘ چودھری برادران‘ ایم کیو ایم‘ اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام سے اگر امید یہ ہے کہ اس المناک بحران میں‘ اپنے ماضی سے وہ مختلف ہو جائیں گے تو یہ خوش فہمیوں کی جنت ہے۔ اب کوئی اقبالؔ کے اس پامال شعر کو دُہرائے اور اللہ اگر توفیق دے تو اس پر غور بھی کرے ؎ عمل سے زندگی بنتی ہے‘ جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے دل دکھ سے بھرا ہوا۔ کپتان نے پچھلے چند دنوں کی کہانی مجھے سنائی۔ پھر ایک دردمند آگے بڑھا اور اس نے یہ کہا: اس دنیا میں کوئی اس کا دوست بھی ہے یا سارے کے سارے دشمن؟ پارٹی میں دھڑے بندی ہے اور لالچ کے مارے فریب دہی پر تلے ہوئے۔ عدمِ تحفظ کے مارے معاشرے میں‘ ہر خوف زدہ آدمی اپنا حصہ کاٹ لینے کے لیے بے چین ہے‘ بھاڑے کے ٹٹو الگ۔ شبلی کے پھول نے ان کے پتھروں سے زیادہ گہرا زخم لگایا۔ سازشیں ہیں اور کیسی کیسی سازشیں۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ طبائع میں ہیجان ہے اور ایسا ہیجان کہ خدا کی پناہ۔ کچھ دیر پہلے کسی نے بتایا کہ کوئی چیمہ صاحب ہیں‘ ٹیلی ویژن کے لیے انہوں نے ایک عدد بیان جاری کیا ہے: دستور کے مطابق‘ کسی بھی منصب کے لیے امیدوار کا جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند ہونا ضروری ہے۔ ان کے بقول جاوید ہاشمی نہیں ہیں۔ کیا کہنے‘ کیا کہنے۔ اگر میں کپتان کی جگہ ہوتا تو میں اس آدمی کو طبی معائنہ کرانے کا مشورہ دیتا۔ اظہارِ وجوہ کا نوٹس اسے دیتا کہ کیوں نہ تمہاری رکنیت ختم کردی جائے۔ ایک بار اس نے کہا تھا اور سچ کہا تھا: تحریک انصاف کو تحریکِ انصاف کے سوا کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ گوجرانوالہ میں کوئی بھنڈر صاحب تھے‘ پورا نام اب یاد نہیں۔ پارٹی کے وہ ضلعی صدر بنائے گئے۔ پتہ چلا تو کپتان کو میں نے فون کیا: نون لیگ کا وزیر مال رہا ہے۔ شہرت اس کی یہ ہے کہ پٹواریوں سے پیسے لیا کرتا تھا۔ وہ بھونچکا رہ گیا۔ کہا: قابلِ اعتماد دوستوں نے اس کی سفارش کی ہے‘ پھر گفتگو بند کردی اور ایس ایم ایس بھیجا: بات نہیں کر سکتا‘ گوجرانوالہ میں‘ اس شخص کی صدارت کا اعلان کرنے جا رہا ہوں اور اس شخص سے حسنِ ظن رکھنے والے گاڑی میں‘ میرے ساتھ ہیں۔ پیغام پر پیغام۔ کسی نہ کسی طرح میں نے اسے آمادہ کیا کہ جن صاحب کو معزول کیا جا رہا ہے‘ تقریب کے بعد اس کے ہاں چلا جائے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے شہباز شریف اور چودھری نثار نصف درجن ملاقاتوں کے بعد‘ بھاڑے کے ٹٹوئوں نے پاشا‘ عمران گٹھ جوڑ کا افسانہ تراشا۔ یہ جو بھنڈر صاحب تھے نون لیگ کے ہاتھ بکے‘ انہوں نے ایک عدد پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ سفید جھوٹ اپنے لیڈر کے خلاف بولا ع پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا دو دن کے بعد اس کالم میں تحریکِ انصاف گوجرانوالہ کے کارکنوں سے میں نے سوال کیا: اب تک نمازشکرانہ کا بندوبست کیوں نہیں؟… ایک آدھ نہیں، درجنوںبھنڈر ہیں۔ مثال کے طور پر جنوبی پنجاب کا وہ جاگیردار خاندان۔ عہدوںکے بھکاری‘ سماجی مقام کے دریوزہ گر۔ عربوں کا محاورہ یہ ہے کہ دوسروں کو آدمی خود پرقیاس کرتا ہے۔ کپتان کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہرایک کو قابلِ اعتبار سمجھتا ہے۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ زندگی کے دو اہم ترین شعبوں، سیاست اور مذہبی اداروں میں سوسائٹی کا کچرا بھرا ہے… اور اب کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ صحافت میں بھی۔ قابلِ رشک بھی ہیں مگر بکائو بہت۔دانشور جنہیں کہا جاتا ہے، ان میں سے اکثرکاحال یہ ہے ؎ کوئی مشتری ہو تو آواز دے دے میں کم بخت جنسِ ہنر بیچتا ہوں سلیم صافی نے ٹیلیویژن پر بیان کیا کہ مولانا فضل الرحمن اور اے این پی میں سمجھوتہ ہوا۔ اس کے تحت کچھ اضلاع میں جمعیت علمائے اسلام کے افسر تعینات ہوں گے، کچھ میں سرخپوش۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔ سندھ میں ایم کیو ایم کا مطالبہ یہ ہے۔ ’’حصہ دو یا حساب دو‘‘۔ چند ہفتے قبل، وہ حکومت سے الگ ہو کر اپوزیشن ہوگئی۔ چلیے یہ بھی قابلِ فہم ‘چند روز توحزبِ اختلاف کے بنچوں پر وہ بیٹھے۔ اسباب بھی بیان کیے۔ دلیل نہ سہی تاویل ہی سہی لیکن بلوچستان اسمبلی میں کیا ہوا؟ جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے سپیکر نے جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عبدالواسع کو قائدِ حزب اختلاف مقرر کیا۔ سندھ کے نگران وزیراعلی پراخبارات نے جو کچھ لکھا ہے، اس کے بعد انہیں خود استعفیٰ کا اعلان کرنا چاہیے تھا ؎ خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا آنکھوں سے شرمِ سرورِ کون و مکاں گئی ادھر ایک ایماندار چیف الیکشن کمشنر ہماری قسمت میں لکھا گیا۔ ایسا ایماندار کہ اللہ کی پناہ۔ سپریم کورٹ سے حکم صادر ہونے کے باوجود‘ نئی حلقہ بندیاں کراچی میں ممکن نہیں۔ فرمایا کہ سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کا بندوبست ممکن نہیں تو یہ قابلِ فہم‘ مگر حلقہ بندیاں تو کاغذ پہ کرنا ہوتی ہیں‘ خاردار تاریں تو نہیں لگائی جاتیں۔ جعلی ڈگریوں کی جانچ پڑتال نہیں ہو سکتی۔ ٹیکس ادا نہ کرنے والے ارکان پارلیمنٹ اور دوسرے سیاستدانوں سے بازپرس ممکن نہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ 74 برس کا بیمار اور بوڑھا آدمی ہے۔ جسمانی نہیں‘ طاقت ایک نفسیاتی چیز ہے۔ اورنگ زیب کی عمر اسّی برس تھی‘ جب شیوا جی نے للکارا اور کہا: یہ تمہارے خدا خدا کرنے کے دن ہیں۔ جواب میں اسے لکھا: اللہ کی سب نعمتیں دیکھ چکا۔ شہادت کے سوا اب کوئی آرزو باقی نہیں۔ محمد علی جناح کو ٹی بی میں مبتلا ہوئے تین سال ہو چکے تھے‘ جب قرارداد پاکستان منظور ہوئی‘ مزید آٹھ سال بیمار پھیپھڑوں کے ساتھ وہ بروئے کار رہے۔ 1946ء میں معالج نے یہ کہا: آپ کے پاس صرف ایک برس باقی ہے۔ فرمایا: ایک سال تو بہت طویل وقت ہوتا ہے۔ اللہ نے انہیں دو برس عطا کیے۔ مخلوق جس کے لیے درازی عمر کی دعا کرے‘ اس کی زندگی بڑھا دی جاتی ہے۔ صرف ایک سکّہ ہے جو اللہ کی بارگاہ میں قابلِ قبول ہے‘ اخلاص! اسی سے لیڈر ہمارے محروم ہیں۔ دعویٰ اور پیش گوئی نہیں کہ دعویٰ باطل ہوتا ہے۔ ان کے لچھن اگر یہی رہے تو اسی طرح برق ان پر گرے گی جس طرح پانچ بار پہلے گر چکی۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: اپنے بھائی کی مدد کرو‘ ظالم ہو یا مظلوم۔ ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کا ہاتھ پکڑ لیا جائے۔ نجات پا لینی چاہیے‘ ان سے نجات!