جنرل کیانی جیسے آدمی سے انتقام نہیں لیا جا سکتا۔وہ ایک صابر آدمی ہیں اور اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے : ان اللہ مع الصابرین۔ اجر و ثواب نہیں ، صبر کرنے والے کے حق میںاللہ خودپارٹی ہے۔ مگر افسوس کہ اکثر لوگ غور نہیں کرتے۔ جنرل راشد سے اچھا ترجمان جنرل پرویز مشرف کو مل نہ سکتا تھا۔ روانی سے بات کرتے ہیں اور ’’حملہ دفاع سے بہتر‘‘ کے قائل ہیں ۔ اکیلا چنا مگر کیا بھاڑ جھونکے گا۔سب سے اہم یہ کہ ساڑھے چار برس جلا وطنی میں رائگاں کر دئیے ۔ ناراض میڈیا اورالزامات کی یلغار ۔اس وقت وطن واپسی کا وعدہ وفا کیا ، جب انتخابی مہم عروج کو پہنچی ۔ حامی انہیں چھوڑ گئے ۔کبھی جنرل ایک مقبول آدمی تھا ۔ قومی معیشت میاں محمد نواز شریف نے برباد کر دی تھی ۔ خزانہ خالی تھا، بے روزگاری اور مہنگائی روز افزوں ۔ عام آدمی کے دو ہی بنیادی مسائل ہوتے ہیں ، روٹی اور امن ۔بے شک جمہوریت اچھی مگر مفلس کیا اسے شہد لگا کے چاٹے؟ 12اکتوبر 1999ء کو نواز شریف کا تختہ الٹاگیا تو گیلپ پاکستان کے مطابق 70فیصد پاکستانیوں نے اس کا خیر مقدم کیا۔ دس فیصد نے رائے دینے سے گریز کیا اور بیس فیصد نے مخالفت ۔ جنرل دانا ہوتا تو زیادہ سے زیادہ 15نومبر تک ریفرنڈم کرالیتا ۔ آج جمہوریت کے دعویدار بہت ہیں مگر تب پیپلز پارٹی سمیت کوئی ایک بھی میدان میں اتر نہ سکا؛حتیٰ کہ شریف خاندان کے سب سے بڑے سرپرست نے لکھا : ہمیں معلوم نہ تھا کہ نواز شریف یاسر عرفات بن چکے ، یعنی اپنی قوم سے بے وفائی کے مرتکب ۔ نائن الیون کے بعد مذہبی جماعتیں میدان میں اتریں مگر بے حد تامل کے بعد۔ مولانا فضل الرحمٰن سے جنرل کا رابطہ تھا ۔ کابینہ کے اجلاس میں انہوںنے ستائش کی تو وزیر خارجہ عبدالستار نے مولانا کو بد عنوان کہا ۔ جنر ل صاحب اس پر چمک کر بولے : کرپشن کا قطعا کوئی ثبوت نہیں ۔ برسبیل تذکرہ کل ٹی وی کے ایک مشہور پروگرام میں جمعیت علمائے اسلام کے ایک لیڈر نے کہا: رئوف کلاسرا بہت ہی معتبر اخبار نویس ہیں ۔ انہوںنے لکھا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے کسی رفیق کے خلاف بدعنوانی کا کبھی کوئی سراغ نہ مل سکا ۔ میں نے پوچھا تو وہ حیران رہ گئے ۔ کہا : کبھی یہ بات میں نے لکھی ہے او رنہ لکھ سکتا ہوں۔ جمعیت علمائے اسلام کے رحمت اللہ کاکڑ نے کشتوں کے پشتے لگا دئیے تھے ۔ خود مولانا صاحب کے کارنامے معلوم اور معروف ہیں ۔ برصغیر میں لیڈر نہیں ، دیوتا ہوتے ہیں ۔ پارٹیاں نہیں ،صرف لیڈر پائے جاتے ہیں ۔ 117سال کی جدید سیاسی تاریخ میں کہ آل انڈیا کانگرس 1885ء میں تشکیل پائی تھی ، پہلی بار تحریکِ انصاف نے نچلی سطح تک الیکشن کرایا اورنتیجہ ہم نے دیکھ لیا۔ جنرل راشد قریشی نے ایک ٹی وی مذاکرے میں جنرل پرویز مشرف کو’’نیک‘‘آدمی کہا تو گزارش کی : جنرل صاحب کی اُردو شاید اچھی نہیں ۔ خود اپنے تناظر سے بھی وہ انہیں ’’اچھا‘‘ کہہ سکتے ہیں ، نیک نہیں۔ اس پر انہوںنے یہ کہا : بہت سے لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہارون الرشید ہرگز ہرگز نیک آدمی نہیں۔ موضوع تک محدود رہنا تھا وگرنہ عرض کرتا : میں تو ایسا خطاکار ہوں کہ خود کو عوامی نمائندگی کے قابل سمجھتا ہی نہیں ۔ کونسلر بننے کا اہل بھی نہیں ۔ ختم المرسلینؐ کی تعلیمات کو رہنما کیجئے تو ہر وہ شخص نا اہل جو منصب کا دعویدار ہو ۔ اللہ اور اس کے رسولؐ مگر کس کو یاد ہیں؟ نام تو ان کادن میں کم از کم پانچ بار مگر سیاست سب کی سب کاروبار۔نرا کاروبار ہی نہیں بلکہ طاقت کے دیوتا کی پوجا۔ دوسروں کا کیا ذکر ، خود مذہبی رہنما بھی اس حمام میں دوسروں جتنے ہی ستر پوش ہیں۔ فرقوں کی بنیاد پر سیاسی پارٹیاں اور اس پر یہ دعویٰ کہ وہ دین کے بے ریا خدمت گزار ہیں ۔ جماعتِ اسلامی اگر دعویٰ کرے تو قابلِ فہم کہ فرقہ بندی اس کی بنیاد نہیں مگر امام احمد رضا خان بریلویؒ، امام محمد بن عبدالوہابؒ، دیوبندیت اور فقہ ء جعفریہ کی بنیاد پر سیاست کا جواز کیا ہے ؟ کیاشیعہ اور سنّی مکتبِ فکر رکھنے والوں کے بجلی کے بل الگ الگ ہوتے ہیں؟ امن و امان ، نظامِ انصاف کی تباہی اور گرانی سے وہ کم یا زیادہ متاثر ہوتے ہیں ؟ لیڈر وہ شخص ہوتاہے ، جو نسلی ، لسانی ، علاقائی اور مذہبی تعصبات سے بالا ہو، معاشرے کی تقسیم اور تضادات سے بالاتر… اور وہ آخری آدمی محمد علی جناح تھا۔ 12مئی 2007ء کے کراچی میں آشکار ہوا کہ جنرل پرویز مشرف کے اصل حامی کون ہیں ۔ اب بھی ان کے لیے قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست ممکن ہے، اگر ایم کیو ایم سے ان کا اتحاد ہو جائے۔ اس کی قیمت مگر وہ خود بھی چکائیں گے اور ایم کیو ایم بھی ۔ اس کے باوجود کہ تمام قابلِ ذکر ساتھی انہیں چھوڑ گئے اور ناکامی ان کی اظہر من الشمس ہے ، ان کی پاکستان آمد کا مقصد کیا ہے ؟ نصرت جاوید کا خیال یہ ہے کہ ان سے حساب چکانے کے لیے، جو 2008ء میں الیکشن کے ہنگام ان سے بے وفائی کے مرتکب ہوئے ۔ منجھے ہوئے رپورٹر کی رائے نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ سوال مگر یہ ہے کہ کس طرح ؟ اپنے کالم میں جنرل کیانی کا نام لکھنے سے انہوںنے گریز کیا مگر اشارہ واضح ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جنرل کیانی‘ پرویز مشرف کا پہلا انتخاب نہیں تھے ۔ میری معلومات کے مطابق ایک اور صاحب ۔ انہیں بتا دیا گیا تھا مگر وہ ضبط نہ کر سکے اور چرچا کر دیا۔ فوجی روایت میں یہ ایک سنگین واقعہ تھا؛چنانچہ قرعۂ فال جنرل اشفاق پرویز کیانی کے نام پڑا ۔وہ فلم نکال کر دیکھئے ، جب جنرل پرویز مشرف نے اپنی چھڑی جنرل کیانی کے حوالے کی ۔ دونوں کی بدن بولی میں بے یقینی تھی اور دونوں کے ہاتھ ذرا سے کانپ گئے ۔ میری معلومات یہ بھی ہیں کہ بعد ازاں صدرِ مملکت کی حیثیت سے جنرل صاحب نے فوج کے نئے سربراہ کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا مگر بروقت بھنک پا کر جنرل کیانی نے منصوبہ ناکام بنا دیا ۔ اصل جرم جنرل کیانی کا یہ ہے کہ 2008ء میں بڑے پیمانے کی دھاندلی کو انہوںنے سبو تاژ کر دیا ۔ کور کمانڈروں کے توسط سے انتظامیہ کو انہوںنے غیر جانبدار رہنے کو کہا ۔ بعض واقعات ٹی وی پر بیان کر چکا ہوں ۔ تفصیل پھر کبھی ۔ بولتے تو جنرل کیانی ہیں نہیں ، صرف سنا کر تے ہیں۔ کہا جاتااور اب بھی کہا جاتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے پیٹ میں کوئی بات ٹھہرتی ہی نہیں اور جنرل کیانی کے پیٹ سے کوئی بات نکلتی ہی نہیں ۔ زندگی رہی اور سبکدوشی کے بعد ازراہِ کرم اگروہ مفصل ملاقاتوں پر آمادہ ہوئے تو شاید 2001ء سے 2013ء تک پھیلے ادوار کے بارے میں کچھ عرض کر سکوں۔ یوں ان سے گزارش یہ کی تھی کہ ملازمت سے نجات کے بعد وہ خود اپنی سوانح لکھیں ۔ صدر غلام اسحٰق خان سے بھی بار بار عرض کرتا رہا ۔ مان کر نہ دئیے ۔ جنرل کیانی یہ کر گزریں تو اپنے ساتھ انصاف اور اس قوم کا قرض اتاریں گے ، جسے کبھی اعتماد میں لیا نہ گیا ۔لیڈر فقط نعرہ فروشی فرماتے ہیں اور شعبدہ بازی۔ صرف اورصرف شعبدہ بازی ۔ وہ مگر ضرورت سے زیادہ سوچنے والے آدمی ہیں اور اپنی عزتِ نفس پر بے حد حسّاس ۔ شخصی تصادم (personality clash)سے وہ بہرحال دامن بچاتے ہیں۔ سرتاپا ایک مہذب آدمی ۔ نہیں ،جنرل کیانی جیسے شخص سے انتقام نہیں لیا جا سکتا۔اور خواہ کتنی ہی خامیاں ہوں، پوری طرح وہ ایک صابر آدمی ہیں اور اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے : ان اللہ مع الصابرین ۔ اجر و ثواب نہیں ، صبر کرنے والے کے حق میں اللہ خود پارٹی ہے ، مگر افسوس کہ اکثر لوگ غور نہیں کرتے ۔ پسِ تحریر: نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی کا ماضی سبھی پہ روشن ہے۔ ازراہِ کرم ایک بات وہ یاد رکھیں ، تیز روشنیوں میں جس طرح شاہد آفریدی گیند چباتے نظر آئے تھے ، نگرانوں پربھی میڈیا پیہم نگراں رہے گا۔ والسلام!