امید کی مشعل فروزاں رہنی چاہیے کہ امید ہی ایمان ہے اور مایوسی کفر! فارسی کا محاورہ یہ ہے : خانۂ خالی را دیو می گیرد۔ خالی گھر پہ جن قابض ہو جاتے ہیں ۔ ووٹ کی پرچی پر ایک خانہ خالی چھوڑنے کی تجویز پر سیاستدانوں اور تجزیہ نگاروں کا ردّعمل یہی ہے ۔ کیا وہ زیادہ احتیاط یعنی خوف میں مبتلا نہیں ؟ بتایا گیا ہے کہ اس سے عدم استحکام کا خطرہ ہے ۔ بنگلہ دیش میں 13فیصد امیدواروں کو مسترد کر دیا گیا تھا؛چنانچہ ضمنی الیکشن کرانا پڑے۔ ضمنی الیکشن سے کیا عدم استحکام ہو جاتاہے ؟ شیخو پورہ کے پولیس افسر کا کہنا یہ تھا کہ قومی اسمبلی کے کم از کم تین ارکان جرائم میں ملوّ ث ہیں ۔ صورتِ حال سنگین تھی ؛چنانچہ ذوالفقار چیمہ کو ڈی آئی جی مقرر کرنا پڑا، جنہیں اس لیے ہٹادیا گیا تھا کہ حکمران نون لیگ کی طرف سے حلقہ این اے 100میں دھاندلی کی کوشش انہوںنے ناکام بنا دی تھی ۔ امکان ہے اور واضح امکان کہ اب کی بار بھی انہی امیدواروںکو ٹکٹ دئیے جائیں گے ۔ کیا ووٹروںکو یہ حق نہ دینا چاہئیے کہ وہ ان سب کو مسترد کر سکیں ۔پھر شاید کچھ بھلے لوگ بروئے کار آئیں ۔ جمہوری ملکوں کی تاریخ کاایک سرسری سا مطالعہ بھی آشکار کرتاہے کہ قیادت جب تک درمیانے طبقے سے ابھر کر سامنے نہ آئے ، سیاسی استحکام جنم لیتاہے اور نہ نظامِ انصاف بروئے کار آتاہے ۔ امریکہ ہرگز کوئی مثالی معاشرہ نہیں ؛تاہم اس کی خیرہ کن ترقی کا راز یہی ہے کہ جارج واشنگٹن سے اب تک خال ہی امیر طبقے سے صدارتی امیدوار چنے گئے ۔برطانوی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے ۔ سب سے زیادہ قابلِ تقلید واقعات ترکی میں رونما ہوئے ۔ وہ ترکی، جہاں فوج امریکہ اور اسرائیل کی حلیف تھی ۔ دینی تعلیم ہی نہیں ، اذان پر بھی پابندی عائد تھی ۔ کمال تحمل اور سلیقہ مندی کے ساتھ مخلص اور معتدل مزاج ترک مسلمان بروئے کار آئے ۔ بہترین کامیابیوں اور خوف زدہ کر دینے والی ناکامیوں کے درمیان اپنا سفر انہوںنے جاری رکھا ۔ عالمی استعمار کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھنے والے جنرلوں ، سرمایہ داروں اور ان سیکولر طبقات کے خلاف، جو خدا اور رسولؐ کا نام لینے والوں کی تحقیر کرتے اور مذاق اڑایا کرتے ۔ طیب اردگان نے کپتان سے کہا : حال یہ تھاکہ اگر ہم پارلیمنٹ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حوالہ دیتے تو سیکولر لیڈر آوزے کستے ۔ خون کے گھونٹ پی کر ہم رہ جاتے ۔ آج طیّب اردگان کی عظمت کا عالم یہ ہے کہ اوباما نے 2010ء میں اس وقت اسرایئلی وزیر اعظم نتین یاہو کو ان سے معافی مانگنے پر مجبور کیا ، جب غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کی کوشش میں ، ایک نجی ترک بحری جہاز فلسطینی علاقے میں داخل ہوا۔ یہودیوں نے اس پرحملہ کیا اور دس رضا کاروں کو شہید کر ڈالا۔ سرکاری طور پرمعافی مانگنے کے بعد سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے نتین یاہو نے کہا : ترکی سے تعلقات برقرار رکھنے کے لیے میں ایک سو دلائل دے سکتا ہوں او رختم کرنے کے لیے ایک بھی نہیں ۔ یہ وہی ترکی تھا، جس کی پارلیمنٹ نے عراق پر حملے کی آرزومند امریکی افواج کو اپنی سرزمین پر سے گزرنے کی اجازت نہ دی تھی ۔ا س کے باوجود امریکی صدر مجبور تھا۔ اسرائیل کے وجو دمیں آنے کے بعد، یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا اور یہ بھی شاید پہلی بار تھاکہ امریکیوں نے صہیونی ریاست پر شدید دبائو ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ اگر آج ترکی دنیاکی سب سے زیادہ تیز رفتاری سے ترقی کرنے والی دوسری معیشت ہے ، تو اس کی وجہ وہ پارٹی ہے ، جو جمہوری طریقے سے، سلیقہ مندی اور اہتمام کے ساتھ بنائی گئی ۔ من مانی کرنے والی اس فوجی قیادت کا تمام تر جاہ و جلال انہوںنے خاک میں ملا دیا ، جو حکومتوں کے تختے الٹتی ، اپنی مرضی کے جج مقرر کراتی اور سیاسی لیڈروں کی تذلیل کیا کرتی ۔ پاکستانی فوج مختلف ہے ۔ ثقافتی اور سماجی لحاظ سے وہ اپنی قوم سے ہرگز متصادم نہیں ۔ اس کے باوجود، اس میں بہت سی خرابیاں ہیں اور تشکیلِ نوکی ضرورت ہے مگر یہ کارنامہ وہی سیاسی جماعت انجام دے سکے گی ، جو مضبوط اخلاقی اساس کی حامل ہو ، جس کی تنظیم مستحکم ، ہر سطح پر جس کی قیادت منتخب اور محترم ہو۔ وہ سیاسی جماعت کہاں ہے ؟ سیاسی رہنمائوں کو ووٹ مانگنے عوام کے پاس جانا ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود صدر آصف علی زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم بنایا ۔ اس کے باوجود اس منصب پر وہ فائز رہے کہ جلد ہی نہ صرف ا نہیں بلکہ ان کے خاندان کے تقریباً تمام افرادکوبدعنوان قرار دیا جانے لگا۔ ایم بی بی ایس، میاں، بیوی، بچوں سمیت ۔ ان سے جان چھوٹی تو اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی قیادت کے لیے راجہ پرویز اشرف چنے گئے ۔ وہ شخص ، عدالتِ عظمیٰ جسے پہلے ہی قصوروار قرار دے چکی تھی ۔ جن کے بارے میں عام تاثر یہ تھاکہ آخری درجے کے مصلحت پسند اور موقع پرست ہیں او ردیانت جن میں نام کو نہیں ۔ ہم تو انہیں راجہ صاحب لکھتے ہیں مگر آبائی شہر گوجر خان میں انہیں راجہ رینٹل ہی کہاجاتا ہے اور ان کے برادرِ عزیز کو راجہ مینٹل یا راجہ ہوٹر۔ برادرِ خورد خود کو اس شہر کا سرپرست کہتے ہیں ۔ خدا جانے اس سے ان کی مراد کیا ہے ۔ اسی شہر میں تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی کے لیے ایک جواں سال کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کا ارادہ کیا ۔ کپتان اور پارلیمانی پارٹی کے دوسرے ارکان کو اس پر میں نے ایک پیغام بھیجا ۔ بے شک وہ پارٹی سے مخلص اور ایماندار آدمی ہے مگر زیادہ سے زیادہ سات ہزار ووٹ لے سکے گا۔ چوہدری عظیم کئی گنا زیادہ مقبول ہیں اور اتنے ہی صاف ستھرے ۔ کروڑ پتی ہونے کے باوجود بالکل ایک عام آدمی کی طرح گلیوں ، بازاروں میں گھومتے نظر آتے ہیں ۔ انتخابی مہم نہیں ، عام دنوں میں وہ مسجد میں بیٹھ رہتے ہیں ۔صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر خواجہ حمید الدین اورچوہدری ساجد ان کے دست و بازو ہو سکتے ہیں ۔ نیک نام اور خدمت گزار لوگ ، ایسے کہ جن کی ہمیں آرزو ہے ۔ اب تک کوئی جواب نہیں ملا۔ پروفیسر احمدرفیق اختر نے مجھ سے کہا: کیوں اپنی جان ہلکان کرتے ہو۔ جو ایمان رکھتا ہو، غم اسے کبھی نہ پالنا چاہیے ۔ میرا دل دُکھا ہوا تھا ، عرض کیا : حد ہو گئی ،چوہدری عظیم پر بھی غور و خوض ؟ا س پر انہوںنے اپنی بات دُہرائی ۔ نون لیگ کس کو اعزاز بخشے گی ؟ چوہدری ریاض ؟ ووٹروں کی رائے اتنی بُری ہے کہ نقل نہیں کی جا سکتی ۔ جاوید اخلاص ؟ خود ان کا اپناخاندان ان سے بغاوت کر چکا۔ این اے 51کے ووٹروں کو یہ حق ملنا چاہیے کہ ناقص امیدواروں کو اگر ٹکٹ دئیے جائیں تو وہ ان سب کو مسترد کر دیں ۔ غضب خدا کا، کیسا عجیب ملک ہے ، نواز شریف کے اربوں روپے بیرونِ ملک پڑے ہیں اور صرف 16 کروڑ کے اثاثے انہوںنے ظاہر کیے ۔ الیکشن کمیشن کی مجال نہیں کہ ان سے جواب طلبی کرے ۔ کیا عدالت کی مجال ہے ؟ خدا کا سچّا قانون لوگ بھول کیوں جاتے ہیں کہ اس کے ہاں دیر ہے ، اندھیر نہیں ۔ نہیں یہ ناقص الیکشن ہیں ۔ ٹیڑھی بنیادوں پر تعمیر کی جانے والی ایک عمارت، جو برقرار نہ رہ سکے گی ۔ کوئی بھی جیتے ، خود کو وہ بھنور میں پائے گا۔ حیرت سے سوچا ، میرؔانیس کے اس شعر کا ایک مفہوم اور بھی ہے ؟ یہ بے سبب نہیں خالی گھروں کے سنّاٹے مکان یاد کیا کرتے ہیں مکینوں کو وہ مکین کب آئیں گے ؟ آج نہیں تو کل ، کل نہیں تو پرسوں ، ترک رہنمائوں کی طرح جو اپنے وطن سے اتنی ہی محبت کریں گے ، جتنی اپنے گھر سے کی جاتی ہے ۔ ملک لمیٹڈ کمپنیاں نہیں ہوتے کہ دیوالیہ ہو جائیں ۔ امید کی مشعل فروزاں رہنی چاہئیے کہ امید ہی ایمان ہے اور مایوسی کفر!