براہِ کرم رُک جائیے اور رُک کر سوچیے۔ پنجابی کا محاورہ یہ ہے: جلدی کا کام شیطان کا! مجھے اندیشہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف یا عمران خان کی بجائے بالآخر اس الیکشن میں سے کچھ اور ہی نکل نہ آئے۔ سیاسی جماعتیں کم و بیش اسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ فرما رہی ہیں جیسا کہ 1968ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان کی طلب کردہ گول میز کانفرنس میں کیا تھا۔ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے شیخ مجیب الرحمٰن کی رہائی کے بغیر کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور مولانا عبدالمجید بھاشانی نے اس کے باوجود سرے سے بائیکاٹ ہی کر دیا کہ فوجی حکمران نے اقتدار سے دستبرداری سمیت تمام عوامی مطالبات مان لیے تھے۔ نواب زادہ نصراللہ خاں نے، جو اپوزیشن پارٹیوں کے متحدہ محاذ DAC (ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی) کے سربراہ تھے، سنبھالنے کی پوری کوشش کی۔ سیاستدانوں کے ہاتھ مگر ایک دوسرے کے گریبانوں میں تھے؛ چنانچہ وہ کانفرنس ناکام ہو گئی جو سیاسی اور آئینی بحران حل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی تھی۔ اس بحران کے بطن سے یحییٰ خان نمودار ہوئے۔ باقی تاریخ ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس وقت جنرل اشفاق پرویز کیانی ہیں۔ محتاط، محب وطن اور اپنی عزتِ نفس کے معاملے میں حسّاس۔ آخر کو کیا ہوتا ہے، اس کا فیصلہ مگر عسکری قیادت نہیں بلکہ حالات کے دھارے کو کرنا ہے۔ سیاست میں شخصیات اہم ہوتی ہیں اور پارٹیاں بھی مگر سب سے اہم حالات کا رُخ ہوا کرتا ہے۔ مسئلہ صرف یہ نہیں کہ الیکشن کے ہنگام احساسِ عدمِ تحفظ اور ہوسِ اقتدار کی ماری سیاسی پارٹیاں حالات کی نزاکت کے ادراک سے عاری ہیں بلکہ ان کے درمیان وہ کم از کم رابطہ بھی موجود نہیں، سیاسی عمل کے لیے جو ہر حال میں لازم ہوتا ہے۔ خالد مسعود خان کی بجائے اگر کوئی اور شخص یہ اطلاع دیتا کہ این اے 177 مظفر گڑھ سے تحریکِ انصاف رانا محبوب اختر کی بجائے، کسی اور کو ٹکٹ دینے کا ارادہ رکھتی ہے تو میں ہرگز یقین نہ کرتا۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی اپنے کسی رشتہ دار کو دلوانا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے نور محمد بھابھا ایسے معتبر اور مخلص امیدوار کے ساتھ ایسا ہو چکا، جو اپنے حلقہ انتخاب ہی نہیں، پارٹی کارکنوں میں بھی محبوب و مقبول ہیں۔ جنوبی پنجاب میں پارٹی کے منتخب صدر۔ خالد مسعود خان کا کہنا یہ بھی ہے کہ جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی نے ملتان کی کئی ٹکٹیں ریوڑیوں کی طرح بانٹ دیں۔ گجر خان کے معاملے میں، ذاتی طور پر میں نے کپتان اور پارلیمانی بورڈ کے ارکان سے بات کی۔ ایماندار اور مقبول امیدواروں کا ایک گلدستہ۔ مگر ایسے امیدوار زیرِ غور ہیں جو انتخابی مہم تک چلا نہیں سکتے۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں عامر کیانی کو میں نے دیکھا تو حیران رہ گیا۔ اس غیرسنجیدہ آدمی کا یہاںکیا کام؟ قومی اسمبلی کا ایک ٹکٹ صداقت عباسی کو دے دیا گیا۔ اگر وہ تیسرے نمبر پر آ سکا تو یہ ایک خوش خبری ہو گی۔ شیخ رشید کا دعویٰ ہے کہ عمران خان نے ان سے دس سیٹوں کا وعدہ کیا تھا۔ دس سیٹوں کا؟ راولپنڈی کے گلی کوچوں میں گھومنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ شیخ صاحب اپنی سیٹ بھی جیت نہیں سکتے۔ اثاثہ نہیں، وہ ایک بوجھ ہیں۔ ٹیلی ویژن پر وہ کتنے ہی مقبول ہوں، رائے عامہ انہیں ہمیشہ کے لیے مسترد کرچکی۔ عبدالعلیم خان کا ذکر ہی کیا، وہ چلے جائیں تو ان کی نوازش، خس کم جہاں پاک۔ یہ اس پارٹی کا حال ہے جس کا سربراہ صداقت شعار اور ایثار کیش ہے۔ نون لیگ جسے چاہے ٹکٹ دے۔ شریف خاندان کا ایجنڈا ہر قیمت پر حکومت کا حصول ہے۔ پہلے فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے، اب امریکہ اور عرب ممالک کی پشت پناہی اور رائے عامہ کے خلاف زردار طبقات کے اتحاد سے۔ یہ ایک خطرناک صورتِ حال ہے۔ پانچ برس تک دونوں ہاتھوں سے اس ملک کو لوٹا گیا ہے۔ انتخابات کا وقت آیا تو الیکشن کمیشن نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی خفیہ مفاہمت سے وجود میں آیا۔ نگران حکومتوں کی تشکیل میں آصف علی زرداری ایک بار پھر سبھی کو چکمہ دینے میں کامیاب رہے۔ دوسرے صوبوں کا ذکر ہی کیا، پنجاب کا وزیر اعلیٰ ایک ایسا شخص ہے، جسے الیکشن اور اپریل کی دھوپ میں بسنت منانے کی فکر لاحق ہے۔ اچھی خبریں بلوچستان سے آئی ہیں مگر تہہ در تہہ بحران میں قوم کو اس پر اظہارِ مسرّت کی مہلت بھی نہیں۔ قوم پرست سیاسی جماعتیں انتخابی عمل میں شریک ہونے کو آگے بڑھی ہیں۔ غیرملکی امداد سے بروئے کار دہشت گردوں کو، جو 40 سے زیادہ فراری کیمپ چلا رہے ہیں، الگ تھلگ کرنے کی حکمتِ عملی پر کام کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ کراچی کے بارے میں مگر اندیشے ہی اندیشے ہیں۔ ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کا کوئی خطرہ نہیں مگر حقیقی امن کے لیے کوئی بڑی کارروائی ممکن نہیں۔ معاملات کے ہاتھ سے نکل جانے کا اندیشہ ہے۔ زرداری حکومت نے جنرل پرویز مشرف کے پیداکردہ مسائل کو پیہم پانچ برس تک اور بھی الجھایا ہے۔ امن و امان کی حالت خراب، سرمایہ بیرون ملک فرار اور ٹیکس وصولی میں ناکامی۔ سچ تو یہ ہے کہ ریاست نام کی کسی چیز کا وجود ہی دکھائی نہیں دیتا۔ دانشور غور فرمائیں، ریاست مزاحمت کیا کرتی ہے۔ اپنی بقا کے لیے باغیوں کو کچل دینے کی جبلّت اس کے خمیر میں ہوتی ہے۔ میڈیا سے کچھ امید وابستہ کی جاتی مگر اصل موضوعات پر بحث ہی نہیں۔ تیز رفتار ریلوے انجن کی طرح، جو بریک لگانے کے باوجود آگے بڑھتا جاتا ہے، ٹی وی چینل معمول کے چٹخارے دار مباحث میں مگن ہیں۔ مقبولیت کی وہی دوڑ اور اشتہارات کے حصول کی وہی جنگ۔ اسلام آباد کے کھرب پتی نے تقریباً ہر کہیں نقب لگا رکھی ہے۔ جن لوگوں کو جیلوں میں ہونا چاہیے پسِ پردہ وہ قومی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہر صبح اور ہر شام دربار سجتے اور فیصلے صادر ہوتے ہیں۔ صد شکر کہ لاہور ہائی کورٹ نے نوٹس لے لیا۔ یوں بھی عدالت کی شان میں کسی کو گستاخی نہ کرنی چاہیے مگر مؤدبانہ عرض یہ ہے کہ ریٹرننگ افسران کو ہلّہ شیری کس نے دی تھی؟ یا للعجب ایاز امیر کے کاغذات مسترد اور نواز شریف کے کسی تامل کے بغیر قابلِ قبول ہیں، صرف برطانیہ میں جن کی سرمایہ کاری ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ بجا کہ نون لیگ کے بغیر الیکشن نہیں ہو سکتے۔ ہونے بھی نہیں چاہئیں مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ منی لانڈرنگ کے مرتکب ہیں اور بڑے پیمانے کی منی لانڈرنگ کے۔ قانون عام آدمی کی گردن ناپتا ہے، شریفوں، زرداریوں اور چوہدریوں کی نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عسکری قیادت کے سوا، جو بظاہر پُرامن اور منصفانہ انتخابات کے لیے ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کو تیار ہے، تمام انتظامی اور سیاسی قوتیں بے لگام ہو چکیں۔ سیاسی پارٹیوں نے سرے سے ہوم ورک نہ کیا تھا؛ چنانچہ امیدواروں کی فہرستیں جاری کرنے کے وہ قابل نہیں۔ تحریکِ انصاف تو دس ماہ سے اپنے الیکشن میں الجھی تھی مگر پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے راستے میں کیا رکاوٹ تھی؟ ان کی کوئی ترجیحات ہی نہیں، کوئی نظم نہیں۔ اس لیے کہ کوئی مقصد ہی ان کے پیشِ نظر نہیں۔ ہوسِ اقتدار، فقط ہوسِ اقتدار۔ اس پر حیرت انگیز یہ کہ ہر صبح اخبار اٹھائیے اور بھاڑے کے کسی ٹٹو کی لکھی ہوئی ہجو یا قصیدہ پڑھیے۔ بعض اخبارات نے خود کو بیچ ڈالا ہے۔ یاد نہیں پڑتا کہ کبھی الطاف حسین کے کسی اقدا م کی تائید کی ہو لیکن آج انہوں نے ایسی بات کہی کہ سوچنا پڑا۔ تجویز ان کی یہ ہے کہ اگر دوسری پارٹیاں اتفاق کریں تو الیکشن ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دیئے جائیں۔ ڈھنگ کی با ت کوئی بھی کہے، سننی اور ماننی چاہیے۔ ترتیب اور سلیقہ مندی میں صرف کیا جانے والا وقت ہی بہترین نتائج کا ضامن ہوتا ہے۔ براہِ کرم رُک جائیے اور رُک کر سوچیے۔ پنجابی کا محاورہ یہ ہے: جلدی کا کام شیطان کا!