اس لغو سیاست سے جی اکتانے لگا۔ اتنے بڑے بڑے سفید جھوٹ کہ شہباز شریف چھ ماہ کے اندر بجلی کا بحران ختم کردیں گے۔ اتنا بڑا دعویٰ کہ دو بار پورے ملک اور پانچ بار پنجاب میں برسرِ اقتدار آنے والی نون لیگ‘ نیا پاکستان تعمیر کرے گی۔ بھاڑے کے ٹٹوئوں کا گھڑا ہوا الزام ،مضحکہ خیز الزام کہ شریف خاندان سے اختلاف رکھنے والا ہرشخص ، ہر لیڈر صدر زرداری سے سازباز رکھتا ہے۔ ارادہ ہے کہ ہفتے میں ایک بار ہم نفسوں کو اپنے مطالعے میں شریک کیا جائے۔ عربی‘ فارسی‘ اردو اور پنجابی شاعری کے شناور، اپنے عصر میں قدیم عربی ادب پر شاید سب سے زیادہ گہری نگاہ رکھنے والے اس نادرِ روزگار ،ڈاکٹر خورشید رضوی کے مجموعۂ کلام ’’یکجا‘‘ سے ایک انتخاب۔ کسی روز ڈاکٹر صاحب سے کئی پرلطف طویل ملاقاتوں کا حاصل بھی! یہ جو ننگ تھے، یہ جو نام تھے، مجھے کھا گئے یہ خیالِ پختہ جو خام تھے، مجھے کھا گئے کبھی اپنی آنکھ سے زندگی پہ نظر نہ کی وہی زاویے کہ جو عام تھے، مجھے کھا گئے میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں یہ جو لوگ محوِ کلام تھے، مجھے کھا گئے وہ جو مجھ میں ایک اکائی تھی، وہ نہ جُڑ سکی یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے، مجھے کھا گئے یہ عیاں جو آبِ حیات ہے، اسے کیاکروں کہ نہاں جو زہر کے جام تھے، مجھے کھا گئے وہ نگیں، جو خاتمِ زندگی سے پھسل گیا تو وہی جو میرے غلام تھے، مجھے کھا گئے جو کھلی کھلی تھیں عداوتیں، مجھے راس تھیں یہ جو زہر خند سلام تھے، مجھے کھا گئے …………… پھر وہ گم گشتہ حوالے مجھے واپس کر دے وہ شب و روز، وہ رشتے مجھے واپس کر دے آنکھ سے دل نے کہا، رنگِ جہاں شوق سے دیکھ میرے دیکھے ہوئے سپنے مجھے واپس کر دے میں تجھے دوں تری پانی کی لکھی تحریریں تو وہ خونناب نوشتے مجھے واپس کر دے میں شب و روز کا حاصل اْسے لوٹا دوں گا وقت اگر میرے کھلونے مجھے واپس کر دے مجھ سے لے لے صدف و گوہر و مرجاں کا حساب اور وہ غرقاب سفینے مجھے واپس کر دے نسخۂِ مرہمِ اکسیر بتانے والے تو مرا زخم تو پہلے مجھے واپس کر دے ہاتھ پر خاکۂِ تقدیر بنانے والے یوں تہی دست، نہ در سے مجھے واپس کر دے آسماں! صبح کے آثار سے پہلے پہلے میری قسمت کے ستارے مجھے واپس کر دے میں تری عمرِ گزشتہ کی صدا ہوں خورشید اپنے ناکام ارادے مجھے واپس کر د …………… کانٹوں سے بھرے بَن میں رستے کی بِنا ڈالی دے دے کے لہو طرحِ نقشِ کفِ پا ڈالی بدلے میں دفینے کے قطرے ہیں پسینے کے کیوں دل کی گواہی پر دیوار گرا ڈالی پھر آج فضائوں کو مطلوب ہے خونریزی بادل کی زِرہ پہنی‘ شمشیرِ صبا ڈالی دو حرف تسلی کے‘ جس نے بھی کہے‘ اس کو افسانہ سنا ڈالا‘ تصویر دکھا ڈالی دنیا رہی خوابیدہ‘ خورشید نے شب بھر میں پچھم سے شفق لا کر پورب میں بچھا ڈالی …………… اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کر جا دیکھ اب بھی روشِ دہر سے وحشت کر جا اپنا چلتا ہوا بُت چھوڑ زمانے کے لیے اور خود عرصۂ ایام سے ہجرت کر جا مانتا جس کو نہ ہو دل، وہ عمل خود پہ گزار جو فسانہ ہو اسے چھو کے حقیقت کر جا سر کٹایا نہیں جاتا ہے تو کٹ جاتا ہے بات اتنی ہے کہ اس کام میں سبقت کر جا جاں سے آگے بھی بہت روشنیاں ہیں خورشیدؔ اک ذرا جاں سے گزر جانے کی ہمت کر جا …………… نعت شان انؐ کی سوچیے اور سوچ میں کھو جایئے نعت کا دل میں خیال آئے تو چُپ ہو جایئے سونپ دیجے دیدۂ تر کو زباں کی حسرتیں اور اس عالم میں جتنا بَن پڑے‘ رو جایئے یا حصارِ لفظ سے باہر زمینِ شعر میں ہو سکے تو سرد آہوں کے شجر بو جایئے اے‘ زہے قسمت‘ کسی دن خواب میں پیشِ حضورؐ فرطِ شادی سے ہمیشہ کے لیے سو جایئے اے‘ زہے قسمت‘ اگر دشتِ جہاں میں‘ آپ ؐکے نقشِ پا پر چلتے چلتے نقشِ پا ہو جایئے …………… مناجات کتنا احسان ہے تیرا یہ عنایت کرنا تجھ کو منظور ہوا مجھ سے محبت کرنا حسرتوں کا بھی کوئی روزِ جزا ہے کہ نہیں میری حسرت میں تو تھا تیری اطاعت کرنا حق نہیں ہے‘ نہ سہی‘ تیری سخاوت کے حضور ہے مرا کام تمنا کی جسارت کرنا جسم زندانِ عناصر میں گرفتار سہی تو بہرحال مرے دل پہ حکومت کرنا بوند ہوں‘ کامِ صدف تک مجھے پہنچا دینا شورشِ موج میں خود میری حفاظت کرنا دل کو دریوزۂ کثرت میں نہ اُلجھا دینا مجھ کو ہر سانس میں تنہا تو کفایت کرنا تو کسی روز ڈاکٹر صاحب سے طویل‘ پرلطف ملاقاتوں کا حاصل بھی۔ کسی دن‘ اپنے اظہارالحق کی شاعری کا مطالعہ بھی کہ یوں تو ان کے کالم بھی چراغاں کرتے ہیں مگر ان کا شعر چیزِ دگر ہے‘ چیزِ دگر!