ناکامی تباہ کرتی ہے اور نہ مشکلات بلکہ زعم، بلکہ حسنِ نیت اور حکمت کی کمی۔ فتح مکہ سے پہلے رحمت اللعالمینؐ کو احد سے گزرنا پڑا۔ کوئی اور کس شمار قطار میں ہے؟ افسوس کہ لوگ غور نہیں کرتے۔ تحریک انصاف کی ناکامی کے اسباب؟ بہرحال دوسری بڑی پارٹی بن کے وہ ابھری ہے۔ فیصلہ سازی کا طریق بدل لیا جائے تو امکانات کی ایک عظیم الشان کائنات اہلِ عزم کی منتظر ہے۔ کامیابی تباہ کن ہوتی ہے‘ اگر وہ خمار طاری کرے‘ برتری کا احساس بخشے۔ سبق سیکھ لیا جائے تو ناکامی نعمت بن جاتی ہے۔ غلطیاں بہت سرزد ہوئیں۔ خود احتسابی‘ جناب خود احتسابی! لیڈر کی ساکھ باقی ہے‘ کارکن زندہ سلامت ہیں۔ ٹیم کی تشکیلِ نو درکار ہے اور کارکنوں کو مایوسی سے بچا رکھنے کی۔ داخلی اسباب پر بھی بات بہت ہو چکی مگر خارجی مسائل تو بالکل آشکار ہیں۔ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کا کیا مقصود تھا؟ ملک کے مفاد پرست طبقات کی ترجیحات کیا؟ ناکام لوگ اپنی ناکامی کے لیے ہمیشہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ عرض کرتا رہتا ہوں‘ مصیبت اور ناکامی بری ہوتی تو رحمۃ اللعالمینؐ کو کبھی نہ پہنچتی۔ اللہ کے قوانین میں ہرگز کوئی استثنیٰ نہیں۔ عظیم پیغمبروں اور اولیاء کے لیے اگر نہیں تو دوسروں کے لیے کیونکر؟ کامرانی صداقت کو حکمت سے ہم آمیز کرنے کا نام ہے۔ حکمت صاحبِ ایمان کو اتنی ہی عزیز ہونی چاہیے‘ جتنی گمشدہ چیز ملنے کی مسرت۔ تحریک انصاف کے قائد‘ اس کے لیڈروں اور ہوش مند کارکنوں کو خود سے سوال کرنا چاہیے کہ اس تمام عرصے میں وہ حکمت کہاں تھی۔ کوئی داستان اورحکایت نہیں‘ یہ اللہ کا فرمان ہے: روزِ ازل دانش کو پروردگار نے تخلیق کیا تو اس سے کہا کہ بروئے کار آ۔ پھر اس پہ ناز فرمایا اور ارشاد یہ کیا: جو کچھ میں دوں گا‘ اس کے طفیل دوں گا اور جو لے لوں گا‘ اسی کے سبب۔ قرآن کریم کی پھر وہی آیت: جو ہلاک ہوا‘ وہ دلیل سے ہلاک ہوا اور جو جیا‘ وہ دلیل سے جیا۔ الیکشن کمیشن کے لیے بظاہر دیانت دار مگر ناکردہ کار اور معّمر سربراہ کا تقرر کس لیے ہوا؟ پھر اس کے اختیارات کم کیوں ہوئے؟ زرداری اور نوازشریف کے اتفاق رائے سے الیکشن کمیشن کے ارکان چنے گئے۔ چوروں اور ڈاکوئوں تک کوالیکشن لڑنے کی اجازت ملی۔ آزاد الیکشن مقصود ہوتا تو آزاد لوگ مقرر ہوتے۔ اعتبار قائم کرنے کے لیے بزرگ جج کو وزیراعظم بنا دیا گیا۔ انتظامی عہدے کیا‘ ججوں کو دیئے جاتے ہیں‘ جن کی کائنات دو کمروں تک محدود ہوا کرتی ہے؟ کیا آصف علی زرداری اور نوازشریف منصفانہ الیکشن کے آرزو مند تھے؟ وہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کیوں نہ کرتے؟ سپریم کورٹ سے فیصلہ صادر ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن سمندرپارپاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے پر آمادہ کیوں نہ ہوا؟ تحریک انصاف کو چوکس ہونا چاہیے تھا؟ اس جلیل القدر حکمران عمر فاروق اعظمؓ نے کہا تھا: جس سے نفرت کرتے ہو‘ اس سے ڈرتے رہو۔ شفقت محمود نے نجم سیٹھی کو نگران وزیراعلیٰ بنانے کا خیر مقدم کیا۔ وہ ان کے ذاتی دوست ہیں۔ کیا نجم سیٹھی انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے کارندے نہیں؟ کیا وہ نوازشریف کے رفیق کار ثابت نہ ہوئے؟ کیا وہ چالاک لوگوں میں سے بھی چالاک ترین نہیں؟ میں پھر پوچھتا ہوں کس کے ایما پر عاصمہ جہانگیر کا نام وزارتِ عظمیٰ کے لیے پیش ہوا اور آخر کیوں؟ شفقت محمود کی ذمہ داری ہے‘ پارٹی ہی نہیں‘ پاکستانی عوام کو بھی انہیں بتانا ہوگا کہ کیا انہی نے عمران خان کو سیٹھی کے حق میں قائل کیا تھا؟ رات گئے حامد خان اورکپتان کی برتری کی بالاتری تحلیل کیسے ہوگئی؟سعد رفیق کے انتخاب پر ان کا حلقہ انتخاب مشتعل کیوں ہے؟ کیا شہرِ لاہور میں وہ شفقت محمود اتنی مقبولیت بھی نہیں رکھتے؟ الزام نہیں لگایا جا رہا ‘ سوال پیشِ خدمت ہے اور ہر سوال قائل کر دینے والے جواب کا طالب ہوتا ہے۔ یہ ناچیز چیختا رہا کہ پنجاب کی افسر شاہی نون لیگ کے ایما پر کام کرتی ہے۔ کیوں یہ آواز تحریک انصاف کے لیڈروں کو سنائی نہ دے سکی؟ وہ پیش بندی کیوں نہ کرسکے؟ علیم خاں کتنے ہی وفا دار ہوں۔ شوکت خانم ہسپتال اور تحریک انصاف کے لیے کتنے ہی عطیات انہوں نے دیئے ہوں۔ کیا ایک پراپرٹی ڈیلر ملک کے اعصابی مرکز میں‘ انتخابی مہم کا نگران ہوسکتا ہے؟ کیا ایک بہترین منتظم کا نام اس ناچیز نے پیش نہ کیا تھا؟ کیوں وہ مسترد کردیا گیا۔ کیوں اس کا مذاق اُڑایا گیا؟ پندرہ سو برس ہوتے ہیں‘ کسریٰ کے دربار میں ایک عرب خطیب نے کہا تھا: بادشاہ! حسنِ ظن ایک بھنور ہے اور بدگمانی بجائے خود ایک تحفظ۔ ایرانی شہنشاہ کے برپا کردہ عالمگیر جشن میں یہ واقعہ رونما ہونے کے بعد سینکڑوں برس بعد‘ مدینہ منورہ میں ایک سرخرو‘ طویل قامت آدمی نے‘ جو رکاب پر پائوں رکھ کر نہیں‘ چھلانگ سے گھوڑے پر سوار ہوا کرتا‘ ایک دن یہ کہا تھا: ہم دھوکہ نہیں دیتے مگر دھوکے کی تمام شکلوں سے واقف ہیں‘ تمام شکلوں سے! انسانی جبلّتوں کے تعامل سے پوری طرح آگاہ‘ نفس کے ہر فریب سے واقف۔ جی ہاں! اس تاریخ ساز شخص کا نام عمر ابن خطابؓ تھا۔ حدیث کی مستند ترین کتب میں سرکارؐ کا فرمان رقم ہے: میرے بعد اگر کوئی پیغمبر ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتے۔ پارٹی پر انشاء اللہ بتدریج تفصیل سے بات ہوگی۔ صدر دفتر میں نالائق اور سستے لوگ براجمان تھے۔ ان کے بارے میں ایک دن احسن رشید نے پوچھا تھا: ان لوگوں کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ خود کپتان نے مجھ سے کہا تھا: حیرت ہے کہ دفتری اہلکار اپنی تصویریں دیواروں پر آویزاں کرنے لگے۔ لیڈر بننے پر اُتر آئے۔ کیا میں نے اسے بتایا نہ تھا کہ ان میں سے ایک اوّل درجے کا سازشی ہے۔ سرکارؐ کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے: ہر کام کے لیے ایک آدمی ہوتا ہے۔ ادنیٰ لوگوں کو اعلیٰ منصب نہیں سونپے جاتے اور مانگنے والوں کو تو ہرگز نہیں۔ شکست ایک عظیم نعمت ہوسکتی ہے‘ غورو خوض سے گرہیں اگر کھل سکیں۔ کسی اور کو اپوزیشن لیڈربنا دیجئے لیکن وہ اولوالعزم ہی اصل اپوزیشن لیڈر ہوگا۔ کبھی میچ فکس نہ کرنے اور کبھی مایوس نہ ہونے والے اس آدمی کے دبدبے سے حکمرانوں کی ٹانگیں کانپتی رہیں گی۔مولانا فضل الرحمن کے ذریعے تحریک انصاف کا صوبائی مینڈیٹ چُرانے کی سازش کا آغاز ہوچکا۔تحریک انصاف دوسروں کو باوقار شرکت کی دعوت دے‘ جماعت اسلامی اور آزاد ارکان کو۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے انتخاب میں انتہا درجے کی احتیاط برتی جائے۔ جو امیدوار سامنے ہیں‘ ان میں سے ایک بھی مشکل حالات کا آدمی نہیں۔ بعض سطحی، بعض معمولی مفادات کے بندے۔ مضبوط اعصاب کے وفادار اور اہل لیڈر کی ضرورت ہے۔ خود دیانت دار ہو بلکہ بدعنوانی کو کسی حال میں برداشت نہ کرے۔ اس امکان پر بھی غور ہونا چاہیے کہ خان خود وزیراعلیٰ بنے۔ آٹھ امیدواروں کے نام لے کر اس ناچیز نے بتایا کہ وہ سب ناکام ہوں گے۔ پارٹی کے بڑے بڑے لیڈروں نے چھوٹے چھوٹے مفادات ملحوظ رکھے۔ این اے 177 میں شاہ محمود کے تجویز کردہ ذوالفقار قریشی کو کتنے ووٹ ملے‘ جس کی جاوید ہاشمی نے بھی تائید کی تھی؟ گجر خان کے ف ف کو کتنے؟ صداقت عباسی کو؟ خدانخواستہ ان سے ہمارا ذاتی عناد نہ تھا۔ وہ کام ان سے لیا جاتا، جس کے وہ اہل تھے۔ علیم خان کو سیکرٹری فنانس بنانے پر کسی کو اعتراض نہ ہوتا۔ سیکرٹری جنرل کا انتخاب کرانے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟ جہانگیر ترین جیسا کوئی نامزد کیا ہوتا۔ اسی طرح تمام صوبوں میںصوبائی سیکرٹری جنرل ۔ایک مضبوط سیکرٹریٹ درکارتھا اور اب بھی ہے۔ یکسر تشکیل نوہونی چاہیے۔ ووٹ پارٹی کے ہوتے ہیں اور امیدواروں کے بھی۔ جہاندیدہ امیدوار یا نئے لوگوں میں سے اہل اور عوام کے لیے قابلِ قبول لیڈر۔ نیک نیت آدمی کے لیے کامیابی مقدر ہوتی ہے۔ وقت مگر وہ خود مقرر نہیں کرسکتا۔صلاح الدین ایوبی ایسا آدمی گرگر کے اٹھتا رہا تاآنکہ تاریخ کیلئے قندیل ہوگیا۔ اصحابِ رسول ؐ نے جب یہ کہا: اللہ کی مدد کب آئے گی تو انہیں پیمبروں کے واقعات سنائے گئے۔ یعقوب ؑجن کا فرزند چھینا گیا‘ یوسف ؑجو جیل میں پڑے رہے، یونس ؑجو مچھلی کے پیٹ میں اتارے گئے۔ ناکامی تباہ کرتی ہے اور نہ مشکلات بلکہ زعم ‘ بلکہ حسنِ نیت اور حکمت کی کمی۔ فتح مکہ سے پہلے رحمت اللعالمینؐ کو احد سے گزرنا پڑا۔ کوئی اور کس شمار قطار میں ہے؟ افسوس کہ لوگ غورنہیں کرتے۔