نواز شریف واقعی بدل گئے یا یہ دلیپ کمار کی اداکاری ہے ؟ سیّدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا: کسی میں ایک خوبی کا مشاہدہ کرو تو دوسری کے ظاہر ہونے کا انتظار کیاکرو۔ بلوچستان اور سرحد میں جو عاقلانہ فیصلے میاں محمد نواز شریف نے کیے ہیں ، حسنِ طبیعت سے زیادہ ان میں حالات کے دبائو کا دخل ہے ۔ دانائی کی ستائش بہرحال کی جانی چاہیے۔ پختون خوا میں تو خود ان کی ضرورت تھی کہ ناتجربہ کار عمران خان کو امتحان میں ڈالیں نہ کہ مولانا فضل الرحمن مد ظلہ العالی کی ہم رکابی سے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی ماریں ۔ بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک سے بہتر انتخاب ممکن نہ تھا ۔ ان کے سب نظریات سے تواتفاق نہیں کیا جا سکتا‘ وہ مگردرمیانے طبقے سے ابھر ے ہیں اور خود کو برباد ہونے سے انہوںنے بچائے رکھا ہے ۔ دولت کے وہ پجاری نہیں اور سادگی میں بسر کرتے ہیں ۔ تربت میں ایک چھوٹے سے ، عام سے گھر میں ان کی رہائش ہے ۔ تحمل سے بات کرتے اوردوسرے کی سنتے ہیں ۔ قوت فیصلہ کے حامل ہیں ۔نتیجہ اخذ کرنے میں تامل کرتے لیکن پھراس کا دفاع کرتے ہیں ۔ تذبذب ہمیشہ خطرناک ہوتاہے لیکن بلوچستان میں خود غرض مقامی لیڈروں کے علاوہ بھارت اور افغانستان ایسے پڑوسیوں ، بعض عرب ممالک اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کے تانے بانے بہت ہی گہرے ہیں۔ ایک بڑے ہی ہوشمند آدمی کی ضرورت تھی ۔میاں محمد نواز شریف اپنی پارٹی کاوزیر اعلیٰ بنوا سکتے تھے۔ ایسا ہوتا تو آج کے فیصلے کو خراجِ تحسین پیش کرنے والے اُس پر بھی دلائل کا پہاڑ بنا دیتے ۔ بینگن کا نہیں، نوکر بادشاہ کا ہوتا ہے ۔ اختر مینگل اپنی پریشاں حالی کے خود ذمہ دار ہیں ۔ گومگو اور مخمصے کا وہ شکار رہے کہ الیکشن میں حصہ لیں یا بائیکاٹ کریں: ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے ہزاروں برس سے خرابوںمیں آباد چلا آتا ان کا قدیم قبیلہ ان کے ساتھ ہے ۔ گذشتہ برسوں میں وہ مگر اس کے ساتھ نہ تھے ۔ ایران اور افغانستان سے ہجرت کر کے اس سرزمین میں آبسنے والے دوسرے قبائل کے برعکس، مینگل اسی دھرتی کے باسی ہیں ۔ کبھی وہ اس خطہ ارض میں غالب تھے ۔ بتدریج کم اور کمزور ہوتے گئے ۔ قبائلی زندگی میں جس قدر چوکنا رہنے کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ ان میں باقی نہ رہی ۔ بڑے مینگل ، سردار عطا ء اللہ خاں ذاتی زندگی میں اجلے آدمی ہیں مگر بے حد جذباتی ۔ فرزندِ ارجمند نے باپ کے کچھ تیور تو ورثے میں پائے ہیں کہ باپ پر پوت ، پتا پر گھوڑا ، بہت نہیں تو تھوڑ اتھوڑا۔ یکسوئی مگر نہ تھی ، جو کارِ سیاست کی شرطِ اوّلین ہے ۔ صبرکاوہ مظاہرہ فرماسکیں تو ایک دن اقتدار خود ان کے دروازے پر دستک دے گا۔یہ بچّوں کو زیبا ہے کہ ٹافی مانگیں اور یہ شاعر ہوتاہے جو بچّے کی طرح وصل کی آرزُو کرتاہے ، لیڈر نہیں۔ کبھی انتظار ہی سب سے اچھی حکمتِ عملی ہوتا ہے ۔ حقیقت پسند ڈاکٹر عبدالمالک اور منکسر مزاج حاصل بزنجو یہی بات انہیں سمجھانے گئے ۔ اب انہوںنے کس قدر غور کیا، کوئی دن میں اندازہ ہو جائے گا۔ عسکری قیادت اور وفاقی حکومت کی عنایات ، بلوچستانی لیڈروں اور افسر شاہی کی ہولناک کرپشن الگ ، بلوچستان خون آلُود ہے تو اسے مجروح اور مبتلا رکھناغیر ملکیوں کا منصوبہ ہے ۔ رکوڈک کے ریگ زاروں سے وزیرستان کے کوہساروں اور وادیوں تک تقریباً ایک ہزار میل کی پٹی ہے جو معدنیات میں دنیا کازرخیز ترین علاقہ ہے ۔یہیں ، صوبہ سرحد میں ایک مقام ایسا بھی ہے ، جہاں 25،30سال میں 1000بلین ڈالر کا سونا کشید کیا جا سکتاہے ۔ ظاہر ہے کہ اوّل کم کم اور پھر اس کے بعد زیادہ ۔ ہم جذبات سے گُندھے نعروں اور خوابوںمیں زندگی کرنے والے لوگ تو جانتے نہیں مگر دشمن خوب جانتاہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ اس پر پاکستان کی غیر معمولی تزویراتی اہمیت کہ نہ صرف بھارت، ایران اور چین بلکہ تیل اور گیس سے مالامال وسطی ایشیا کے میدانوں میں ہمارے سوا داخلے کا درحقیقت کوئی دروازہ ہی نہیں: اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے جس نے ڈالی، بری نظر ڈالی امن درکار ہے اور امن ہی کو برباد رکھنے کی کوشش کی جائے گی ۔ پاکستان اگر ایک معاشی قوت بن سکے؟ اگر پولیس اور پٹوار کے کہنہ ، غلیظ اور عام آدمی کی قوتِ حیات سلب کرنے والے نظام کو بدل کر قوم میں آہنگ اور خروش پیدا کیا جا سکے تو انکل سام کی پروا کسے رہے گی ؟ یہ پہلا سوال ہے ۔ دوسرا یہ ہے کہ دوسرے عوامل کے علاوہ اسرائیل کا سرپرست اور چین سے لرزاں انکل سام یہ کیوں گوارا کرے ؟ کیا اس لیے کہ تمام غلاموں کی طرح جو اپنے آقائوں سے نفرت کیا کرتے ہیں ، ہم اس سے چھٹکارا چاہتے ہیں ؟ غور کیجئے تو سوالات کا ایک جنگل سا اگتا چلا جاتاہے ۔ بھارت کو پاکستان کا امن اور خوشحالی کیونکر خوش آسکتی ہے ؟جب بھی ہمارا حال دگر گوں ہو ، بھارتی ذرائع ابلاغ میں پاکستان پر حملے کی تجاویز برسات کے سبزے کی طرح اگتی ہیں ۔ انہیں چھوڑیے ، جن کے خیال میں 27دسمبر 1979ء کو سوویت یونین نے افغانستان پر اس لیے حملہ کیا تھا کہ سوشلزم خطرے میں تھا ۔ کریملن میں مولانا سمیع الحق کی نہیں ، کہن سالہ اور جہاں دیدہ برزنیف کی حکومت تھی ۔ انہیں چھوڑیے ، جو یہ کہتے ہیں کہ امریکہ نے اپنی سلامتی کو لاحق خطرات کے طفیل کابل پر فوج چڑھادی ۔ کیا اسامہ بن لادن کے لیے کئی ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے کی ضرورت تھی ؟ غور کرنے والے اس سوال پر کیوں غور نہیں کرتے کہ ہمارے جن گروہوں نے سرخ فوج کے ہاتھوں تیرہ لاکھ افغان مسلمانوں کے قتلِ عام کی تائید کی ، وہی انکل سام کے وکیل ہیں اور اتنے ہی پرجوش ۔ عشروں تک وہ بتایا کرتے کہ وہ امریکی سامراج کے دشمن ہیں ، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ استعمار کے نوکر ہو گئے۔ ریمنڈ ڈیوس کی وکالت کرنے لگے ۔ ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑیے، ٹوٹ کر اب انہیں نواز شریف پر پیار آنے لگا ہے۔عام لوگوں کی بات نہیں ، ان میں سے اکثر نیک دل ہوتے ہیں اور محب وطن۔ ان کے لیڈروںاور لیڈرانیوں کی‘ ملک کی عسکری قیادت اگر سیاست میں مداخلت اور من مانی کرے‘ تو اس پر تنقید قابلِ فہم ہے بلکہ قومی فریضہ ۔ اس وقت بھی مگر وہ کیوں دانت پیستے رہتے ہیں جب فوج سیاست سے پسپا ہو رہی ہو ۔ ٹیلی ویژن پر آپ نے اسے دیکھا ہے جسے اردو آتی ہے اور نہ انگریزی ۔اس کے ذہن میں کبھی اچھا خیال ابھرتا ہے اور نہ چہرے پر مسکراہٹ ۔ فرمان اس کا یہ رہتا ہے کہ پاکستانی فوج اسے قتل کرا دے گی ۔چڑیا پر کون توپ چلاتا ہے ؟ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا اصل بات شہباز شریف نے ایک تقریب میں کہی ’’اگر پولیس اور پٹوار کی اصلاح نہ کی جا سکی؟‘‘ پانی یہیں مرتاہے اور یہیں مرے گا۔پولیس اور پٹوار ہی تو ان کا ہتھیار ہیں ۔ بنے تو چوہدری نثار اسی لیے وزیرِ داخلہ بنیں گے ۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا‘ ایم کیو ایم اور دلیپ کمار بھی نواز شریف پر ایمان لے آئے۔ کیوں نہ لائیں ؟ ایک وقت آتاہے کہ سبھی کے دل و دماغ روشن ہو جایا کرتے ہیں ، سبھی ’’صراطِ مستقیم‘‘کے آرزُومند ہوتے ہیں ۔ انتظار کیجئے۔ ہنی مُون میں نہیں ، میاں بیوی اس کے بعد کھلتے ہیں ؛حتیٰ کہ کھلی کتاب ہو جاتے ہیں ۔ نواز شریف واقعی بدل گئے یا یہ دلیپ کمار کی اداکاری ہے ؟ سیّدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا : کسی میں ایک خوبی کا مشاہدہ کرو تو دوسری کے ظاہر ہونے کا انتظار کیاکرو۔ تو آئیے! دلیپ کمار کی تیسری فلم کا انتظار کریں ۔