"HRC" (space) message & send to 7575

بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا

احساس و ادراک ایک چیز ہے اور ترجیحات کا تعین دوسری ۔ ایک ہدف کا تعین کر کے عزم و ارادے اور منصوبہ بندی کے ساتھ بروئے کار آنے کاولولہ۔ بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے حیاتِ اجتماعی کو منظّم اور مرتب کرنے کا انحصار فقط تعلیم و تفہیم پہ ہوتا تو معلّم اور مفکر حکومت کرتے ۔اقوام اور معاشرے نسبتاًکم علم رکھنے والے سیاستدانوں کو اپنے شب و روز پہ اختیار نہ سونپ دیا کرتے ۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے کہا تھا کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے ۔ یہ بھی ارشاد کیا تھا کہ بنی اسرائیل کے انبیاؑ سیاست کیا کرتے تھے ۔ کارِ سیاست ادنیٰ لوگوں کے سپرد کر دیا جائے تو وہ گردنوں پر سوار ہو جاتے ہیں ۔ سلیقے سے انجام دیا جائے تو افضل ترین ہے کہ معاشرے اسی سے استحکام اور نشوونما پاتے ہیں ۔ ہر جہت میں زندگی پھلنے پھولنے اور برگ و بار لانے لگتی ہے ۔ جس اخبار میں برفانی بلندیوں پر اندوہناک دہشت گردی کی خونچکاں تفصیلات ہیں ، کچھ اور خبریں بھی اسی میں درج ہیں ۔ مثلاً یہ کہ پختون خوا کے پروٹوکول کا مذاق اڑانے اور سادگی کا دعویٰ کرنے والے وزیرِ اعلیٰ اسی روز ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر ہری پور پہنچے کہ ایک شاد ی میں شریک ہوں ۔ کتنے بے شمار اخراجات ، کتنے سینکڑوں اور ہزاروں پولیس والے ۔ صوبائی دارالحکومت میں منتظر کتنی فائلیں اور روتے بلکتے مسائل ؟ کھانا پینا ، سستانا اور خوش وقتی کے لیے مہلت ناخدا کا حق بھی ہوتا ہے مگر کیا اس وقت بھی ، جب کشتی بھنور میں گھری ہو ؟ کوئی یکسونہیں ہے۔ حکمرانوں میں سے کوئی یکسو نظر نہیں آتااور اسی سے اندیشہ ہے ۔ ایک اور خبر بھی ہے : چوہدری نثار علی خاںنے وزارت سنبھالنے کے بعد سب سے پہلا اعلان یہ کیا تھا کہ ایک ایک تقرراور تبادلہ میرٹ پر ہوگا۔ سب سے پہلا حکم مگر یہ صادر کیا کہ مسلم لیگ لاڑکانہ کے صدر امداد چانڈیو کے صاحبزادے کو ایف آئی اے کراچی میں تعینات کر دیا جائے۔ وہ کئی سال سے پنجاب حکومت کے سائے میں پروان چڑھے اور سترھویں سے اٹھارویں گریڈ میں پہنچے ۔ وہ پنجاب، جہاں پبلک سروس کمیشن کو کھلونا بنایا جا رہا ہے ۔ جہاں نیک نام سہیل احمد کی تقرری پر عمل درآمد روک دیا گیا کہ وہ ضابطہ پسند واقع ہوئے ہیں ۔ فرمائش ان سے یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی خدمت میں حاضر ہو کر’’غلط فہمیاں ‘‘دور کرنے کی کوشش کریں ۔ کراچی میں ایف آئی اے کی ایک اہم ذمہ داری لاڈلے افسر کو سونپ دی گئی ہے ۔ آخر کس لیے ؟ آدمی اپنے تضادات کا اسیر ہوتا اور اپنے اعمال کی سزا بھگتتا ہے مگر ان پر افسوس کہ جو اپنے تجربات سے کچھ نہیں سیکھتے ۔ تحریکِ انصاف اور نون لیگ کے لیڈر طالبان سے مذاکرات کے لیے بہت بے چین تھے ۔ شہباز شریف نے طالبان سے استدعا کی تھی کہ وہ پنجاب میں دہشت گردی سے احتراز کریں ۔ عمران خان ارشاد کرتے تھے کہ قتل و غارت گری کا یہ کھیل فقط امریکی مداخلت کا ثمر ہے ۔ اب امریکہ مخالف تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کے اقتدار سنبھال لینے کے بعد وہ اور بھی زیادہ شدت سے بروئے کار کیوں ہیں ۔ اس سوال کا جواب کسی دانشور کے پاس نہیں ۔ تاویلات بہت ہیں ۔ ادھر وہ ہیں ، جو اس بہانے وفاق اور صوبوں ، سیاسی اور عسکری قیادت میں اختلاف کو ہوا دینے پر تلے ہیں ۔ اقبال ؔ نے کہا تھا۔ شاعر بھی ہیں پیدا ، علماء و حکما بھی خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ امریکہ کے خدّام کو چھوڑیے کہ وہ امریکہ کے خدّام ہیں اور کبھی سوویت یونین کے ۔ ریمنڈ ڈیوس کے وکیل کی طرح ، ایک کے بعد دوسرا اہم منصب جسے سونپ دیا گیا ہے ۔ وہ لوگ ، جو اپنے وطن کو مغرب کے نقطہ ء نگاہ سے دیکھتے اور وہ نتائج اخذ کرتے ہیں ، ارضی حقائق سے جن کا دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا۔ جو لوگ اپنے معاشرے کی ساخت کا ادراک ہی نہیں رکھتے ۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ نانگا پربت کی راہ میں جو سانحہ پیش آیا ، اس کے لیے مہینوں کی منصوبہ بندی اور ریاضت درکار تھی ۔ ایک منظّم منصوبے اور طے شدہ حکمتِ عملی کا نتیجہ ۔ پاکستانی کرکٹ پھل پھول رہی تھی تو لاہو ر میں سری لنکا کی ٹیم کو نشانہ بنایا گیا ۔ اب چین نے گواد رسے اپنی سرزمین تک ریلوے لائن بچھانے کا ارادہ ظاہر کیا تو اوّل زیارت میں قائد اعظمؒ کی یادگار تباہ کر دی گئی ،پھر شمال کی سرزمین کو بے گناہوں کے خون سے رنگین کر دیا گیا ۔ دنیاکی حسین ترین چوٹی کا دامن ، وہ خطہ ء ارض ، جہاں صدیوں سے امن استوار تھا۔ کہیں پربتوں کی ترائیوں میں ردائے رنگ تنی ہوئی کہیں بادلوں کی بہشت میں گلِ آفتاب کھلا ہوا ان بدقسمت لوگوں کے بارے میں کیا کہیے ، جو کنفیوژن پھیلانے کا کاروبا رکرتے ہیں ۔خفیہ ایجنسیوں کو اس طرح کے گھنائونے کاروبار سے کیا حاصل ہو سکتا ہے ؟ جہاں وہ علیحدگی پسندوں اور غیر ملکی ایجنٹوں سے برسرِ جنگ ہیں ، وہاں زیادتی کے واقعات بھی ہوتے ہوں گے ۔ اس پر ان کا احتساب بھی ہونا چاہیے مگر یہاں تو ان کی موجودگی ہی نہیں ۔ فوجی چھائونی تو کیا، کوئی چیک پوسٹ بھی نہیں ۔ یہ وزارتِ سیاحت کا کاروبار ہے اور داخلہ کے صوبائی محکمے کا ۔ سیاحوں کی آمدورفت کے آغاز اور امن کے قیام سے کس کو تشویش لاحق ہوتی ہے ؟ خوں ریزی سے کس کو فائدہ پہنچنے کا امکان ہے ؟ اگرچہ باقی امکانات پر بھی لازماًغور ہونا چاہیے ۔تفتیش سے پہلے تعجیل کے ساتھ حکم لگانا حماقت ہوگی مگر کیا بھار ت کے ملوّث ہونے کا امکان سب سے زیادہ نہیں ؟ کیا تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان نے ذمہ داری قبول نہیں کی؟ کوہ پیما اگر پاکستان کا رخ نہ کریں گے تو ظاہر ہے کہ بھار ت جائیں گے ۔ پاکستان اگر ان مہم جوئوں کے لیے پُرامن اور محفوظ ہو تو تشویش کس کو لاحق ہوگی ؟ اس میں کلام نہیں کہ چودھری نثار دہشت گردی سے نمٹنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں ۔ قدرے زیادہ دنوں تک اور قدرے زیادہ قریب سے میں نے انہیں دیکھا ہے ۔ پورے یقین سے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ سندھ کی حکومت اگر ان سے الجھنے کی بجائے ان سے بات کرے ۔ اگر مشترکہ طور پر کراچی میں قیامِ امن کا وہ منصوبہ بنائیں ۔ بہترین پولیس اور انٹیلی جنس افسروں کا انتخاب کر سکیں ۔ متحدہ کوششوں سے اگر رینجرز کو بھی ہم آہنگ کیا جائے ۔زیادہ سے زیادہ چند ہفتوں میں امن بحال ہو جائے گا ۔ موجودہ سیاسی لیڈروں میں کوئی شخص ان سے زیادہ اس طرح کے معاملات کا فہم نہیں رکھتا اور ان سے زیادہ سرعت کے ساتھ فیصلے نہیں کر سکتا۔ تمام پہلوئوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، اس ناچیز کا احساس یہ ہے کہ انہیں اگر آزادیء عمل نصیب ہو تو وہ کراچی کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کر سکتے ہیں ۔ اگر وزیر اعظم اسی طرح ان کی قوت ہوں جیسے بے نظیر بھٹو، نصیر اللہ بابر کی پشت پر کھڑی تھیں ۔ کب کوئی جنگ ہوگی ، یہ فیصلہ لشکر اور حکومت نہیں ، حالات کیا کرتے ہیں ۔ چیلنج سامنے ہے اور مہلت باقی نہیں ۔ اظہارِ خیال اور جوشِ خطابت کا وقت گزر چکا۔ جس قدر جلد ممکن ہو، وفاقی وزیرِ داخلہ کو اپنا منصوبہ تشکیل دینا ہوگا۔ آئی بی کی تشکیلِ نو کرنا ہوگی ۔ خوش قسمتی سے ایک نیک نام افسر ، جس کا سربراہ ہے ۔ جنرل کیانی اور جنرل ظہیر الدین سے تو کوئی اندیشہ ہی نہیں … کوئی دوسرے بھی ہوتے تو ان حالات میں فوج اور آئی ایس آئی تعاون کے سوا کیا کرتی ؟ یکسوئی درکار ہے ، فقط یکسوئی ۔ احساس و ادراک ایک چیز ہے اور ترجیحات کا تعین دوسری ۔ ایک ہدف کا تعین کر کے عزم و ارادے اور منصوبہ بندی کے ساتھ بروئے کار آنے کاولولہ۔ بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں