"HRC" (space) message & send to 7575

اثرِ خواب ہے اذاں میں ابھی

صبحِ صادق نہیں ، ابھی یہ صبحِ کاذب ہے ۔ جاگ اٹھے ہیں، چترال سے کراچی تک لاکھوں نوجوان جاگ تواٹھے ہیں ۔ منزل بھی آشکار ہے لیکن راستہ ابھی کشادہ نہیں ۔ ریاضت کے کچھ مہ و سال ابھی باقی ہیں: نیند سے گو نماز بہتر ہے اثرِ خواب ہے اذاں میں ابھی مجھ سے غلطی سرزد ہوئی وگرنہ شاید راز کی بات میں جان لیتا۔ وزیر اعظم گیلانی نے پوچھا : آپ کے خیال میں ڈاکٹر شعیب سڈل کو انٹیلی جنس بیورو کی سربراہی سے کیوں الگ کیا گیا ؟ جھٹ سے میں نے کہا : اس لیے کہ اپنی پسند کا افسر تعینات کرانے کے لیے وزیر داخلہ رحمن ملک نے ایک جھوٹی کہانی گھڑی ۔ یہ کہا کہ آئی بی ججوں کے فون ٹیپ کرا رہی ہے ۔ اس پر وہ خاموش ہو گئے اور خاموش ہی رہے ۔ اس طرح کا معنی خیز سناٹا ، جو آپ کو بتاتا ہے کہ مخاطب اس موضوع پر اب گفتگو نہیں کرنا چاہتا۔ کوئٹہ کے خوں ریز واقعات پر ظاہر ہے کہ دوسروں کی طرح میاں محمد نواز شریف بھی دل گرفتہ ہیں ۔ بہترین آغاز کے باوجود بلوچستان کا الجھا ہوا معاملہ سلجھتا ہی نہیں ۔ انہوںنے کہا کہ آئی بی اور آئی ایس آئی کو وہ تاکید کریں گے ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے چند روز قبل کہا تھا : آئی بی کے فنڈز حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے استعمال کیے جاتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کو سندھ کا آئی جی بنایا گیا تو ان کے پولیٹیکل سیکرٹری نے احسان جتلایا۔ تمہارے دوست کو ہم نے ایک اہم منصب سونپ دیا ہے ۔ میرا احساس یہ تھا کہ ایم کیو ایم کے ساتھ سودے بازی کے لیے ۔ زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ انہیں خفیہ ایجنسی میں مامور کر دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے صوابدیدی اختیارات کے تحت روپیہ خرچ کرنے پر فورا ہی پابندی لگا دی ۔ بعض صحافیوں کو پیسہ دیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ بھی ختم کر دیا گیا۔ ایک گم نام خبر نگار کے لیے وزیرِداخلہ نے بیس لاکھ روپے کی فرمائش کی مگر سنی ان سنی کر دی گئی۔ بیس لاکھ کیا، فوراً ہی وزیرِ داخلہ پچاس کروڑ لے اڑے۔ گورنر سلمان تاثیر اور وزیرِ داخلہ رحمن ملک نے مل کر منصوبہ بنایا تھا۔ پہلے ایک بڑی رقم اس ادارے کو منتقل کی گئی ۔ وزیراعظم کے دفتر سے ایک خط آئی بی کے صدر دفتر بھجوایا گیا کہ ایک خاص مشن کے لیے روپیہ درکار ہے ۔ یہ رقم رحمن ملک کے حوالے کر دی گئی۔ نون لیگ کی ایک خاتون رکن تو خرید لی گئی مگر اس سے زیادہ کچھ نہ بن پڑا۔ڈوگر عدالت کی مدد سے شہباز شریف کی حکومت برطرف کی گئی تو ایک ہنگامہ اٹھ کھرا ہوا ۔ احتجاجی تحریک اٹھی تو نون لیگ کو اقتدار واپس کرنے کے علاوہ ججوں کو بھی بحال کرنا پڑا۔ ایک مضحکہ خیز حرکت اس سے پہلے ہوئی ۔ ایک شام اچانک اعلان ہوا کہ آئی ایس آئی کی نکیل وزیرِ داخلہ کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے ۔ جب لوٹ مار کا ایک بہیمانہ سلسلہ جاری تھا۔ حسین حقانی جیسا مشکوک آدمی امریکہ میں پاکستان کا سفیر بنا دیا گیا تھا اور بلیک واٹر کے کارندے دھڑا دھڑ پاکستان پہنچ رہے تھے ، عسکری قیادت کیا، سیاسی قوتوں کو بھی یہ اقدام گوارا ہوتا؟ واپس لینا پڑاو راسے ایک کلرک کی غلطی کہا گیا۔ جی ہاں ، وہ بھنگ پی گیا تھا۔ آج کہ ہم خفیہ ایجنسیوں کی ناکردہ کاری پر ہراساں اور دکھی ہیں ، کیا کسی کو یاد ہے کہ خفیہ کاری کے میدان میں کبھی اس ملک نے حیرت انگیز کارنامے انجام دئیے تھے ۔ 1987ء کی براس ٹیک مشقوں کے ہنگام ، جب بھارتی فوج نے پاکستانی سرحدوں پر پیش قدمی کی توہر کہیں پاکستانی فوج کو مقابل پایا۔ ہنگامی طور پر منصوبے میں تبدیلیاں کر کے فوج کو دوسری سرحدوں پر منتقل کیاگیاتوبھی یہی ہوا۔ بھارتی دنگ رہ گئے ۔ یہی ایام تھے ، جب کرکٹ کا ایک میچ دیکھنے جنرل محمد ضیا ء الحق بھارت گئے ۔ میچ کے فوراً بعد جنرل نے وزیراعظم راجیو گاندھی سے کہا : اپنی فوج کو گولہ بارود آپ جاری کر چکے ۔ میں ایک سپاہی ہوں اور جانتا ہوں کہ یہ حملے کا فیصلہ ہے ۔ اگر ایسا ہوا تو نتیجہ خوفناک ہو گا۔ تاریخ میں بھارتی شہروںکا فقط نام رہ جائے گا۔ بعد میں ایک ذاتی دوست سے جنرل نے کہا :میں نے واضح طور پر راجیو گاندھی کی ٹانگیں کانپتی ہوئی دیکھیں ۔ آئی ایس آئی نے ویسا ہی کمال کر دکھایا، جیساکہ کبھی پاکستان کے پائلٹوں، کرکٹ کے کچھ کھلاڑیوں اور ان سے بڑھ کر سائنسدانوں نے۔ دوسری وجوہ کے علاوہ جنرل محمد ضیا ء الحق کو ا س لیے بھی قتل کرنے کا فیصلہ ہو اکہ ایٹمی پروگرام کی تکمیل کے ساتھ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کی حیران کن قوت سے انکل سام اب پریشان تھا۔ سینئر بش نے امریکی انٹیلی جنس اداروں کے مشترکہ اجلاس سے ، جسے Intelligence Communityکہا جاتاہے ،حکم دیا : آئی ایس آئی کے پر کاٹ دئیے جائیں ۔جنرل محمد ضیاء الحق پر کیسے ہی اعتراضات ہوں ، واقعہ یہ ہے کہ صورتِ حال سے فائدہ اٹھا کر انہوںنے آئی ایس آئی کو ایک طاقتور مشین بنا دیاتھا ۔ بھارتی اس سے خوف زدہ تھے ۔ بالی وڈ میں درجنوں فلمیں اس موضوع پر بن چکی ہیں ، اتنی زیادہ کہ بعد ازاں خود بھارتی فلم انڈسٹری میں اس طرزِ عمل کا مذاق اڑایا جانے لگا۔ اعلیٰ درجے کی خفیہ ایجنسیاں ملک کی اہم ترین ضرورت ہیں ۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے بعد، کسی نے جس کا ادراک نہ کیا ۔ جنرل کو قتل کر دیے جانے کے باوجود آئی ایس آئی کی ہیبت ایسی تھی کہ بھارتیوں نے پاکستان کو مصالحت کی پیشکش کی ۔ بھارتیوں کی درخواست پر سوئٹزرلینڈ کے دارالحکومت جنیوا میں را کے سربراہ سے جنرل حمید گل کی ملاقات ہوئی ۔ مہربانی کے عوض وہ سندھ میں اپنے نیٹ ور ک کی معلومات فراہم کرنے پر آمادہ تھے ۔ جی نہیں ، ملک میں سیاسی اقتدار ہی چاہیے۔ ساری دنیا کے برعکس پاکستان کے لیے کوئی الگ نسخہ تلاش نہیں کیاجا سکتا۔ سیاسی لیڈروں کومگر سلامتی کے تقاضوں کا احساس بھی تو ہونا چاہیے۔ کیوں انہیں پروا نہیں ہوتی کہ پاکستان خطرات میں گھرا ہوا ملک ہے ۔ احساسِ عدم تحفظ کے مارے ہوئے لوگ ، جو صرف عسکری قیادت ہی نہیں، اپنے وزرا، ارکانِ پارلیمنٹ اور کارکنوں تک سے خوف زدہ رہتے ہیں ۔ جو نہیں جانتے کہ اخلاقی برتری کے بغیر فوج پر سول کی بالادستی سہل نہیں ۔ جن کی دولت اور جن کی اولادیں ملک سے باہر ہیں ۔ جو گئے گزرے بھارتی سیاستدانوں سے بھی کم تر ہیں ۔ محترمہ بے نظیر بھٹوسے اولین ملاقاتوں کے دوران جنرل حمید گل نے کہاتھا کہ آئی ایس آئی ملک کی ایک عظیم قوت ہے ۔ اس جیسے ادارے آسانی سے تعمیر نہیں ہوتے۔ ان کے لیے ایک افغانستان درکار ہوتاہے ۔ افہام و تفہیم کی بجائے، انہوں نے شمس الرحمٰن کلّو کو سربراہی سونپ دی ۔ وہ ان کی مدد تو کر نہ سکے لیکن ادارہ زوال پذیر ہوا۔ اس کے بعد نواز شریف ، پھر دخترِ مشرق اور دوسری بار پھر قائد اعظم ثانی ۔ بیچ میں نگران حکومتیں ۔ آئی بی ہی نہیں ، آئی ایس آئی کو بھی انہوںنے تباہ کر ڈالا۔ اپنی پسند کے کیسے کیسے مضحکہ خیز لوگ وہ لے کر آئے ۔ وہ ایک تبلیغی جماعت کے مولوی صاحب، جو نواز شریف زندہ باد کے نعرے لگوایا کرتے، جنہوںنے تب افغانوں کے سب سے مقبول رہنما گلبدین حکمت یار کے ساتھ بدتمیزی کی ۔ گرفتار کرنے کی ساز باز بھی کرتے رہے۔ فروغ اور نشو و نما کے لیے قوموں کو امن درکار ہوتاہے اور امن بھیک میں نہیں ملتا ۔ قومی ہم آہنگی ، اداروں کی تعمیر ، مضبوط معیشت کے ساتھ فوجی قوت اور کارگر خفیہ ادارے ۔ خود ملک کے اندر ہر طرح کے جرائم پیشہ عناصر سے نمٹنے او ردشمن کے عزائم ناکام بنانے کے لیے ۔ انٹیلی جنس کے تصورات بدل چکے ۔ ان اداروں کے افسر اور اہلکار حب الوطنی کے جذبات سے مالا مال ، متحرک او رمستعد ہونے چاہئیں۔ چینیوں کا نسخہ یہ ہے کہ بھرتی میں کمال احتیاط کی جائے، بہترین تربیت دی جائے اور تنخواہ کی بجائے ، معاوضہ۔ ایک کم از کم رقم تو بہرحال ، بہتر کام پر زائد ؛حتیٰ کہ ایک سال میں 26تنخواہیں تک ادا کی جاتی ہیں ۔ جدید ریاست کن خطوط پر استوار ہوتی ہے ؟ کسی پارٹی نے اس موضوع پر کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا؛البتہ لاہور کے ایک ادارے نے خاموشی سے ریاضت کی ہے ۔ توانائی، صحت، تعلیم، افسر شاہی، ایک ایک موضوع پر۔ فوج نہیں، ایسے ادارے ہی ملک کا مستقبل سنوار سکتے ہیں ۔ صبحِ صادق نہیں ، ابھی یہ صبحِ کاذب ہے ۔ جاگ اٹھے ہیں ،چترال سے کراچی تک لاکھوں نوجوان جاگ اٹھے ہیں۔ منزل آشکار ہے لیکن راستہ ابھی کشادہ نہیں ۔ ریاضت کے مہ و سال ابھی باقی ہیں ۔ نیند سے گو نماز بہتر ہے اثرِ خواب ہے اذاں میں ابھی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں