تاریخ کا سبق یہ ہے کہ آدمی کسی کو دھوکا نہیں دیتا مگر اپنے آپ ہی کو اور بدترین فریب وہی ہے، جو اپنے ساتھ کیا جائے۔ رہے نام اللہ کا۔ تعصبات کی آبیاری پر آدمی آمادہ ہو تو سارا علم بھاپ بن کے اڑ جاتا ہے۔ تزکیۂ نفس پر صوفیا کو اصرار ہے اور یہ کہ علم بجائے خود حجاب ہو سکتا ہے ۔ سرزمینِ مصر میں ، صدر مرسی کے حامیوں کے قتلِ عام اور بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے رہنمائوںکی داروگیر پر غور کرتے ہوئے خود اپنی تاریخ کے کتنے ہی واقعات یاد آئے۔ غیر ملکیوں سے مدد کی بھیک مانگنے اور اپنے قبائل کے افتادگانِ خاک کی زندگیوں میں زہر گھولنے والے بلوچ سرداروں سمیت،قائد اعظم کے مخالف ہر لیڈ رکوترقی پسندی کے پروانے جاری کرنے والے دانشور جو کبھی سوویت یونین کے گیت گایا کرتے اور اب امریکہ کی گود میں بیٹھے ہیں ۔ این جی اوز کے لیے خزانوں کے منہ اس نے کھول رکھے ہیں ۔ دائیں بازو کے مفکر ، جو مساجد، مارکیٹوں اور مزارات پر خون کی ہولی کھیلنے والے درندوں کے لیے جواز تراشتے ہیں ۔ نون لیگ کی ایک چیلی نے قائداعظم کی مسلم لیگ کو جاگیرداروں کی باندی قرار دیا ہے ۔ ان کے برعکس نواز شریف عصری تقاضوں کے علمبردار ہیں کہ بھارت سے مراسم کے لیے بے چین ہیں ۔ سبحان اللہ ، قائد اعظم وہ تھے ،جن کے دشمن بھی ان کی دیانت کے قائل تھے ۔ ایک ایسا شخص ، جس نے عمر بھر کوئی وعدہ نہ توڑا، کبھی جھوٹ نہ بولا اور جس پر مالی بے قاعدگی کا الزام کبھی عائد نہ کیا گیا۔ صنعتوں کو قومیائے جانے کے ہنگام شریف خاندان کی تقریباً تمام تر جمع پونجی لٹ گئی تھی ۔ حکومت کا حصہ بننے کے بعد، اس کے اثاثوں میں 3600فیصد اضافہ ہوا۔ کیا کہنے ، کیا کہنے۔ قائداعظمؒ کمتر تھے اور نواز شریف برتر۔ژولیدہ فکر ترقی پسندوں کے لیے ایجنڈا اب یورپ سے آتاہے ،جہاں دوسری عالمگیر جنگ کے بعد امریکہ نے ذہنی غسل کے لیے ادارے قائم کیے ۔ امریکی نوازشات کی ایک مثال یہ ہے کہ ایسی صرف ایک پاکستانی تنظیم کو دس کروڑ روپے سالانہ دئیے جاتے ہیں ۔ آدمی جب مفاد اورتعصب کا ہو کر رہ جائے۔ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کو اقتدارحاصل ہوا تو ظلم و ستم کے کیسے کیسے المناک واقعات پیش آئے۔ سرپرست مان کر نہ دیتے تھے ؛حتیٰ کہ وہ دن آیا، جب عمران خان پر تشدد کر کے اس نے اپنی رسوائی کا سامان کیا۔ درویش کی خد مت میں حاضر ہوا تو کچھ شاعروں اور ادیبوں کا ذکر تھا ۔ کہا: اشفاق احمد نے مجھ سے پوچھاتھا: کیا میں صوفی بن سکتا ہوں ؟ عرض کیا : اتنی بڑی انا اور ایسی وجاہت پسندی کے ساتھ ہرگز نہیں۔ بولے : ممتاز مفتی سے میں نے کہا، فلاں فقیر کا جو واقعہ آپ نے لکھا ہے ، وہ طبع زاد ہے۔ مان گئے اور کہا : لوگوں کو خیر کی طرف مائل کرنے کے لیے ہم گاہے داستان تراش لیتے ہیں ۔ یکایک ہنس پڑے اور کہا : مفتی صاحب خوب آدمی تھے ۔ 90 برس کی عمر میں اپنی غلطی کا انہوںنے ادراک کیا اور اپنی اصلاح کی کوشش کی۔ بڑی خوبصورت اور فصیح پنجابی بولا کرتے ۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگے : ہم اللہ میاں کی گود میں بیٹھے تھے ۔ آپ نے کیا کیا کہ وہاں سے اٹھا کر ہمیں فرشِ خاک پہ لا بٹھایا۔ درویش خود بھی وہیں بیٹھتے ہیں ، خبطِ عظمت اور زعمِ تقویٰ سے پاک۔ گذشتہ صدی میں ساٹھ ،ستّر او راسّی کے عشرے میں بائیں بازو کے اخبار نویس اور دانشور سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کو امریکی کارندہ قرار دینے کے لیے مسلسل ایک مہم برپا کیے رہے ۔ بائیں بازو کے ایک کارکن ، جو متاعِ دل و جاں نواز شریف کی نذر کر چکے اور اب ان کے وفاقی وزیر ہیں ، لاہو ر کے ایک ہوٹل میں ملے ۔ قریشی برادران کا ذکر ہوا تو ٹھنک کر بولے : کیا اس میں کوئی شبہ ہے کہ وہ امریکی ایجنٹ ہیں ۔ اب وہ الطاف حسن قریشی سے رابطے میں رہتے اور کورنش بجا لاتے ہیں ۔ 1991ء میں ایک سبکدوش بریگیڈئیر سے ملاقات ہوئی ۔ حب الوطنی کے لیے ان کی بے تابی سے میں بہت متاثر ہوا ۔ ان کی خودنوشت چھپ کر آئی توسرتاپا اجلے ابوالاعلیٰ کے بارے میں لکھا تھا : ان کے گھر میں ایک ٹرانسمیٹر رکھا رہتا تھا، جس سے وہ امریکی سفارت خانے کو معلومات مہیا کرتے ۔ بائیں بازو سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ فرقہ ورانہ تعصب کا شکار تھے۔ یاد آتا ہے کہ انہی دنوں خوش گفتار عبداللہ ملک سے آمنا سامنا ہوا تو کہا: یہ جیکٹ کس ٹھاٹ سے تم نے پہن رکھی ہے ، گویا گلبدین حکمت یار نے دی ہو ۔ میں نے کہا : اتفاق سے انہی نے بخشی ہے ۔ پاڑہ چنار کی بلندی پر بنے ، ان کے کچّے گھرمیں ملاقات کو حاضر ہوا تو موسم کی سفاکی کا اندازہ نہ تھا۔ ہنس کر بولے : اور ہم لوگوں پہ تم زبان درازی کرتے ہو کہ روسیوں کے دستر خوان سے فیض پاتے ہیں ۔ میں نے کہا: ملک صاحب سچ کہیے‘ کیا آپ ایک جیکٹ پر اکتفا کر سکتے ہیں ؟ جیساکہ ان کا مزاج تھا ، میری گستاخی کو نظر انداز کر کے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور یہ کہا: بالکل نہیں ، واڈکا کا ایک کریٹ ہر ماہ کے آغاز میں گھر پہنچتا ہے ۔ کچھ دوسرے لوگوں کو میرا انداز ناگوار ہوا، اس پر میں نے ’’اشتراکی ملّا‘‘ کی پھبتی کسی تو ملک صاحب محظوظ ہوئے ۔ بہت دن تک دہراتے اور داد دیتے رہے ۔ فیض احمد فیضؔ کی زندگی کے آخری ایّام ذہنی پژمردگی اور اضمحلال کی تصویر تھے ۔ عام طور پر اخبارات کو وہ انٹرویو نہ دیا کرتے تھے لیکن 1983ء میں ایک اخبار کے وقائع نگار سے تفصیل کے ساتھ بات کی ۔ تسلیم کیا کہ سوویت یونین افغان مجاہدین کو ہرا نہیں سکتا۔ اسی اخبار کے صفحہ اوّل پر تعزیتی رپورٹ میں ، مرحوم کی ذہنی کیفیت کا اس ناچیز نے تذکرہ کیا تو انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے اوّلین عوامی اجتماع میں دشنام کا ہدف ہوا۔ مصر کی سیکولر قوتوں نے عرب بادشاہوں او رانکل سام کے ایما پر عوام کے منتخب صدر کی معزولی گوارا کر کے اخلاقی اعتبار سے اپنی قبر کھودلی ہے ۔ عجیب حریت کیش ہیں کہ ایک طرف امریکی استعمار ان کا سرپرست ہے‘ دوسری طرف عرب سلاطین نے 15بلین ڈالر کی مدد انہیں فراہم کی ہے ۔ صدر مرسی یا ان کی جماعت کے نظریات سے اتفاق ضروری نہیں مگر وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو ئے تھے ۔ دستور کے لیے قوم کی تائید حاصل کی تھی ۔ امریکی کارندہ فوج اب ان پر گولیاں برسا رہی ہے ۔ اپنے لہو سے ایسی داستان اخوانیوں نے لکھ دی ہے کہ گردشِ روزگار سے اس کی چمک ماند نہ پڑ سکے گی۔ عالمِ عرب اور برصغیر کے سیکولر دانشور خاموش ہیں۔ گزرے کل میں ا ن میں سے بہت سے لوگ خود کو سوشلسٹ کہلانا پسند کرتے تھے ۔ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمٰن کی پتری حسینہ واجد نے چار عشروں کے بعد جماعتِ اسلامی کے لیے تختۂ دار ارزاں کیاہے ۔ چالیس برس تک پاکستان میں ان لوگوں کی کردار کشی کی جاتی رہی ، جو اپنے وطن کو سلامت رکھنے کے لیے جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر اٹھے تھے اور تاریخ کا ایک نادر باب رقم کیا تھا۔ پاکستان توڑنے کے ذمہ د ار وہ نہیں ، جنرل یحییٰ اور ذوالفقار علی بھٹو تھے ۔ قرآنِ کریم قرار دیتا ہے کہ کھوٹے اور کھرے کو وہ آزمائش کے عمل میں چھانٹ کر الگ کر دیتا ہے ۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشا دکیا تھا کہ اس دنیا سے کوئی اٹھے گانہیں ، جب تک اس کا ظاہر و باطن آشکار نہ ہو جائے ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ آدمی کسی کو دھوکا نہیں دیتا مگر اپنے آپ ہی کو او ربدترین فریب وہی ہے ، جو اپنے ساتھ کیا جائے ۔ رہے نام اللہ کا۔