"HRC" (space) message & send to 7575

سانحہ

کارِ حکمرانی کے لیے حسنِ نیت درکار ہوتی ہے اور یکسوئی ۔ خدا کے بندو، حسنِ نیت اور یکسوئی ! فخر الدین جی ابراہیم کا استعفیٰ اور عمران خان کو عدالتِ عظمیٰ کا نوٹس مگر ڈیرہ اسمٰعیل خان کا سانحہ بہت سنگین ہے۔ فخر الدین جی ابراہیم کو اسی وقت مستعفی ہو جانا چاہیے تھا، جب ان پر انکشاف ہوا کہ چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات دوسرے ارکان کے برابر ہیں۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے خفیہ سمجھوتے سے ان کا تقرر کیا تھا۔ اختیار کے بغیر ذمہ داری قبول کرنا حماقت تھی ۔ شہرت ان کی بہت اچھی تھی اور قوم نے بہت توقعات ان سے وابستہ کر لیں ۔ تب اپنے خیر خواہوں سے وہ مشورہ کرتے پائے گئے کہ کیا کریں۔ ارکان گاہے کثرتِ رائے سے انہیں مسترد کر دیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنی پارٹیوں کے مفادات کی حفاظت کر رہے تھے ۔ انتخابات میں ڈٹ کر دھاندلی ہوئی ، خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں ، جہاں نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنی مرضی کے افسر مقرر کیے۔ کراچی میں تو الیکشن ہوا ہی نہیں ۔ خود الیکشن کمیشن کے سیکرٹری نے خرابی کا اعتراف کیا ۔ ہوتے تو تحریکِ انصاف کراچی میں شاید چھ سات سیٹیں جیت لیتی اور ممکن ہے کہ دو تین جماعتِ اسلامی بھی۔ صورتِ حال کا تقاضا تھا کہ ازسرِ نو ووٹروں کی رائے معلوم کی جائے مگر پراسرار طور پر پیپلزپارٹی اور نون لیگ نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ کیا وہ احساسِ جرم کا شکار تھیں یا ایم کیو ایم کو آسودہ کرنے کی متمنی ؟ آزادانہ الیکشن ممکن تھے اگر 2008ء کی طرح فوج افسر شاہی اور پولیس کو دوٹوک پیغام دیتی کہ دھاندلی گوارا نہ کی جائے گی ۔ فوجی قیادت نے مگرغیر جانبدار اور لاتعلق رہنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ناچیز انتخابات سے قبل تنہا شور مچاتا رہا کہ الیکشن کمیشن اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام ہے ۔ خاص طور پر پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ پر دو پارٹیوں کے اچانک اتفاقِ رائے کے بعد۔ نقار خانے میں طوطی کی آواز مگر کون سنتاہے ۔ قومی اسمبلی سے اپنے اولین خطاب میں عمران خان نے دھاندلی پر احتجاج کیااور کم از کم چار سیٹوں پر انگوٹھوں کے نشان جانچنے کا مطالبہ کیا تو چوہدری نثار علی خان نے اعلان کیاکہ چار کیا ،حکومت چالیس سیٹوں کا جائزہ لینے پر آمادہ ہے اور ایک کمیشن بنادیا جائے گا۔ وہ کمیشن کہاں ہے ؟ جہاں تک سپریم کورٹ کے نوٹس کا تعلق ہے ، عمران خان کوصرف ایک بات پر غور کرنا چاہیے: کیا اپنے موقف پر انہیں یقین ہے ۔ اس کے حق میں کافی دلائل وہ رکھتے ہیں ؟ اگر خود کو وہ درست سمجھتے ہیں تو نتائج کی پروا کیے بغیر ، انہیں ڈٹ جانا چاہیے۔ اگر نہیں تو عدالت سے معذرت کرنے میں ہرگز انہیں تامل نہ ہونا چاہیے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے : الصدق ینجی و الکذب یھلک۔ سچ نجات دیتا اور جھوٹ ہلاک کرتاہے ۔ پہاڑ ایسی مشکلات بھی سچّے آدمی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں ۔ آخرکو وہ سرخرو ہوتاہے ۔ غلطی ہو تو اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان جیل کا سانحہ خطرناک ہے اور کارِ حکمرانی میں پیہم المناک زوال کا بدترین مظہر۔ تعجب ہے کہ ایسی المناک اطلاع کے لیے انٹیلی جنس ایجنسی کے متعلقہ افسر نے خط لکھنے پر اکتفا کیا۔ براہِ راست صوبے کے وزیر اعلیٰ ، چیف سیکرٹری اورآئی جی کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ سے بات کرنا چاہیے تھی۔ خوب اچھی طرح سے یاد ہے کہ اکتوبر 2005ء کا خوفناک زلزلہ آیا تو محکمہ موسمیات کے سربراہ قمر زمان نے بیس منٹ کے اندر ایوانِ صدر، وزیرا عظم ، کابینہ ڈویژن اور جی ایچ کیو کو ذاتی طور پر مطلع کر دیا تھا۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان کے کمشنر پر تعجب ہے کہ اجلاس تو بلایا مگر انہوںنے بھی آئی جی ، چیف سیکرٹری اور وزیر اعلیٰ سے بات کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ اگر کوئی شخص فوری طور پر برطرفی کا مستحق ہے تو وہ یہی صاحب ہیں ۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا فوری ردّعمل یہ تھا کہ یہ انٹیلی جنس کی ناکامی ہے ۔ تب انکشاف ہوا کہ چار دن پہلے اطلاع دے دی گئی تھی ۔ صوبائی سیکرٹریٹ میں کن صاحب نے خط وصول کیاتھا اور انہوںنے سنگینی کا ادراک کیوں نہ کیا؟ مولانا فضل الرحمٰن نے جب یہ کہاکہ پختون خوا کی حکومت چلانا تحریکِ انصاف کے بس کی بات نہیں تو فوری طور پر ردعمل یہ تھا : کیا ا س کام کے لیے فربہ لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے ؟ ان کی بات میں مگر وزن ہے ۔ صوبائی حکومت کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عمران خان کا ردعمل برہمی کا مظہر ہے کہ وہ پچھلی حکومتوں کا پھیلایا ہوا گند صاف کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ بجا کہ ایم ایم اے کی حکومت میں دہشت گرد پھلے پھولے اور اے این پی کے زمانے میں کرپشن وبا کی طرح پھیل گئی ۔ انتظامیہ کمزور اوربے دل ہے اور دہشت گردوں کے باب میں حکومت کی کوئی پالیسی نہیں ۔ اگر یہ اطلاع درست ہے کہ صوبائی وزرا کو دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کرنے سے روک دیا گیاہے تو یہ نہایت ہی افسوسناک طرزِ عمل ہے ۔ اگر معصوم شہریوں کے وحشیانہ قتل کی مذمت نہیں تو اور کس کی؟ کیا سرکاری مشینری مضمحل ہو کرنہ رہ جائے گی ؟ آج نہیں ، ہمیشہ سے ، خاص طور پر پچھلی ڈیڑھ دو صدیوں سے دنیا بھر میں حساس قسم کی جیلوں کی حفاظت کے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں ۔ یہاں تو صورتِ حال یہ تھی کہ جیل کی دیواریں بھی مطلوبہ معیار کے مطابق بلند او رمضبوط نہ تھیں۔ عملہ ناکافی تھا ، تربیت ناقص اور اسلحہ کمتر۔ ہفتہ واراور ماہانہ جائزوں کے ضابطے پر کبھی عمل نہ کیا گیا اور فائرنگ کی مشق کبھی نہ کی گئی ۔ کارِ سرکار میں سب سے اہم چیز امن وامان ہے اور واقعہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران طبقے کو قطعاً ادراک نہیں ۔ بحیثیت مجموعی پولیس برباد ہو چکی ۔ بھرتیاں سفارش پر ہوتی ہیں اور تقرر تعلقات پر۔ پنجاب کے نامزد گورنر چوہدری محمد سرور کے بیان پر ہنسی آـئی کہ وہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ترغیب دینے کی کوشش کریں گے ۔ زندگیاں اگر محفوظ نہ ہوں اور قومی سرمایہ مسلسل بیرونِ ملک فرار تو کون سی غیر ملکی سرمایہ کاری ؟ زرداری حکومت سے جان چھوٹی تو اصلاحِ احوال کی کچھ نہ کچھ امید ضرورتھی اور سچ پوچھیے تو کسی قدر اب بھی ہے ۔ میاں محمد نواز شریف یوسف رضا گیلانی ہیں اور نہ پرویز اشرف ۔کرپشن کے خاتمے کی توقع تو نہیں کہ اصلاً ان کی ترجیحات کاروباری ہیں مگر نظم ونسق میں کچھ بہتری ۔ تعجب تب ہوتاہے ، جب وہ بلٹ ٹرین ایسے خواب دکھاتے ہیں ۔ کوئی انہیں بتائے کہ حکومت کی اولین ذمہ د اری شہریوں کے لیے احساسِ تحفظ اور ٹیکس وصولی ہوتی ہے ۔ امن اور خزانہ ۔ تیس لاکھ ٹیکس نادہندگان کی فہرست ایف بی آر کے دفتر میں پڑی ہے اور وزیرِ خزانہ ارشاد کرتے ہیں کہ امسال مزید ایک لاکھ شہریوں سے ٹیکس وصول کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں ٹیکس وصولی کی شرح 16فیصد تھی ، گرتے گرتے جو اب ساڑھے آٹھ فیصد تک آپہنچی ہے ۔ ہر بحران میں مواقع چھپے ہوتے ہیں اور ہر چیلنج انسانی صلاحیت کو پکارتاہے۔ پیچ درپیچ بحران جلد از جلد ترجیحات کے تعین اور جزا و سزا کا موزوں نظام قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ عمران خاں سمیت، حکمران متذبذب ہیں اور اپنے تضادات کے اسیر ۔پہلی بار کل خوف نے آلیا کہ یہی حال رہا تو کچھ عرصے میں خدانخواستہ جمہوریت کی بساط پھر سے لپیٹ نہ دی جائے ۔ کارِ حکمرانی کے لیے حسنِ نیت درکار ہوتی ہے اور یکسوئی ۔ خدا کے بندو، حسنِ نیت اور یکسوئی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں