تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ریاست اپنے باغیوں پر رحم کی کبھی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ قرآنِ کریم بغاوت کو فساد قرار دیتااور کہتاہے کہ یہ قتل سے بڑا جرم ہے ۔ قاتلوں کے اندھے وکلا کی خدمت میں کیا عرض کیجئے؟ آزادی کے 83برس بعد 1859میں امریکہ عظیم خانہ جنگی سے دوچار ہوا جو 15 لاکھ زندگیاں چاٹ گئی۔ ابراہام لنکن نئی ریاست کے منتخب صدر، اس حال میں وہ چنے گئے کہ دو امیدواروں کے درمیان تنازعہ شدّت اختیار کر گیا تو ان پر مفاہمت کر لی گئی ۔ تب وہ پارٹی کے کنونشن سے سینکڑوں میل دور پڑے تھے ۔ قومیں جب تباہی کے خوف سے دوچار ہوں تو گاہے تبھی زندگی کاراز پاتی ہیں ۔ امریکیوں نے دریافت کیا کہ باہمی تصادم مکمل طور پر انہیں تباہ کر سکتاہے ۔ انسانی جبلتوں میں سے زندہ رہنے کی خواہش بہت ہی طاقتور ہے ۔ یہ جبلّت بروئے کار آئی اور بالآخر شمالی امریکہ کی افواج نے یہ جنگ جیت لی ۔ امریکی تاریخ کے اس عہد کا مطالعہ آشکار کرتاہے کہ جدید جمہوری معاشروں کی تشکیل میں منظم جمہوری جماعتوں کا کردار کس قدر بنیادی ہے ۔ یہ بھی کہ درمیانے طبقے سے ابھرنے والی باوفا قیادت ہی معاشروں کو نمو پذیر کرتی ہے ۔پھر یہ بھی کہ ملکوں کی حفاظت حکومتیں اور افواج نہیں بلکہ خود بیدار اقوام کیا کرتی ہیں… جو قومی اتفاقِ رائے اور رواروی کی اہمیت سے آشنا ہوں ۔ پاکستان ایک نامکمل ریاست کیوں ہے ؟ طالبِ علم دنیا کے اولین تحریری دستور میثاقِ مدینہ کے بارے میں سوچتا رہا۔ زیادہ سے زیادہ 5ہزار کا چھوٹا سا شہر لیکن سرکارؐ کو حکومت تشکیل دینے کی فکر لاحق تھی ۔ مشرکین ، یہودیوں اور مسلمانوں پر مشتمل آبادی ۔ میثاقِ مدینہ کا مطالعہ یہ گرہ کھول دیتا ہے کہ مملکت میں تمام لوگوں کے بنیادی حقوق یکساں ہوتے ہیں ، خواہ ان کے مذہبی عقائد باہم کتنے ہی متصادم ہوں ۔ پھر ایک حیرت انگیز سوال : یہود اور کفار نے ختم المرسلینؐ کو بیک وقت اپنا جج ، متفقہ حکمران اور سپہ سالار کیسے تسلیم کر لیا؟ ان کے طرزِ زندگی کو نمٹا دینے کے لیے تو وہ آئے تھے ۔اس لیے کہ ان کی بے مثال دیانت اور پیمان پر ہر حال میں وہ بھروسہ کرسکتے تھے ۔پھر یہ نکتہ بھی یاد آیا کہ بنی نوع انسان کے لیے تمام اخلاقی اصول مذاہب سے آئے ہیں اور یہ مشترک ہیں ۔صداقت شعاری، ایثار، وفا کیشی ، مفلس و محتاج کی نگہبانی ، ایفائے عہد ، ہولی ہوک سے لے کر برٹرینڈ رسل‘ کسی سیکولر مفکر نے کبھی کوئی اخلاقی اصول وضع نہیںکیا۔ ایک دوست نے گذشتہ روز یہ دلچسپ نکتہ اٹھایا تھا کہ کیا ہمارے خمیر (ڈی این اے) میں خرابی ہے ؟ عرض کیا: روسیوں کے خمیر میں کیاخرابی تھی کہ سٹالن نے پانچ کروڑ آدمی قتل کر ڈالے ۔ امریکیوں نے اتنے ہی ریڈ انڈین مار ڈالے ، گویا قاتلوں کی ایک پوری قوم ، جس پر عشروں تک پاگل پن سوارتھا۔ مائوزے تنگ نے افیون کے مارے ، نئے نظام اور ریاست سے متصادم ایک کروڑ چینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ آسٹریلیا میں اس کے قدیم سیاہ فام باشندوں کے ساتھ یہی کچھ ہوا۔ اب ان میں سے چند لاکھ ہی باقی ہیں اورآج تک نفسیاتی طور پر الجھے ہوئے ۔ پہلی اور دوسری عالمگیر جنگ میں یورپ کی مہذب اقوام نے ایک دوسرے کے چار سے چھ کروڑ شہریوں کو قتل کیا۔ انتقام کی آگ نے پورے کرّہ ارض کو لپیٹ میں لے لیا تھا۔ جرمنوں پر کیا بیتی تھی کہ انہوںنے ہٹلر ایسے پاگل شخص کو اپنا لیڈر چنا اور اہلِ روم نے مسولینی کو ۔ یہ ایک آدھ فرد اور ایک آدھ زمانے کی داستاں نہیں بلکہ پوری انسانی تاریخ ۔ افراد کی طرح اقوام بھی ذہنی امراض اور ہیجان کا شکار ہوتی ہیں ۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ایسا کیوں ہوتاہے ۔ تعصبات اور غلبے کی جبلّت کے علاوہ کون سے عوامل اس میں کارفرما ہوتے ہیں ۔ آخری نتیجے میں یہ ماحول ہے ، جو انسانوں کو بگاڑتاہے اور یہ تعلیم ہے ، جو انہیں فکری اعتدال اور صحت مندی کی طرف مائل کرتی ہے ۔ دانشوری کے نام پر آدمی خود پر جہل اور تعصب کو طاری نہ کرلے تو تاریخ کے ہر عہد میں اس کے لیے چراغ جلتے ہیں ۔ آدمی سے اللہ کی آخری کتاب کا سب سے بڑا مطالبہ یہ ہے کہ پیہم وہ غور و فکر کرتا رہے ۔ بے تعصبی سے مگر کتنے سوچنے والے ہیں ؟ ہم ایسے دانائوں کو دیکھتے ہیں، جو دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ بے کراں کائنات خود بخود وجود میں آگئی اور اس کا کوئی خالق نہیں ۔ پوری کائنات میں کروڑوں قوانین کی کارفرمائی ۔ ایک ایک زندہ وجود میں اربوں قسم کے توازن اور یہ محض اتفاق ہے ؟ تیس برس ہوتے ہیں ، نامور اشتراکی شاعر ظہیر کاشمیری مرحوم سے میں نے سوال کی جسارت کی کہ انکارِ خدا کے لیے ان کے دلائل کیا ہیں ؟ وہ ٹھٹھک گئے اور اپنا موقف بیان کیا ۔ وہ میرے مکرّم استاد تھے، میں ان سے اردو شاعری پڑھتا رہا ۔ مودبانہ اپنی معروضات پیش کیں ۔ دودن تک یہ مکالمہ جاری رہا۔ آخر گلوگیر ہو کر کہا: تم سچ کہتے ہو، میں بھٹک گیا اور میں نے اپنی زندگی گمراہ لوگوں میں بسر کی۔ ایک عالی ظرف عالم ہی ایسا کر سکتا تھا ۔ پھر کمال بشاشت سے چھوٹے سے پریس کلب میں یہ جملہ وہ دہراتے پھرے: اگر ریموٹ کنٹرول سے ٹی وی چلایا جا سکتاہے تو کیاخالق اپنی کائنات پہ نگراں نہیں ہو سکتا؟ قرآنِ کریم قرار دیتاہے : وہ بدترین جانور ہیں ، جو سوچتے نہیں ۔ غلامی اور تقلید کے مارے ہوئے ، ہم میں سے کتنے لوگ سوچ بچار پہ مائل ہوتے ہیں اور کتنے جذبات سے مغلوب؟ خدا کی زمین پر برصغیر کی اقوام سے زیادہ جذباتی اور قدامت پسند مخلوق شاید ہی کہیں آباد ہو ۔ مورخ ٹائن بی نے کہا: گزرے ہوئے دس ہزار برس کے قرینے سرزمینِ ہند میں ایک ساتھ برپا رہتے ہیں ۔ ایک صدی پہلے اقبالؔ نے کہا تھا: گراں خواب چینی جاگ اٹھے لیکن ہم اب بھی سوئے پڑے ہیں ۔ بار بار یہ ادنیٰ طالبِ علم سوا ل کرتاہے کہ دین اور سیاست، زندگی کے دو اہم ترین شعبے ہم نے جہلا کے سپرد کیوں کر رکھے ہیں؟ کیا یہ تعجب خیز نہیں کہ افسانہ طراز محمد حسین آزاد کی تحریریں تو بہت پڑھتے ہیں ، جو تاریخ اور داستان کے فرق سے بھی واقف نہیں ۔ ایک ہزار برس کی اہم ترین کتاب کشف المحجوب کا مطالعہ کرنے والے کتنے ہیں ؟ سوشلزم کے کتنے ماننے والوں نے داس کیپیٹال پڑھی ہوگی؟ کتنے مسلمان قرآنِ کریم میں دل لگاتے ہیں ؟ پاکستان کے مسائل ایسے بھی پیچیدہ نہیں کہ ہم انہیں سمجھ نہ سکیں۔ ریاست ایک عمرانی معاہدے پر استوار ہوتی ہے ، جسے آئین کہا جاتاہے ۔ آبادی کے تمام طبقات کی محافظ اور تمام باشندوں کے درمیان عدل کی ضمانت مہیا کرنے والی سرکار ۔ اعتزاز احسن نے سچ کہا تھا : ماں کی طرح ۔ یہ ضمانت آئین و قانون کی پیروی کے عزم اور قومی اداروں کی تشکیل سے بروئے کار آتی ہے ۔ صرف وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہی نہیں ، بلدیات ، افواج، پولیس ، عدلیہ اور ٹیکس جمع کرنے کا نظام۔ تجارت کی نگہبانی کرنے والے ادارے ۔ سپریم کورٹ ہر ٹی وی چینل پر چمکتی ہے ، نچلی عدالتیں کہاں ہیں ؟ پولیس میں بھرتی سفارش پر ہوتی ہے یا صلاحیت پر ؟ کیا صرف مجبور لوگ ہی پوراٹیکس ادا کرتے ہیں یا میاں محمد نواز شریف اورآصف علی زرداری بھی ؟ کیا میڈیا کے قہر مانوں پر قانون نافذ کیا جا سکتاہے ؟ اللہ کے آخری رسولؐ کے ارشاد پر غور کیجئے : وہ قومیں بربا دہو گئیں ، جو کمزوروں کو سزا دیتی اور طاقتوروں کو معاف کر دیا کرتی تھیں ۔ چھ ہزار برس پرانے حمورابی کے کتبے دریافت ہوئے تو ایک پر قصاص کا قانون تقریباً انہی الفاظ میں لکھا تھا، جو قرآنِ کریم میں درج ہے۔ ’’کان کے بدلے کان ، ناک کے بدلے ناک اور آنکھ کے بدلے آنکھ‘‘۔ قتل و غارت پر تلے لشکروں کا مسئلہ کیا ہے ؟ کوئی دلیل نہ ماننے کاتہیہ کر لے تو کیا علاج؟ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ریاست اپنے باغیوں پر رحم کی کبھی متحمل نہیں ہو سکتی وگرنہ وہ خود کو برباد کر لے گی ۔ قرآنِ کریم اسے فساد قرار دیتااور یہ کہتاہے : یہ قتل سے بڑا جرم ہے ، قتل سے بڑا۔ قاتلوں کے اندھے وکلا کی خدمت میں کیا عرض کیجئے؟