اللہ کے آخری رسولؐ کا ارشاد یہ ہے: ہند کے ساحلوں سے مجھے خوشبو آتی ہے۔ اہلِ علم متفق ہیں کہ وہ یہی پاکستان کے ساحل ہیں۔ کراچی میں کچھ پیش رفت ہو گئی اور کچھ مزید ہو سکتی ہے۔ غلطیاں ضرور سرزد ہوئی ہوں گی۔ شاید بعض بڑی غلطیاں بھی‘ مگر رینجرز نے اپنا فرض حسنِ نیت سے ادا کرنے کی کوشش کی۔ وفاقی حکومت اور عسکری قیادت کا اعتماد انہیں حاصل ہے اور صوبائی حکومت ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کر رہی۔ اس نے بلکہ مدد کا وعدہ بھی کیا ہے۔ یہ کہ پولیس کی قیادت میں تبدیلیاں ہوں گی۔ الطاف حسین نے کہا کہ یہ 1992ء ایسا اقدام ہے مگر دوسروں کو اصرار ہے کہ پیپلز امن کمیٹی کے زیادہ لوگ نشانہ بنے۔ 1992ء یہ بہرحال نہیں کہ تب ایک ہی پارٹی پر تشدد کا الزام تھا۔ اب سپریم کورٹ چار جماعتوں کو بھتہ خوری کا ذمہ دار قرار دے چکی۔ تین گروہ ان کے علاوہ بھی ہیں۔ طالبان‘ مذہبی فرقہ پرست اور القاعدہ؛ اگرچہ ان کا معاملہ مختلف ہے۔ رینجرز کی قیادت کو سب سے بڑا اندیشہ یہ ہے کہ پولیس کی تفتیش اکثر ادھوری ہوتی ہے اور قصوروار رہا ہو جاتے ہیں۔ نومبر 2012ء میں بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار سے عمران خان کے گھر پہ ایک طویل گفتگو سنی تھی۔ کس طرح غنڈہ گردی‘ کرپشن اور جرائم پیشہ گروہوں کا انہوں نے سدّباب کیا۔ حکومت سنبھالتے ہی صوبائی عدلیہ سے تین دن تک انہوں نے تبادلہ خیال کیا۔ یقینی بنایا کہ پولیس والے نہ صرف تفتیش ڈھنگ سے کریں بلکہ کوئی متعلقہ افسر عدالت میں پیش ہونے سے گریز نہ کرے‘ خواہ صوبے سے وہ جا چکا ہو۔ کرپٹ سیاستدانوں اور افسروں کی فہرستیں بنائی گئیں۔ اثاثوں کے ریکارڈ مرتب کیے گئے۔ مجرموں کو سزائیں ملنے لگیں۔ مقدمات کے فیصلے دو تین ماہ میں صادر ہو جاتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صوبے کا بجٹ چھ سال میں 4000 کروڑ روپے سے 28000 کروڑ روپے تک جا پہنچا‘ سات گنا۔ بھارت کے بعض علاقوں میں جنگ کی سی حالت ہے‘ 250 اضلاع میں۔ پورا کشمیر مضطرب ہے اور بعض دوسرے صوبے بھی مگر بہار اور گجرات ایسی چند ریاستوں کے طفیل اقتصادی بحالی ممکن ہو سکی۔ پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔ سب سے بڑے شہرمیں‘ سب سے زیادہ فساد۔ دہشت گردی بلوچستان اور پختون خوا میں بھی اسی شدت سے جاری ہے۔ بھارتی ہی نہیں‘ امریکی‘ برطانوی اور صیہونی بھی پاکستان کو کمزور اور محتاج بنائے رکھنے پر تلے ہیں۔ بلوچستان سے گرفتار کیے جانے والے غیر ملکی ایجنٹوں میں کچھ چھوٹے عرب ممالک کے کارندے بھی ہوتے ہیں۔ ہدف یہ ہے کہ گوادر کو عالمی سطح کا تجارتی مرکز نہ بننے دیا جائے۔ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 دیہی سندھ سمیت‘ ہر کہیں ایجنٹ پالتی ہے۔ ایک منصوبہ اس نے بنا رکھا ہے کہ اگر موقع ملے تو کراچی سے گوادر تک کا علاقہ پاکستان سے الگ کردیا جائے۔ پڑوسی مسلم ممالک میں بھارت نے 7 عدد قونصل خانے قائم کر رکھے ہیں۔ یہ ویزے جاری کرنے کے لیے ہرگز نہیں۔ پاکستانی سیاست اور صحافت میں مغرب کے ایجنٹ موجود ہیں۔ ریاست کمزور ہے؛ چنانچہ دشمن ممالک بے خوف۔ انسانی حقوق کے ایک ادارے کا سربراہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست مراسم رکھتا ہے۔ اسی ادارے کی ایک خاتون کی‘ سی آئی اے سے رہ و رسم ہے۔ اچھی این جی اوز بھی بہت ہیں مگر اکثر کا انحصار امریکہ اور یورپ کی امداد پہ ہے۔ یورپی اداروں کی اعانت بھی اصلاً امریکی ہے۔ انکل سام نے یہ ادارے دوسری عالمگیر جنگ کے بعد بنائے تھے۔ خاص طور پر ناروے اور ڈنمارک وغیرہ میں۔ اخبار نویسوں میں چند ایک ایسے ہیں جو کابل‘ دبئی‘ دہلی‘ لندن اور واشنگٹن میں نقد داد پاتے ہیں۔ را‘ سی آئی اے اور ایم آئی سکس کے علاوہ موساد اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیاں‘ طے شدہ منصوبوں کے تحت پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتی ہیں۔ پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیاں سیاست میں مداخلت کرتی رہیں؛ چنانچہ ملک اور عوام کے نقطۂ نظر سے ان کے احتساب کا جواز ہے مگر بہت سی ’’اطلاعات‘‘ جعلی ہوتی ہیں۔ انکل سام کے پیارے اخبار نویس ہی نہیں‘ میڈیا کے بعض ادارے بھی ملک کے خلاف مہمات میں شریک پائے گئے۔ چند ایک دانستہ‘ بہت سے نادانستہ۔ جب بھی ٹی وی سے فوج کے خلاف کوئی پروگرام نشر ہوتا ہے‘ فوراً ہی میزبان کو ستائشی پیغامات ملتے ہیں۔ ان میں چند ایسے میزبان بھی ہیں‘ جن کی حب الوطنی اور مالی دیانت پر شبہ نہیں کیا جاتا مگر بہادری کا تمغہ بھی تو ایک ترغیب ہے۔ 1992ء سے امریکہ پاکستانی صحافت کے بارے میں منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کی شب مارشل لاء نافذ ہوا۔ 14 اکتوبر کی صبح ا مریکی سفیر نے جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کر کے ان سے چار مطالبات کیے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ صحافت آزاد رہے گی۔ جنرل نے اسے مکمل آزادی عطا کردی۔ بہت سے نجی چینل وجود میں آئے۔ اچھے‘ برے‘ موثر‘ غیر موثر‘ پیشہ ورانہ مہارت سے مالا مال یا محدود وسائل اور ناتجربہ کار صحافیوں کی مختصر ٹیموں کے ساتھ بروئے کار۔ امریکیوں کو مگر اعتماد تھا کہ وہ ا ثر انداز ہو سکیں گے۔ بعض بڑے اداروں اور اخبارات پر انہوں نے خاص طور سے توجہ دی۔ ایک اخبار کے سربراہ سے عرض کیا تھا: فوج پر پاکستانی عوام کے نقطۂ نظر سے تنقید ہو تو یہ قابل فہم ہے مگر بھارت اور امریکی مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیونکر ایسا ہوتا ہے؟ اخبار میں نیوز ایڈیٹر‘ چیف نیوز ایڈیٹر اور ایڈیٹر‘ ٹی وی ڈائریکٹر پروگرامرز اور ڈائریکٹر نیوز کے منصب اس لیے ہوتے ہیں کہ سازش ہی نہیں‘ غیر ذمہ داری سے بچنے کی بھی کوشش کی جائے۔ میڈیا پہ مگر ہیجان سوار ہے۔ وہ سنسنی پسند ہے اور گاہے مقبولیت کی دوڑ میں پاگل پن کا شکار ہو جاتا ہے۔ مشکوک لوگوں میں سے کچھ نے حکومت اور طاقتور جماعتوں سے گہرے مراسم استوار کر رکھے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کم از کم 99.99 فیصد صحافی محب وطن ہیں مگر وہ سب کے سب صاحب ادراک تو نہیں۔ ہر چیز کے پیچھے سازش نہیں ہوتی لیکن غیر یقینی ماحول میں‘ کنفیوژن پھیلانا اور لوگوں کو برتنا آسان ہو جاتا ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ حالات کبھی درست نہ ہوں گے؟ جی نہیں بالکل ہو سکتے ہیں اور پوری طرح۔ طاقت سچائی کی ہوتی ہے‘ جھوٹ کی نہیں۔ اخلاقی جرأت اور شعور کی دولت عام کی جائے۔ عوامی احساس کی سطح پہلے سے بلند ہے۔ خواہ کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو‘ خوف زدہ ہونے سے اگر انکار کردیا جائے۔ اگر تحمل اور حکمت سے کام لیا جائے تو جرم کا صفایا ممکن ہے اور بالآخر حتمی طور پر۔ جیسا کہ امام غزالیؒ نے کہا تھا: اصول یہ ہے کہ بڑے سے بڑے قصوروار پر بھی غلط الزام نہ لگایا جائے وگرنہ وہ اس الزام کو نادرست ثابت کر کے خود کو اُجلا قرار دینے کی کوشش کرے گا۔ پاکستان وسطی ایشیا کا دروازہ ہے۔ مغربی ایشیا اور جنوب مغربی ایشیا سے پیوستہ۔ جغرافیائی اعتبار سے پاکستان غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ معدنی دولت اور انسانی صلاحیت سے مالا مال۔ وہ ایٹمی طاقت ہے۔ معیشت کی بحالی اور سمت کے تعین سے وہ بہت بڑی قوت بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فطری طور پر اس کے خلاف سازشیں بھی زیادہ ہوں گی‘ خاص طور پر وہ ممالک ایسا کرتے رہیں گے جو اس سے خوف زدہ ہیں۔ ڈرنے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔ اللہ نے اپنی کائنات شیطان کے حوالے نہیں کردی۔ فیصلے اسی کی بارگاہ میں صادر ہوتے ہیں اور انسانوں پر ان کی استعداد سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ 27 رمضان المبارک کو وجود میں آنے والا 20 کروڑ انسانوں کا یہ ملک‘ اس لیے نہیں بنا کہ برباد ہو کر تماشا بن جائے۔ اسے باقی و برقرار ہی نہیں رہنا‘ ایک تاریخ ساز کردار بھی ادا کرنا ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا ارشاد یہ ہے: ہند کے ساحلوں سے مجھے خوشبو آتی ہے۔ اہلِ علم متفق ہیں کہ وہ یہی پاکستان کے ساحل ہیں۔ پس تحریر:کالم لکھا جا چکا تو خبر آئی کہ حکومت سندھ نے پولیس میں بڑے پیمانے پر تقرر اور تبادلوں کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔چار ایڈیشنل آئی جی اور چودہ ڈی آئی جی اِدھر سے اُدھر ہوں گے۔ظاہر ہے کہ نچلی سطح پر بھی اب تبدیلیاں آئیں گی۔ کیا وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں آہنگ بڑھے گا ؟ اگر ایسا ہے تو خوشخبری کی امید کی جاسکتی ہے۔