کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ 27 رمضان المبارک کو وجود پانے والی سرزمین عدل کے نور سے جگمگا اُٹھے؟ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ پاکستان کے فرزند لیڈروں کا قلاوہ اپنی گردنوں سے اتار پھینکیں؟ کب یہ راز ان پر کھلے گا کہ ملکوں کی حفاظت لیڈر نہیں کیا کرتے بلکہ زندہ قوم۔ جیتے جاگتے لوگ۔ کب اقبال انہیں یاد آئے گا ؎ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ فیصل آباد کے گھنٹہ گھر اور اس سے جڑے آٹھ بازاروں سمیت‘ شہر کے مرکز نے نون لیگ کو مسترد کردیا۔ تاجر برادری کے اس حلقے میں جہاں 23 برس سے یہ پارٹی جیتتی آئی تھی‘ تحریک انصاف کے خرم شہزاد نے لیگی لیڈر کو چاروں شانے چت کردیا۔ یہی کچھ اسلام آباد میں ہوا اور اگر بڑے پیمانے کی دھاندلی نہ ہو تو اس ناچیز کی رائے میں ملتا جلتا نتیجہ ہی بلدیاتی الیکشن کا ہوگا۔ کیا یہی سبب نہیں کہ تین صوبے تو جماعتی بنیادوں پر شہری الیکشن کرانے والے ہیں مگر ملک کے مقبول ترین وزیراعلیٰ نے غیر جماعتی انتخاب کا فیصلہ کیا۔ 11 مئی کے الیکشن ہو چکے تو ڈھول پیٹنے والوں نے بھاری مینڈیٹ کا مصرعہ اٹھایا اور کورس میں گانے لگے۔ کون سا بھاری مینڈیٹ؟ سابق سینیٹر طارق چوہدری کے مشورے پر‘ جب وہ بستر علالت پر پڑے لیڈر سے ملنے گئے‘ عمران خان نے قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشان جانچنے کا مطالبہ کیا۔ بازارِ سیاست کے جادوگر چوہدری نثار علی خان نے جوابی تقریر میں سحر انگیز عمران کی تقریر کا سارا تاثر دھو ڈالا۔ کہا کہ چار کیا‘ ہم چالیس سیٹوں کا ایکسرے کرا دیں گے۔ اس پیمان کا کیا ہوا؟ ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے‘ اگر اعتبار ہوتا چالیس سیٹوں کے نتائج کبھی نہ کھنگالے جائیں گے۔ کسوٹی لگا دی گئی تو نتیجہ معلوم۔ مقبولیت کا بھانڈا پھوٹ جائے گا اور سربازار پھوٹے گا۔ عمران خان اور ان کے کارکن بھنگڑا ڈالیں گے۔ فارسی کے شاعر کو یاد کریں گے ؎ منم عثمانِ ہارونی کہ یارے شیخِ منصورم ملامت می کند خلقے سرِ بازار می رقصم (میں عثمانِ ہارونی ہوں‘ منصور کا ہم نفس۔ خلقِ خدا کیسی ہی ملامت کرے‘ سرِبازار میں رقص کرتا ہوں۔) اسی غزل کا دوسرا شعر یہ ہے ؎ اگرچہ قطرۂ شبنم نہ پوید بر سرِ خارے منم آں قطرۂ شبنم بہ نوکِ خار می رقصم (اگرچہ شبنم کا قطرہ نوکِ خار پہ ٹھہرتا نہیں۔ میں شبنم کا وہ قطرہ ہوں کہ نوکِ خار پہ رقص کرتا ہوں)۔ شاعر خیال و خواب ہی میں جو کچھ کرتے ہیں‘ نون لیگ‘ ایم کیو ایم اور دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی نے وہ عملاً کر دکھایا۔ کراچی کے دو حلقوں کے نتائج آ چکے۔ عدالت عالیہ کے حکم پر انگوٹھوں کے نشان جانچے گئے تو معلوم ہوا کہ ایک میں 92 فیصد اور دوسرے میں 93 فیصد ووٹ جعلی تھے۔ لاہور میں خواجہ سعد رفیق اور عمران خان کے حلقوں کا جائزہ لیا جائے تو نتیجہ کیا ہوگا؟ ایاز صادق کا کیا ہوگا‘ جو سنجیدہ سی صورت بنا کر سچ مچ کے سپیکر لگتے ہیں؟ یہ تو ایکسرے کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ آفتاب آمد و لیل آفتاب۔ اگر نون لیگ یہ فرمائے کہ الیکشن میں ہرگز دھاندلی نہ ہوئی۔ اگر الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کا یہ بیان تاریخ کی لوح اور اجتماعی حافظے سے کھرچا جا سکے کہ وہ کراچی میں انتخاب نہ کرا سکے۔ اگر اس شہر کے لاکھوں ووٹروں اور ان ٹی وی کیمروں کی گواہی مسترد کردی جائے‘ جن کی تصاویر دکھانے والی‘ ہماری بہن جاسمین منظور اب زیر زمیں ہے تو پھر کیا یہ کہا جائے کہ ساڑھے تین ماہ ہی میں نون لیگ کو قوم نے مسترد کردیا۔ پھر پلڈاٹ اور گیلپ کے اس سروے کو کہاں لے جائیں‘ جس کے مطابق 62 فیصد لوگ‘ شریف حکومت سے مکمل طور پر مطمئن ہیں۔ جاسمین منظور کے ذکر سے رضا شاہ پہلوی کے دور کا ایرانی شاعر یاد آیا‘ جس نے کہا تھا۔ ’’میں زیر زمین ہوں اور زیر زمین ہی رہوں گا‘فقط میری آگ روئے خاک پر ظاہر ہوگی‘‘۔ ایران میں تو یہ ساواک تھی جو مولی‘ گاجر کی طرح انسانوں کو کاٹ پھینکتی تھی۔ دن بھر دعائیں پڑھنے والی جاسمین منظور کس سے خوف زدہ ہیں؟ وزیراعظم نواز شریف کے کان میں کچھ انہوں نے کہا تو تھا۔ اخبار نویس کہتے ہیں کہ میاں صاحب محترم نے اس پر ان سے ارشاد کیا: میں آپ کے لیے دعا کروں گا۔ آج کل سب مصروفِ دعا ہیں۔ پچھلے تین چار ایام میں لاکھوں لوگوں کو ایک پیغام ملا ’’شیر کی سو دن کی حکومت‘ گیدڑ کی پانچ سالہ حکومت سے اچھی ہوتی ہے‘‘۔ طالب علم نے حفیظ جالندھری کو یاد کیا۔ بڑھتے بڑھتے حد سے اپنی بڑھ چلا دست ہوس گھٹتے گھٹتے ایک دن دستِ دعا رہ جائے گا فیصل آباد کی نشست خواجہ اسلام کے خلاف ہائی کورٹ کے فیصلے سے خالی ہوئی تھی۔ کمال انہوں نے یہ دکھایا تھا کہ فیصل آباد بورڈ قائم ہونے سے ایک سال پہلے ہی‘ ایف اے کی ڈگری حاصل کر لی۔ معتبر وہ بہت ہیں۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا عدالت بھی ان کا احترام کرتی ہے۔ الیکشن 2008ء کے فوراً بعد شکایت داخل کروائی گئی۔ معزز جج صاحبان مگر فیصلہ صادر کرنے کے باوجود چار سال تک متامل رہے۔ حتیٰ کہ شریف خاندان کو بھی ان کی صداقت کا یقین تھا‘ جس طرح کہ عمران خان کو عائلہ ملک کی معصومیت کا۔ 2013ء میں خواجہ اسلام کو پھر سے ٹکٹ دیا گیا اور بھاری اکثریت سے وہ جیت گئے۔ پھر یہ ہوا کہ جس طرح عمران کے بقول صرف تکنیکی غلطی پر محترمہ کی ڈگری ناقص قرار دی گئی‘ اسی طرح خواجہ اسلام کی سند بھی جعلی قرار پائی۔ آپس کی بات یہ ہے کہ گجر خاں میں نون لیگ کے تھانیدار شوکت بھٹی کا معاملہ بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ ہمارے لگنے سے مگر کیا ہوتا ہے۔ فیصلہ وہی جو عدالت کرے۔ پیا جسے چاہے وہی سہاگن۔ وہ دوسرے ہیں‘ جو یہ کہتے ہیں: پنچوں کا حکم سر آنکھوں پر مگر پرنالہ وہیں رہے گا۔ بس چلا تو حنیف عباسی کو ایک بار پھر ٹکٹ دیا جائے گا کہ وہ دودھ کے دُھلے ہیں۔ تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں یہاں شیخ سے مراد شیخ رشید ہیں۔ کل انہوں نے کہا کہ عمران خان کے پاس جائوں گا اور احتجاجی تحریک کا مشورہ دوں گا۔ کپتان کو مشورہ دینا اس نیاز مند نے تو چھوڑ دیا۔ وہی زمانہ اگر ہوتا تو عرض کرتا کہ حضور‘ ہوشیار۔ احتجاجی تحریک کا وقت ابھی نہیں آیا۔ یہ وہی صاحب ہیں‘ جن کے جلسے میں جانے سے پوٹھوہار میں تحریک انصاف کے زوال کا آغاز ہوا تھا۔ معلوم نہیں‘ 30 اکتوبر 2011ء کے جلسۂ عام کے بعد خان صاحب پہ کیا بیتی کہ چُن چُن کر شیخ رشیدوں کو ٹکٹ دیئے۔ شیخ صاحب تو خیر کاریگر ہیں۔ ایسے ایسوں کو خان صاحب نے نواز دیا کہ خدا کی پناہ۔ ایک جنرل کیانی ہیں۔ ایک جسٹس کیانی‘ جنہوں نے ارشاد کیا تھا کہ الیکشن کمیشن پر تنقید کرنے والوں کو شرم سے ڈوب مر جانا چاہیے۔ ایک کیانی تحریک انصاف میں بھی پائے جاتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے ایک امیدوار سے انہوں نے ایک کروڑ تیس لاکھ روپے کا ہدیہ طلب کیا تھا۔ ایک آدھ نہیں‘ اس پارٹی میں درجنوں کیانی ہیں۔ سب کے کارنامے سبھی کو معلوم۔ ایک خان صاحب ہی بے خبر ؎ پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے جہاں کہیں خان صاحب سے غلطی ہوئی اور ڈھنگ کے کسی امیدوار کو ٹکٹ دیا‘ وہ جیت گیا۔ اب فیصل آباد میں بھی یہی ہوا۔ خرم شہزاد بظاہر ایک عام سے کاروباری ہیں مگر دھن کے پکے۔ پنجابی میں کہتے ہیں ’’پورے دنوں کا پوت‘‘۔ تحریک انصاف کے کارکن یکسو ہوئے تو گھروں سے نکل پڑے اور جان کھپا دی۔ اس پر میاں زاہد سرفراز کی حمایت اور میجر نادر پرویز ایسے کھرے اور بے باک آدمی کی قیادت۔ ع یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے تفنن برطرف لاہور کو علیم خان‘ پوٹھوہار اور سرحد کو سیف اللہ نیازی اور پنجاب کو اعجاز چوہدری کے سپرد نہ کردیا ہوتا تو مبینہ دھاندلی کے باوجود بہت سی جگہوں پر فیصل آباد ایسے ہی نتائج برآمد ہوتے۔ تحریک انصاف کے سچے کارکن گھروں میں بیٹھے گریہ کرتے رہے۔ دادِ شجاعت کے لیے وہ بے تاب تھے مگر ان کی تلواریں نیاموں میں روتی رہیں۔ دیواروں سے وہ سر ٹکراتے رہے۔ میرا دکھ یہ ہے کہ اپنے ساتھیوں جیسا نہیں میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں وہ یہ بھی نہ کہہ سکے کہ شکست کھائی ہے لیکن بڑے وقار کے ساتھ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ 27 رمضان المبارک کو وجود پانے والی سرزمین عدل کے نور سے جگمگا اُٹھے‘ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ پاکستان کے فرزند لیڈروں کا قلاوہ اپنی گردنوں سے اتار پھینکیں؟ کب یہ راز ان پر کھلے گا کہ ملکوں کی حفاظت لیڈر نہیں کیا کرتے بلکہ زندہ قوم۔ جیتے جاگتے لوگ۔ کب اقبال انہیں یاد آئے گا ؎ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ پسِ تحریر: اپنے دوست کی موت پر مولانا ظفر علی خان ٹوٹ ٹوٹ کر روتے تھے۔ صبر کی تلقین کی تو کہا: اللہ نے رونا کس دن کے لیے عطا کیا ہے۔ ملک کو انصاف عطا کرنے پر تلے ہوئے چیف جسٹس جناب افتخار محمد چودھری کی خدمت میں التماس ہے کہ دستور نے ازحد نوٹس کا اختیار انہیں کس دن کے لیے بخشا ہے؟ اگر کراچی کے دو حلقوں میں 90 فیصد سے زیادہ ووٹ جعلی ہیں تو کیا تب بھی وہ نظرِ کرم نہ فرمائیں گے؟