"HRC" (space) message & send to 7575

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

رہی وہ کرم نوازی جو پروگرام کی ریٹنگ کے لیے فرمائی گئی تو اور کون بچا تھا کہ میں بچتا۔ ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں کوئی دن ایسا بھی ہوتاہے کہ لکھنے کو جی چاہتاہے اور نہ بات کرنے کو ، خاص طور پر ٹیلی ویژن پر۔ فارسی کے شاعر کے بقول فراغتے و کتابے و گوشہء چمنے۔ کل ایسا ہی دن تھا۔ گوجر خان کا ارادہ تھا کہ وہی سب سے اچھی جائے پناہ ہے مگر شام ہوئی تو دوستوں نے کانٹوں میں گھسیٹ لیا اور جی بھر کے گھسیٹا۔ دل اس پر دکھا ہے ۔ اپنے لیے کم اور اس مردِ نجیب کے لیے زیادہ ، اختیا ر اور اقتدار کے باوجود جس نے صبر کیا اور جو اس جرم میں طعن و طنز کا ہدف رہتا ہے… جنرل اشفاق پرویز کیانی ! مغربی اخبارات ، خاص طور پر واشنگٹن اور نیو یارک سے شائع ہونے والے اخبار ہم پاکستانیوں کے لیے بائبل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان پر کوئی خبر ان میں چھپ جائے تو اس دن سورج ، چاند اور ستارے بھی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں ۔ صرف وہ اخبار، صرف وہ خبر اور صرف وہ اخبار نویس مطلع پر چمکتا ہے اور چمکتا رہتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی کہ ڈرون حملے پاکستانی حکمرانوں کی مرضی سے ہوتے رہے ۔ اس میں خبر کیا تھی ؟ سب جانتے تھے کہ ایسا ہی ہوا تھا۔ سی این این کے ساتھ ایک انٹر ویو میں جنرل پرویز مشرف نے اعتراف کیا تھا۔ عقلِ عام (Common Sense)بھی یہی کہتی تھی۔ وکی لیکس کی گواہی بھی موجود تھی۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اسلام آباد میں امریکی سفیر این ڈبلیو پیٹر سن سے کہا تھا کہ آپ حملے کرتے رہیے، دکھاوے کو ہم احتجاج کرتے رہیں گے ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کا ذکر بھی تھا۔ وکی لیکس کے مطابق امریکی سفیر سے انہوںنے کہا تھا کہ وہ جناب اسفند یار ولی یا صدر زرداری کی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور کو صدر بنانے کے آرزومند تھے ۔ اس پر ایک بہت ہی سخت کالم میں نے لکھا : جنرل کیانی ، آپ بھی ؟ یہ سرما کی ایک اجاڑ دینے والی شب تھی، جب پیغام ملا کہ کیا تم چیف آف آرمی سٹاف سے ملنے آسکتے ہو؟ عرض کیا: کچھ دیر بعد۔ ’’کیا مصروف زیادہ ہو؟‘‘ گزارش کی : جی نہیں ، شہر سے دور! راستے ویران تھے ؛چنانچہ کچھ زیادہ دیر نہ لگی ۔ میں پہنچا تو ملاقات کے وسیع و عریض کمرے میں سناٹا تھا۔ میرے خیال میں کوئی جرم مجھ سے سرزد نہ ہوا تھا کہ پریشان ہوتا ۔ جیب سے سگریٹ نکالااور سلگانے لگا تو کہا گیا کہ کم از کم سوپ کا ایک پیالہ پی لو ۔ جی آمادہ نہ تھا۔ پوچھا : کیا گھر میں کچھ مٹھائی رکھی ہے ؟ وہ حیران کہ شیرینی کا یہ کون سامحل ہے ۔ خیر، ضبط کے اس پیکر نے کہا کہ تھوڑی سی برفی رکھی ہے ۔ کھالی اور گفتگو کا آغاز ہوا۔ وہ رنجیدہ تھے اور بہت رنجیدہ ۔ چہرے پر لکھا تھا: شبلی کا پھول نہیں ، یہ اس سے بہت زیادہ ہے ۔ بھلے آدمی ، میری بات سنی ہوتی ، کچھ غور کیا ہوتا۔ آدمی کی فطرت یہ ہے کہ خود کو وہ جائز ثابت کرنے پر تلا رہتاہے ۔ بات شروع ہوئی تو میں نے جسارت کی ۔ جنرل صاحب! آپ نے سنا ہوگا ’’قلم گوید کہ من شاہِ جہانمـ‘‘ وکی لیکس میں دوسروں کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے ، اس پر میں اعتبار کروں اور آپ کے بارے میں کیا نہ کروں؟ کہا: میری بات نہ مانیے مگر سن تو لیجیے۔ کیا اس ٹیلی گرام کا متن آپ نے پڑھا ہے ، جس سے نتائج اخذ کیے؟ میں نے کہا : سبھی اخبارات میں ایک ہی خبر تھی ، اعتبار کرنے کے سوا چارہ کیا تھا۔ اخبار نویس کو ایسے میں تحقیق کی نہیں سوجھتی اور وقت ہوتا کہاں ہے تحقیق کا۔ انہوںنے متن پڑھا اور اس کے تضادات پر دلائل دئیے۔ سفیر صاحبہ فرماتی ہیں کہ اسفند یار کو میں صدر بنانا چاہتا تھا۔ خود اسفند یار ولی خان صاحب سے پوچھ لیجیے کہ کس نے انہیں پیشکش کی تھی ۔ میں نے یا جناب صدر (آصف علی زرداری ) نے؟ رہیں محترمہ فریال تالپور تو کیا میرا دماغ خراب ہے کہ ایسی (احمقانہ ) تجویز پر غور کرتا ، اس کا اظہار کرتا؟ ٹیلی گرام میں لکھا ہے : جنرل نے کہا : مداخلت میں نہیں کرنا چاہتا ۔ اگر مداخلت نہیں کرنا چاہتا تو اپنی مرضی کا صدر کیسے بناتا؟ دو دن تک میں سوچتا رہا۔ بات واضح ہے ۔ ایک غلط بات اس آدمی سے منسوب کی گئی ، بتدریج جو فوج کو سیاست سے دور لے جانے کا آرزومند ہے ۔ وضاحت تو کرنی چاہیے اور اس لیے بھی کرنی چاہیے کہ میں نے انہیں موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔ کالم لکھا اور وضاحت کر دی مگر خود جنرل کی زبان سے ۔ اگر میں اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کر سکتا تو یہ کہتا کہ یکسر غلط نتائج میں نے اخذ کیے تھے ۔ مجھے اعتراف کرنا چاہیے کہ میں ایسا نہ کر سکا۔ ان کا موقف لکھ دیا اور یہ بھی لکھا کہ پاکستان آرمی کے سربراہ کو امریکی سفیر سے اس موضوع پر بات ہی نہ کرنی چاہیے تھی۔ بہت دن میں غورو فکر کرتا رہا کہ مغالطہ پیدا کیوں ہوا؟ امریکی سفیر نے وہ تاثر کیسے قبول کیا ، جس کی بنیاد ہی نہ تھی ۔ جنرل صاحب سے بعدمیں ہونے والی ملاقاتوں میں بتدریج یہ عقدہ کھلا ۔ بات کرتے کرتے ، گاہے ان کی آواز مدھم ہو جاتی ہے… سوچنے والا ایک آدمی ! پیہم غور و فکر کرنے و الا ۔ کبھی تو اتنی مدھم کہ سمجھ میں آتی ہی نہیں ۔ یہ بہرحال واضح تھا اور آنے والے برسوں میں پوری طرح آشکار ہو گیا کہ ان کا موقف درست تھا، پوری طرح درست۔ مجلس آرائیوںکے شہر لاہور کے دو منفرد کرداروں جناب مجیب الرحمن شامی اور ان کے بے تکلف دوست شعیب بن عزیز میں نوک جھونک رہتی ہے ۔ ایک بار شامی صاحب نے شعیب صاحب کے ایک بزرگ کی کسی بات پر سوال اٹھایا تو وہ تنک کر بولے : شریف آدمی کہیں بھی ہو ، آپ کو کھلتا بہت ہے ۔ پاکستانی معاشرت کا المیہ بھی یہی ہے ، صحافت بھی جس کا ایک حصہ ہے ،چیختا ہوا حصّہ۔ صابر آدمی کو ہم کبھی معاف نہیں کرتے ۔ امریکہ کے حوالے سے اس قدر دشنام سید ابو الاعلیٰ مودودی کے حصے میں آئی کہ خدا کی پناہ۔ سب جھوٹ ، سفید جھوٹ۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شیخ رشید نواب زادہ نصراللہ مرحوم کے بارے میں ایسی زبان اور ایسا لہجہ روا رکھتے کہ حیرت ہوتی ، شرم آتی مگر ان کی پارٹی کو نہیں ۔ انہیں تو ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں ۔ طاقتور پاکستان آرمی کا طاقتور سربراہ ہونے کے باوجود جنرل کیانی کے بارے میں بے تکی اور بے ذوقی پر مبنی بے باکی کا سبب یہ ہے کہ وہ ایک شریف آدمی ہیں ۔ ڈرون حملوں کی اجازت جس نے بھی دی ، وہ قصوروار ہے۔ اگر اس میں جنرل کیانی کا بھی کچھ حصہ ہے تو وہ بھی مگر گریبان فقط انہی کا پکڑا جائے گا کہ کوئی اندیشہ ان سے نہیں۔ مزید یہ کہ اس میں دادِ شجاعت بھی بہت ملتی ہے ۔ ڈرون حملوں کا ایک اور سفاک مجرم بھی موجود ہے۔ وہ ایک کالم نگار ہے اور اس کا نام ہارون الرشید ہے ۔ دلیل کیا ہے ؟ یہ کہ بعض اوقات وہ جنرل کیانی کا دفاع کرنے کا مرتکب ہوا۔ بعض اوقات یہ سوال اس نے اٹھایا کہ فوجی قیادت پر پاکستانی عوام کے نقطہ ء نظر سے تنقید ہو سکتی ہے مگر ’’را‘‘ اور سی آئی اے کے نقطہ ء نظر سے کیوں؟ پروگرام میں اچانک مجھے گھسیٹ لیا گیا۔ وہ حصّہ میں نے دیکھا ہی نہ تھا، جس میں اس ناکردہ کار کا ذکر تھا ۔ آواز پوری طرح سنائی نہ دے رہی تھی اور طبیعت یکسو نہ تھی ۔ شب دوسری بار دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ ارشاد یہ تھا کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے ڈرون حملوں کی اجازت دی اور پھر اخبار نویسوں کو اکسایا کہ اس کے خلاف لکھیں ۔ انہی نے اکسایا ، انہی نے ، صرف انہی نے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ وہ فریب کار ہیں اور ان کی بات ماننے والے کرایے کے کارندے۔ یہاں تک ارشاد ہوا کہ سول حکومت کو وہ برداشت کرتے ہی نہیں ۔ مجبوری ہوتوکچھ دن کے لیے جمہوریت گوارا کرتے ہیں ۔ کیا واقعہ یہی ہے ؟ عسکری قیادت بھی ذمہ دارہے مگر کیا فقط عسکری قیادت؟ ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں مگر اخبار اور ٹیلی ویژن میں ایک اصول ہے ۔ سچ بولو لیکن وہ سچ جس پر داد زیادہ ملے ۔ یہ ایک بحث ہے اور لمبی بحث کہ خرابی کا ذمہ دار کون ہے یا یہ کہ کون کون ہے ؟ آئیے برادرم رئوف کلاسرا صاحب اس کا آغاز کریں ۔ دلیل کے ساتھ ، ترتیب کے ساتھ ۔ رہی وہ کرم نوازی جو پروگرام کی ریٹنگ کے لیے فرمائی گئی تو اور کون بچا تھا کہ میں بچتا۔ ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں