"HRC" (space) message & send to 7575

الجھا ہوا ذہن

خود فریبی سے میاں محمد نواز شریف باہر نکلیں اور پورا سچ قوم کو بتادیں۔ وہ کیوں ان کا ساتھ نہ دے گی ؟ آخر کیوں ؟ ہمارے سامنے متبادل کیا ہے ؟ مسترد اور منسوخ آصف علی زرداری ؟ جناب عمران خان؟ جن کی دیانت میں کوئی شبہ نہیں مگر ان کے بہت سے ساتھیوں کی بددیانتی میں بھی ہرگز نہیں ۔ اولین تاثر یہ تھا کہ وزیر اعظم نوازشریف کی تمام تر توجہ ڈرون حملے رکوانے پر مرکوز ہے ۔ یہ خیال بھی دامن گیر تھا کہ ہمہ جہتی بحران میں ، جس کے پیچیدہ عوامل ہماری تاریخ میں بکھرے پڑے ہیں ، پاکستان کی پوزیشن کچھ ایسی مضبوط نہیں ۔ اسی لیے عرض یہ کیا تھا کہ ہم اخبار نویسوں کو زیادہ سخت روّیہ اختیار نہ کرنا چاہیے۔ اب یہ آشکار ہے کہ پوری تیاری کے بغیر وزیر اعظم امریکہ گئے اور خالی ہاتھ لوٹے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ واشنگٹن پہنچنے کی ایسی بے تابی کیا تھی ؟ جیسا کہ وزیراعظم نے خود کہا، مسائل دراصل داخلی ہیں ۔ دہشت گردی ہے ، بجلی کا بحران اور سب سے زیادہ یہ کہ معاشی حالات دگرگوں ۔ الیکشن میں دھاندلی کا سوال ہے ۔ سپریم کورٹ کو اصرار ہے کہ جلد از جلد بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں؛ چنانچہ دھاندلی کا سوال اور بھی زیادہ شدت سے اٹھے گا۔ دوٹوک الفاظ میں میاں محمد نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہر چیز کی تیاری کر چکے۔ زمامِ کار سنبھالتے ہی اصلاحِ احوال کا آغاز کردیں گے۔ تین ماہ تک قوم سے خطاب نہ کر سکے ۔کنفیوژن کا وہ شکار تھے اور بہت بری طرح۔ بالآخر ٹی وی پر نمودار ہوئے تو یہ کہا : آپ کی تجاویز اور مشوروں کا انتظاررہے گا ۔ انتظار رہے گا؟ مان لیا اور معاف کر دینا چاہیے کہ اندازہ نہ ہو سکا۔ کہا یہ جاتاہے کہ انتخابی مہم شاعری میں ہوتی ہے اور حکمرانی نثر میں ۔ مبالغہ آرائی ہوا کرتی ہے ۔ پاکستان اور بھارت ایسے ممالک میں تو بہت زیادہ ۔ کس نے مگر روکا تھا کہ سریر آرائے سلطنت ہونے کے بعد بھی حقیقت پسندی اختیار نہ کی جاتی ؟ ذہن جہاں واضح تھا، وہاں نتیجہ نکل رہا ہے ۔ کراچی کی سنگینی کا انہوںنے ادراک کیا اور بنیادی طور پر ایک درست لائحہ عمل اختیار کیا۔ دوسرے تو کیا، الطاف حسین نے بھی کراچی کی کارروائی کودرست ماناہے۔ اختلاف صرف یہ ہے کہ کچھ بے گناہ بھی پکڑے گئے ۔ آغازِ کار کے لیے میاں صاحب کو نسبتاً موزوں حالات ملے۔ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے سے پہلے ہی جنرل اشفاق پرویز کیانی لاہور جا کر ان سے ملے اور تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔ الیکشن اگر منصفانہ ہوتے تو نون لیگ قومی اسمبلی کی زیادہ سے زیادہ 90سیٹیں جیت سکتی۔ جہاں کہیں انگوٹھوں کے نشان جانچے گئے، 90فیصد تک جعلی ووٹ پائے گئے ۔زیادہ تر عمران خان کی سیٹیں ہتھیا ئی گئیں اور ظاہرہے کہ قاف لیگ کی بھی ۔ ہیرا پھیری کے باوجود اکثریت نون لیگ کو مل نہ سکی ۔ جس بھاری مینڈیٹ کا شور برپا ہوا ، وہ آزاد امیدواروں کا مرہونِ منت ہے ۔ پیپلز پارٹی منہ کے بل ڈھے پڑی ۔عمران خان ہنگامہ اٹھاتے مگر انہوںنے نتائج تسلیم کر لیے ۔ اسے ان کی کمزوری سمجھا گیا۔ میاں صاحب واشنگٹن کے لیے بے تاب کیوں تھے ؟ کیا یہ تاثر دینے کے لیے کہ امریکہ ان کی پشت پناہی فرمائے گا؟ یہ ہر پاکستانی حکمران کی کمزوری رہی ۔ سامنے کی اس حقیقت کو بھلا دیا جاتاہے کہ کسی حکمران کی قوت اس کی عوامی مقبولیت پہ منحصر ہوتی ہے ۔ ظاہرہے کہ عوامی مقبولیت کا انحصار کارکردگی پہ ہوتاہے ۔ حکمرانی کیا ہے ؟امن و امان ، نظامِ انصاف اور ٹیکس وصولی ۔ خارجہ پالیسی کی اہمیت کم نہیںمگر عالمی بازار میں آپ کی اتنی ہی قیمت لگے گی، جتنی آپ کی حیثیت ہو ۔ امن اور سیاسی استحکام اگر قائم ہو اور معیشت استوار تو کسی بھی اہم دارالحکومت میں آپ کا خیر مقدم خوش دلی سے کیا جائے گا۔ بجا طور پر ہمیشہ کہا گیا کہ قوموں کے باہمی مراسم کا تعلق فقط ان کے باہمی مفادات سے ہوتا ہے… اور بس! ایک نکتہ اور بھی ہے۔ یہ بات مگر ان لوگوں کی سمجھ میں آ نہیں سکتی ، اقتداراور دولت جن کی کمزوری ہو‘ طاقت ایک نفسیاتی چیز ہے ۔ 1859ء میں خانہ جنگی کی آگ میں جلتے امریکہ کے صدر ابرہام لنکن کے ہاتھ میں کیا تھا ؟ گیلی پولی کا معرکہ برپا ہوا تو مصطفی کمال اتا ترک کی قوت کیا تھی ؟ 1937ء کا الیکشن ہار جانے کے بعد محمد علی جناح ؒ اس یقین سے بات کیسے کرتے تھے ؟… اعلیٰ مقاصد سے حقیقی وابستگی اور اپنی قوم سے سچا پیمان۔ لیڈر جب اندر باہر سے سچا ہو تو یقین سے وہ سرشار ہوتا ہے اور ایک آہنگ اس کی شخصیت میں جنم لیتاہے ۔ ایک بے پناہ اعتماد وہ ماحول میں پیدا کر دیتاہے اور اس کے بل پر نئے زمانے تخلیق کرتاہے ۔ اپنی قوم کی مدد سے ، جو کمال خوش دلی سے اس کی پشت پہ کھڑی ہو جاتی اور قربانی پر آمادہ رہتی ہے ۔ کیا وہ وزیر اعظم اس طرح کا معرکہ سر کر سکتاہے ، جس کی دولت بیرونِ ملک پڑی ہے اور اس کے وزیرِخزانہ کی بھی ۔ اپوزیشن لیڈر جناب آصف علی زرداری کی بھی اور پیمان ان سے یہ ہے کہ ہرگز انہیں پریشان نہ کیا جائے گا۔ بارہا عرض کیا: غلطیوں سے نہیں ، آدمی اپنی غلطیوں پر اصرار سے تباہ ہوتے ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف سرخرو ہوسکتے ہیں ، اگر وہ خود سے آغاز کریں۔ ایک الجھا ہوا ذہن تضادات کا بوجھ اٹھا کر ایک عام سا فریضہ بھی ڈھنگ سے انجام نہیں دے سکتا ؛چہ جائیکہ کہ پیچ درپیچ بحرانوں میں گھری قوم کو ساحلِ مراد سے وہ ہمکنار کرے ۔ میاں صاحب کا مسئلہ کیاہے کہ برطانیہ اور امریکہ کے لیے سفیر مقرر کرنے میں اس قدر تاخیر فرمائی۔ کیا سبب ہے کہ وزارتِ خارجہ جیب میں رکھ چھوڑی ہے اور وزارتِ دفاع بھی ۔ خواجہ آصف کو بجلی کی وزارت سونپنے کے بعد ان پر میاں محمد شہباز شریف کو نگراں کر دیا اور عابد شیر علی کو ۔ اول تو کابینہ میں اکثر حواری ہیں ، جو ڈھنگ کے ہیں ، اعتماد ان پر بھی نہیں ، فقط اپنے خاندان پر ۔ لاہور کے اس صنعت کار پہ ، جس کی وجہ سے کاروباری برادری ناخوش ہے اور سیاسی رفقا بھی ۔ بھانڈا پھوٹ گیا ہے ۔ امریکیوں نے بتا دیا ہے کہ عافیہ صدیقی پر کوئی بات نہیں ہوئی ۔ ڈرون حملے بند نہ ہوں گے اور بھارت کو مطمئن کرنا ہوگا۔ ایک انگریزی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے جناب سرتاج عزیز نے کہا : ثبوت مل گئے تو حافظ سعید کے خلاف کارروائی کریں گے ۔ عافیہ صدیقی کے بارے میں پوچھا گیا تو چپ رہے۔ گھر کا بھیدی‘ لنکا ڈھائے۔ خرابی فقط یہ نہیں کہ تیاری بھرپور اور مکمل نہ تھی بلکہ پوری حکمتِ عملی ہی ناقص بلکہ بے بنیاد۔ یکسوئی تھی ہی نہیں۔ تشہیر کی پوری مہم اس طرح مرتّب فرمائی گئی کہ پاکستانی عوام کو آسودہ رکھا جائے ۔ وہی شعبدہ بازی ، جو ہماری سیاسی جماعتیں ہمیشہ روا رکھتی ہیں۔ تاثر یہ دیا گیا کہ وزیرا عظم ڈرون حملے بند کرانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے ۔ وہاں ماحول ہی دوسرا تھا، ماجرا ہی اور۔ صدر اوباما سے ملاقات کے بعد گھبرائے ہوئے باہر نکلے اور لکھا ہوا بیان پڑھنے لگے ۔ احساسِ جرم میں مبتلا! قول نہیں ، عمل۔ کوئی جائے اور جا کر میاں محمد نواز شریف کو بتائے کہ جس کے ہاتھ میں انسانوں کی تقدیر ہے ، جس کے حکم کے بغیر ایک پتہ بھی ہلتا نہیں، قول نہیں ، وہ عمل دیکھتاہے ۔ اس سے پہلے وہ نیّت دیکھتا ہے ۔ ’’اللہ ، اس حیّ و قیوم کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اسے نیند آتی ہے اور نہ اونگھ۔ اسی کے لیے ہے ، جو کچھ زمینوں اور آسمانوں میں ہے‘‘ فطرت کے ابدی قوانین کبھی کسی اور کے لیے بدلے ہیں کہ ان کے لیے بدل جائیں؟ خود فریبی سے میاں محمد نواز شریف باہر نکلیں اور پورا سچ قوم کو بتادیں۔ وہ کیوں ان کا ساتھ نہ دے گی؟ آخر کیوں؟ ہمارے سامنے متبادل کیا ہے؟ مسترد اور منسوخ آصف علی زرداری؟ جناب عمران خان؟ جن کی دیانت میں کوئی شبہ نہیں مگر ان کے بہت سے ساتھیوں کی بددیانتی میں بھی ہرگز نہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں