اپنے ضمیر اور اپنے اللہ کو گواہ بنا کر اپنی حدود کا تعین وہ خود ہی فرمائیں‘ خود ہی۔ اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا ناز بھی کر تو بہ اندازۂِ رعنائی کر جو جنگ جاری ہے اور جو بحران برپا ہے‘ وہ بہت سی جہات رکھتا ہے اور فقط ٹی وی مذاکروں سے اس کا ادراک ممکن نہیں‘ جو پہلے سے بہتر ہیں مگر اب بھی تکرار اور سستے پن کا شکار۔ سپریم کورٹ نے اواخر نومبراور اوائل دسمبرمیں بلدیاتی الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا۔ جمعرات کو مگر قومی اسمبلی نے معذرت پیش کی ہے۔ اچھا کیا‘ اچھا کیا۔ عدالت کا احترام اور تعمیل اس لیے واجب نہیں کہ وہ سزا سنا سکتی ہے بلکہ اس لیے کہ اگر ایسا نہ کیا جائے گا تو فساد برپا ہوگا۔ میاں محمد نوازشریف کے گزشتہ دور میں یہی ہوا تھا۔ اس کے باوجود کہ وہ بادشاہت کے آرزو مند ہیں اب وہ قدرے محتاط ہیں… جمہوریت میں بلوغت کا سفر اسی طرح تمام ہوتا ہے۔ فقہ میں ’’ظلم‘‘ کا لفظ‘ ان معنوں میں برتا جاتا ہے کہ کوئی چیز اپنی جگہ پر نہ رہے۔ اس سرزمین میں جو جدید اسلامی ریاست کے لیے تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کی گئی‘ کوئی چیز بھی ٹھکانے پر نہیں۔ انتظامیہ‘ پارلیمنٹ‘ عدالت‘ افواج‘ سول سروس اور میڈیا کوئی بھی نہیں۔ میڈیا بڑا محتسب ہے اور اس انداز سے ٹی وی ، اخبار والے بات کرتے ہیں‘ ان کا دامن گویا دامن مریم ہو۔ حال ان کا یہ ہے کہ ان میں سے بعض کھلے بندوں‘ اجنبی ممالک سے عطیات لیتے ہیں‘ جن کا واحد مقصد ہمیں محتاج اور منحصر رکھنا ہے۔ اپنا ایجنڈہ مسلط کرنا ہے۔ بعض ٹیکس ادا نہیں کرتے اور غرّاتے ہیں کہ ہم صداقت کے نگہبان ہیں‘ امام غزالیؒ اور ابن جوزیؒ کے جانشین۔ گاہے انگریزی کا وہ محاورہ یاد آتا ہے۔ شیطان‘ بائبل کی تلاوت فرما رہا ہے۔ اخبار کے چیف ایڈیٹر نے وقائع نگار سے کہا کہ تنہائی میں‘ وہ اس سے بات کرنے کا آرزو مند ہے۔ پھر اس سے یہ کہا: مالی غبن کے واقعات تم تلاش کرتے ہو۔ پہلے سے اگر مجھے بتا دیا کرو تو کروڑوں روپے آمدن ہو سکتی ہے۔ ایک تہائی تمہارے۔ اس نے جواب دیا: حضور! آپ مجھے سمجھ نہ سکے۔ میں سو فیصد وصول کر سکتا ہوں۔ اپنی سلامتی‘ اگر خطرے میں ڈالتا ہوں تو دو تہائی آپ کی خدمت میں کیوں پیش کروں؟ پھر اس ادارے سے اس نے علیحدگی اختیار کر لی اور دوسرے ادارے سے وابستہ ہو گیا۔ قدرے کم تنخواہ پر مگر وہ آسودہ ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ا یسے کچھ لوگ اور بھی ہیں۔ بہت جی خوش ہوا حالیؔ سے مل کر ابھی کچھ لوگ باقی ہیں‘ جہاں میں بعض ادارے اپنے بعض ٹی وی میزبانوں اور کالم نگاروں سے نالاں ہیں کہ براہ راست حکمرانوں سے مراسم رکھتے اور ان کی اور قاری کی قیمت پر‘ ریاست کے وسائل استعمال کرتے ہیں۔ دو برس ہوتے ہیں‘ جب میں نے وزارت اطلاعات کے سیکرٹ فنڈ کا سوال اٹھایا… دو ارب روپے سالانہ! اول کسی کو یقین ہی نہ آتا تھا۔ عرض کیا کہ حضور !بجٹ کی دستاویز میں درج ہے۔ کچھ استفادہ کرنے والوں کے نام بھی معلوم ہیں مگر بتائوں گا نہیں۔ اسی طرح اب یہ بات میں کہتا ہوں کہ ا خبار نویسوں میں ایسے ہیں‘ جو دہلی‘ دبئی‘ کابل‘ لندن اور نیویارک میں وصولیاں فرماتے ہیں۔میرے ساتھی بگڑتے ہیں: ان کا نام تولو۔ میں کوئی ٹھیکیدار ہوں۔ ایک مشہور ٹی وی پروگرام میں‘ میرے خلاف فرد جرم عائد کی گئی کہ اسٹیبلشمنٹ کا دفاع کرتا ہے۔ مشورہ دیا گیا کہ میں جنرل کیانی کے پرخچے اڑا دوں (کہ مجھ پر پھول برسیں)۔گزارش کی: جی ہاں! میں نے جنرل کیانی کو سراہا‘ جرائم پیشہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے خلاف‘ پاکستانی عوام کے خلاف نہیں کہ فوج کوانہوں نے سیاست سے دور لے جانے کی کوشش تو کی ۔ان کے بارے میں آپ کا خیال کیا ہے‘ جو دشمن سے راتب پا کر ناصح بنتے ہیں۔ روانڈا سے لے کر امریکہ تک‘ دنیا کے کسی ملک میں یہ نہیں ہوتا کہ شام سات بجے سے‘ شب گیارہ بجے تک مسلح افواج کا مذاق اڑایا جائے۔ ’’را‘‘ کے دفتر میں تخلیق کردہ افواہیں‘ خبروں کے طور پر پیش کی جائیں۔ مثلاً وہ کہ واشنگٹن میں‘ جس کی جائیداد ہے اور اس پر ٹیکس بھی وہ ادا نہیں کرتا مگر جناب زرداری اور میاں محمد نوازشریف دونوں کا محبوب ہے۔ مثلاً کئی وہ‘ دبئی میں جن کی جائیدادیں ہیں۔ پاک فوج پہ تنقید کوئی جرم نہیں۔ اجتماعی زندگی میں مقدس گائے کوئی نہیں مگر جیسا کہ عمران خان نے امریکیوں سے کہا تھا: اگر آپ کے دسترخوان پر‘ ہمیشہ کچھ خاص لوگ ہی نظر آئیں تو وعدہ معاف گواہ کے سوا انہیں کیا سمجھا جائے ؟انسانی حقوق کا نگہبان ادارہ امریکہ اور بھارت سے داد پاتا ہے۔ 1999ء میں وہ مولوی صاحب لاہور میں ایک ممتاز اور مشکوک اخبار نویس کے مہمان تھے‘ یورپی یونین‘ امریکہ اور بھارت سے‘ جن کے مراسم کی شہادتیں موجود ہیں۔ عوامی اجتماع میں فرمایا انہوں نے یہ تھا کہ امریکی جہاں نظر آئیں‘ انہیں قتل کردو‘ مگر صحافی سے یہ کہا: امریکیوں سے میری بات کرادو۔ ان کے ساتھ مل کر میں کام کرنا چاہتا ہوں۔ ان کے بارے میں بھی شواہد اور دستاویزات موجود ہیں۔ عدالت مگر ان کے خلاف کارروائی کیسے کرے؟ ایف آئی اے کیا تحقیقات کر پائے گی؟ اصغر خان کیس میں اسی کو تفتیش سونپنا تھی۔ پھر کیا ہوا؟ کیا وہ وزیراعظم کے خلاف اقدام کر سکتی ہے۔ کیا نیب کر سکتی ہے‘ جس کے سربراہ کا تقرر‘ ملزمان محترم نے کیا ہے۔ عوامی نمائندے‘ جمہوریت کے پاسبان۔ فوج اور سیاستدانوں کا کچا چٹھہ بیان کیا جاتا ہے اور مسلسل۔ مگر وکیل‘ تاجر اور صنعت کار؟ وکلاء کا طریق یہ ہے کہ معزول سیاستدانوں سے رہ و رسم بڑھاتے ہیں‘ حتیٰ کہ بعض جج بھی۔ عتاب کے ادوار میں‘ ان کے مقدمات مفت لڑتے ہیں اور پھر ان مناصب کے مزے لوٹتے ہیں‘ جن کے ہرگز وہ اہل نہ تھے۔ جسٹس رفیق تارڑ اپنی نوعیت کی ایک مثال ہیں اور کچھ دوسرے جواب قابلِ ذکر بھی نہیں۔ وزیر بنتے ہیں؟ وہ تماشا رچاتے ہیں۔ صنعت کاروں اور تاجروں میں ایسے ہیں‘ کروڑوں کے نہیں جنہوں نے اربوں کے گھپلے کیے۔ بینک لے گئے‘ کارخانے اڑالے گئے۔ پراپرٹی کے کاروبار کیے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں کو لوٹا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ٹیکس ادا کرتے نہیں اور بیشتر سرمایہ بیرون ملک بھیج دیتے ہیں۔ کوئی جج‘ کوئی جنرل‘ کوئی جرنلسٹ ان کی راہ میں مزاحم نہیں ہوتا۔ مزاحم کیا سبکدوشی پہ جنرلوں کو وہ نوکریاں دیتے ہیں۔ محترمہ کشمالہ طارق مجھ سے الجھتی رہیں۔ وہ خیرات بہت کرتا ہے۔ کوئی اپنی حدود میں نہیں‘ عدالت بھی نہیں۔ ہیجان کا عالم ہے‘ ہیجان کا… اس طرح نہیں ہوگا‘ ارے بھائی‘ اس طرح نہیں ہوگا،تحمل درکار ہے، تحمل۔حکمت اور منصوبہ بندی ۔ترجیحات کا تعین اور صبر کے ساتھ تعین۔روم ایک دن میں آباد نہ ہوا تھا۔ مشین کا ہر پرزہ اپنا کام کرے گا تو مشین چلے گی۔ ایک نہیں‘ دو نہیں چار بار فوجی قیادت نے سیاست کو گود لیا۔ کرپشن کم ہوئی‘ امن و امان بہتر‘ معیشت فعال اور دفاتر قدرے کارگر۔ آخر میں مگر کیا ہوا؟ سب کچھ برباد‘ سب کچھ برباد۔ جمہوریت کی مالا جپتے ہوئے ریاکار سیاستدان پھر اقتدار سنبھالتے ہیں۔ بڑے بڑے دعوے۔ اتنے بڑے کہ ’’میں تمہاری تقدیر بدل دوں گا‘‘… ٹائیں ٹائیں فش۔ اس کے سوا مگر چارہ بھی کیا کہ سیاستدان ہی سیاست کریں۔ ڈاکٹر اگر اچھا نہ ہو تو کیا بریگیڈئر صاحب سے آپریشن کرایا جائے؟ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ عدالت کے باب میں محتاط رہنا پڑتا ہے اور بخدا خوف کے سبب نہیں۔ اس لیے کہ یہ معاشرے کا سب سے مقدس ادارہ ہے۔ اقوام کے فروغ کا تمام تر انحصار عدل پہ ہوتا ہے اور عدل کا جج حضرات پر۔ مؤدبانہ ان کی خدمت میں التماس ہے کہ دوسروں کے وہ محتسب ہیں‘ ان کا محتسب عملاًکوئی نہیں۔ اپنے ضمیر اور اپنے اللہ کو گواہ بنا کر اپنی حدود کا تعین وہ خود ہی فرمائیں‘ خود ہی۔ اس گلستاں میں نہیں حد سے گزرنا اچھا ناز بھی کر تو با اندازِ رعنائی کر