وزیراعلیٰ شہباز شریف سے التماس ہے کہ اس تقریب میں شریک ہوں اور اقبال کو یاد کریں۔ کیا عجب ہے کہ نور کی ایک کرن عطا ہو۔ مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں‘ اندھیری رات میں بسترِ مرگ پہ اقبال نے اپنے گرامی قدر والد سے مؤدبانہ یہ پوچھا تھا: کیا میں نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا حق ادا کردیا؟ عجیب بات ہے‘ عجیب۔ آخری گیارہ برسوں میں یہ خیال محمد علی جناح کے ذہن پہ سوار رہا کہ ان کی آخری منزل کیا ہے؟ وہ مقصود اور موتی‘ جس کے لیے ٹی بی میں مبتلا‘ فولادی اعصاب کا لیڈر اپنی جان نذر کرے۔ اوّل مسلم لیگ کی مجلس عاملہ‘ پھر علی گڑھ یونیورسٹی کی ایک تقریب اور 1947ء میں ایک امریکی اخبار نویس کو انٹرویو دیتے ہوئے‘ اس پر انہوں نے بات کی۔ الفاظ قدرے مختلف ہو سکتے ہیں کہ حافظے پر انحصار ہے۔ خلاصہ یہ ہے: زندگی کی تمام نعمتیں‘ میں دیکھ چکا ہوں‘ کوئی آرزو اب اس کے سوا باقی نہیں کہ جب میں اس دنیا سے اٹھوں تو میرا ضمیر مطمئن ہو کہ میں نے مسلمانوں کی خدمت کا حق ادا کردیا۔ علی گڑھ کی تقریب سے خطاب کرنے اٹھے تو آسودہ تھے۔ اس لیے کہ انقلاب کے آثار تھے۔ محمد علی جوہر‘ اقبال اور خود ان کی مساعی سے‘ تاریخ کے چوراہے پر سوئی ہوئی قوم جاگ اٹھی تھی۔ فرمایا: آدمی کے دن پھرتے ہیں تو اس کے امیر رشتہ دار اسے یاد کرنے لگتے ہیں۔ یہ اقبال کا دن ہے مگر مجھے جناح یاد آئے اور اقبال کے پیش رو سلطان العارفین حضرت سلطان محمد باہو‘ جو تین سو برس سے جھنگ کے قصبہ گڑھ مہاراجہ کی مٹی اوڑھ کر سوئے پڑے ہیں۔ سوئے کہاں پڑے ہیں‘ دریا کنارے وہ جاگ رہے ہیں۔ نام فقیر تنہاں دا باہو قبر جنہاں دی جیوے ہو سلطان باہوؒ کو اس ناچیز نے حکیم الامت کا پیش رو کہنے کی جسارت کیسے کی؟ اوّل فارسی میں لکھی گئی ان کی نظم پڑھ لیجیے۔ نجاتِ مردمِ جاں لا الہٰ الا اللہ کَلیدِ قفل جناں لا الہٰ الا اللہ چہ خوفِ آتشِ دوزخ‘ چہ باکِ دیوِ لعیں وَرا کہ کرد بیاں لا الہٰ الا اللہ نہ بود ملک نہ عالم‘ نہ دورِ چرخِ کبود کہ بود امن و اماں لا الہٰ الا اللہ شاعر منصور آفاق نے اردو زبان میں اس کا ترجمہ کیا ہے۔ نجاتِ خلقتِ جاں لا الہٰ الا اللہ کلیدِ باغِ جناں لا الہٰ الا اللہ یہ خوف آتشِ دوزخ‘ یہ خطرۂ ابلیس وہاں کہاں کہ جہاں لا الہٰ الا اللہ بگاڑ سکتی ہے کیا اس کا چرخ کی گردش ہے جس کی جائے اماں لا الہٰ الا اللہ یہ جائیدادِ جہاں کچھ نہیں ہے‘ اس کے لیے ہے جس کے دل میں نہاں لا الہٰ الا اللہ یہ کائنات یہ عالم وہاں نہیں باہو جہاں جہاں پہ عیاں لا الہٰ الا اللہ اب اقبال کی وہ مشہور نظم ملاحظہ فرمایئے‘ جو ضربِ کلیم کے اوّلین اوراق میں جگمگاتی ہے۔ خودی کا سرِّ نہاں، لا الہٰ الا اللہ خودی ہے تیغ فساں، لا الہٰ الا اللہ یہ دور اپنے براہیمؑ کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں، لا الہٰ الا اللہ کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا فریب سود و زیاں، لا الہٰ الا اللہ یہ مال و دولتِ دنیا‘ یہ رشتہ و پیوند بتانِ وہم و گماں، لا الہٰ الا اللہ خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری نہ ہے زماں نہ مکاں، لا الہٰ الا اللہ یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزاں، لا الہٰ الا اللہ اگرچہ بت ہیں جماعت کے آستینوں میں مجھے ہے حکم اذاں، لا الہٰ الا اللہ خیال وہی‘ ادراک اور احساس کا انداز وہی۔ اس سے بڑھ کر مگر ردیف وہی‘ قافیہ وہی۔ اس کے باوجود بھی کسی کو شک ہو کہ بیسویں صدی کے فکری مجدد نے صوفی سے فیض پایا کہ نہیں پایا تو بادشاہی مسجد کے مینار کی طرح سربلند یہ مصرعہ گنگنائیں۔ ترکشِ مارا خدنگِ آخریں دہن اقبال سے یہ اورنگ زیب عالم گیر کا ذکر ہے۔ عمر بھر توحید کا نغمہ گانے اور تصوف کا چراغ جلانے والا‘ ابدلاآباد تک زندہ رہنے والا شاعر دلی گیا تو عالمگیر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اسی طرح جیسے محمود غزنوی‘ سید ہجویر سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ‘ شہاب الدین غوری‘ خواجہ معین الدین چشتی ؒ اور غیاث الدین بلبن‘ خواجہ فرید الدین شکر گنج ؒ کی بارگاہ میں ۔ طوفانوں میں گھرے عالمگیر پہ سلطان باہوؒ نے وہ عنایت کی کہ کم کسی فقیر نے کسی حکمران پہ کی ہوگی۔ جس طرح فکر اقبال کا یہ گمشدہ باب ہے کہ باہوؒ سے انہوں نے فیض پایا‘ اسی طرح کمال ڈھٹائی سے دانشوروں نے‘ اس راز کو بھی چھپائے رکھا کہ سلطان العارفینؒ نے اس جعلی صوفی‘ اس افسانہ طراز داراشکوہ کے مقابلے میں چالیس برس تک تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھ کر حکومت کرنے والے اورنگ زیب کی تائید کی تھی۔ تائید نہیں‘ فقر کی تلوار سونت کر وہ اٹھے اور اس کے پشت پناہ ہوئے۔ ’’اورنگ شاہی‘‘ کے عنوان سے ڈیڑھ سو صفحات کی ایک کتاب فارسی میں لکھی اور ان الفاظ میں اسے خراج تحسین پیش کیا ’’وہ ایک ایسی شخصیت ہے‘ جسے ولیٔ کامل کہا جا سکتا ہے‘‘۔ تین سو برس سے‘ عالم اسلام میں الحاد کی تحریکیں برپا ہیں۔ نام نہاد مفکرین ان کے زیر اثر عالم اسلام کو مغرب کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ محمود غزنوی چنانچہ معتوب ہے‘ جس کا جرم اس کے سوا کچھ نہیں کہ خلافتِ بغداد کے ایما پر اس نے لشکر اُستوار کیا کہ ملتان کو قرامطہ سے نجات دلائے۔ چرائے گئے حجرِ اسود کو بازیاب کرانے کی کوشش کرے۔ جس کی جارحانہ مہمات کا اصل یہ تھا کہ لاہور کا ہندو حکمران آنند پال‘ غزنی پر یلغار کیے رکھتا تھا۔ اورنگ زیب ان کا ہدف ہے کہ شریعت مطہرہ کا علمبردار تھا۔ ترکشِ مارا خدنگِ آخریں! امان اللہ خان کی دعوت پر اقبال افغانستان گئے۔ ان کے ہم سفر ہم نفس سید سلمان ندوی نے لوٹ کر لکھا۔ غزنی میں سنائی کے مزار کی پائنتی پر اقبال کھڑے تھے اور بچوں کی طرح روتے تھے۔ واپس لاہور پہنچے تو درد کے اس تجربے کو مجسم کیا۔ سنائی کے ادب سے میں نے غوّاصی نہ کی ورنہ ابھی اس بحر میں باقی ہیں‘ لاکھوں لولوئے لالہ اقبال نے اپنے گرامی قدر والد سے مؤدبانہ سوال کیا تو انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ کیا عجب کہ تب فارسی کا وہ شعر‘ ان کے ذہن میں چمک اٹھا ہو۔ حاصلِ عمر نثارِ رہِ یارے کردم شادم از زندگیِ خویش کہ کارے کردم (ساری زندگی یار کی نذر کردی‘ شاد ہوں کہ آخر کچھ کر پایا) 17 اور 18 نومبر کو پنجابی کمپلیکس قذافی سٹیڈم میں سلطان باہوؒ پر ایک دو روزہ کانفرنس منعقد ہوتی ہے۔ اگے تِرے بھاگ لچھیے‘ وزیراعلیٰ شہباز شریف سے التماس ہے کہ اس تقریب میں شریک ہوں اور اقبال کو یاد کریں۔ کیا عجب ہے کہ نور کی ایک کرن عطا ہو۔ مرنے والوں کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں جس طرح تارے چمکتے ہیں‘ اندھیری رات میں