اقبال ؔ نے کہا تھا : قومیں حکما ء کے دلوں میں جنم لیتی اور سیاستدانوں کے ہاتھوں برباد ہوتی ہیں ۔ مشتری ہوشیار باش! ایک قوم اگر اپنی ہستی کا ادراک ہی کھو دے تو اس کا وجود کیسے برقرار رہے گا۔ امن مگر ہوش مندی اور حکمت کے ساتھ !سہج پکے سو میٹھا ہو !
میثاقِ جمہوریت کی منظوری کے ہنگام ، جس پر ملک بھر میں بغلیں بجائی جا رہی تھیں، اس ناچیز نے اس کی سترھویں شق کے بارے میں سوال اٹھایا تھا۔ اس میں درج تھا کہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ کسی تعصب کے بغیر بہرحال اچھے مراسم استوار کیے جائیں گے ۔ فوراً بعد بھارتی اخبارا ت میں ہندوستانی اخبار نویس کلدیپ نائر کا ایک مضمون شائع ہوا ، جو انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف سے ملاقاتوں کے بعد لکھا تھا۔ میاں صاحب سے اس میں یہ الفاظ منسوب کیے گئے تھے کہ جنرل پرویز مشرف تو محض ڈرامہ کر رہے ہیں ، دہشت گردوں کے اصل مخالف تو وہ ہیں ۔ یہ جنرل حضرات ہیں ، جو بھارت سے مراسم استوار کرنے نہیں دیتے۔
اب ایک چھوٹا سا ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا ۔ جناب رفیق ڈوگر اوراقبالیات کے ممتاز استاد پروفیسر فتح محمد ملک نے بہت سے نکات اٹھائے ۔ جنرل مشرف پہلے ہی وہ سب رعایتیں بھارت کو دے چکے تھے ، جو دی جا سکتی تھیں؛حتیٰ کہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں سے دستبرداری کا اعلان ۔ سوال اب یہ تھا کہ ہمارے دو ممتاز سیاسی رہنما کس قدر پسپائی پر آمادہ ہیں ۔ لاہور کے ایک اخبار میں متعدد مضامین چھپے تو میاں صاحب کو صورتِ حال کی سنگینی کا ادراک ہوااور انہوںنے ایک وضاحتی بیان جاری کیا۔ پے درپے ہنگاموں میں یہ بحث بالآخر مدھم ہوتی گئی اور بات بھلا دی گئی۔
اب یہ احساس ہوتاہے کہ اس مباحثے کو جاری رکھنا چاہیے تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں صاحب کا اندازِ فکر استعمار کے کسی وقتی دبائو کا نتیجہ نہ تھا بلکہ ان کے تھنک ٹینکس کی طویل ریاضت کا ثمر تھا، پروفیسر فتح محمد ملک جسے مغرب کی سپاہِ دانش کانام دیتے ہیں ۔ معروف بھارت نواز دانشور سٹیفن کوہن ان دنوں امریکی حکومت کے لیے کام کر رہے تھے ۔ ایک سرکاری ادارے Brookingsمیں وہ فارن پالیسی سٹڈیز پروگرام میں سینئیر فیلو کی حیثیت سے سرگرم تھے۔ امریکی دانشوروں کا نظریہ تھا کہ جب تک پاکستان کو اس کی نظریاتی بنیادوں سے انحراف پر آمادہ نہ کیا جائے گا، خطّے میں امریکی مقاصد کا حصول ممکن نہیں ۔ سٹیفن کوہن کی کتاب "The Idea of Pakistan"میں اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس کا ایک اقتباس یہ ہے ۔
"Here, I again ask which policies,economic, political, strategic- persued now might avert the worst outcomes and help steer the country in a direction compatible with its own identity and interests, as well as the key interests of the United States and Pakistan's important neighbours. A stable, prosperous, progressive Pakistan could trigger a new spurt of South Asian development, in partnership with India and Afghanistan"
"بارِ دگر میں یہ سوال کرتا ہوں کہ کون سی اقتصادی ، سیاسی اور تزویراتی پالیسیاں بروئے کار لائی جائیں کہ ملک تباہی سے بچ جائے۔ وہ پالیسیاں جو پاکستان کو ان خطوط پر گامزن ہونے میں مدد دیں ، جو نہ صرف خود اس کی اپنی شناخت اور مفادات سے ہم آہنگ ہوں بلکہ امریکہ اور پاکستان کے اہم ہمسایہ ممالک کے بنیادی مفادات سے بھی۔ ایک مستحکم ، خوش حال اور بہتری کی طرف بڑھتا پاکستان انڈیا اور افغانستان کے ساتھ مل کر جنوبی ایشیا میں نمود کے ایک نئے دور کا آغاز کر سکتاہے ۔ "
جنرل پرویز مشرف کے دورمیں ، ٹھیک اس وقت جب پاکستانی سپاہ د س لاکھ بھارتی سپاہ کے مقابل کھڑی تھی ، محترمہ بے نظیر بھٹو دہلی تشریف لے گئیں ۔ وہاں انہوںنے اعلان کیا کہ بحران کے ذمہ دار بنیاد پرست ہیں ۔ واضح طور پر ان کا اشارہ کشمیری حریت پسندوں کی طرف تھا ، جو غلامی سے نجات کے لیے تاریخ ساز قربانیاں دے رہے تھے ۔ اسی دور میں انہوںنے پاکستان اور بھارت کے لیے مشترکہ کرنسی اور مشترکہ صد ر کی تجاویز بھی پیش کیں ۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین دہلی گئے، جہاں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے اعلان کیا کہ برصغیر کی تقسیم انسانیت کی تاریخ کی عظیم ترین حماقت تھی۔ اگر اس وقت وہ موجود ہوتے قیامِ پاکستان کے خلاف ووٹ دیتے۔
اسی پسِ منظر کو ملحوظ رکھا جائے تو دو سال پہلے آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران میاں محمد نواز شریف کا اظہارِ خیال سمجھ میں آتاہے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ بھارت نے کشمیریوں پر اتنے مظالم کا ارتکاب نہیں کیا، جتنا کہ پاکستانی فوج نے ۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ کو آزاد کشمیر کے دارالحکومت میں کھڑے ہو کر یہ بات کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ حالانکہ پاک فوج کی مذمت سے ان کی حمایت میں کوئی اضافہ ممکن نہ تھا۔یہ محض عسکری قیادت سے اظہارِ ناراضی نہ تھا ، اکتوبر 1999ء میں جس نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس لیے کہ قوم نے جنرل پرویز مشرف کو بالآخر اکھاڑ پھینکا تھا اور اب وہ جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے ۔ ظاہر ہے کہ میاں صاحب اس امریکی نظریے پر ایمان لے آئے تھے ، جس کے تحت علاقے میں استحکام اور حصولِ امن کی ایک ہی راہ باقی تھی : امریکی ترجیحات کو قبول کر لیا جائے ۔ ملک نہ صرف انکل سام کے مفادات سے ہم آہنگ ہو بلکہ بھارتی بالادستی کے سامنے بھی سر جھکا دیا جائے۔ سٹیفن کوہن نے اپنی کتاب میں اس بات کا رونا بہت
رویا ہے کہ خطے میں بھارتی برتری کی راہ میں صرف ایک رکاوٹ ہے اور وہ پاکستانی فوج ہے ۔ انہی دنوں سیّد مشاہد حسین سے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر کی ملاقات ہوئی تو اس نے یہ کہا "Pleasently, we are surprised that Mian Sahib did not mention India or Indian army in his campaign" ( ہمیں اس پر خوشگوار حیرت ہوئی کہ میاں صاحب نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھارت اور بھارتی فوج کا نام تک نہ لیا)۔
کیا پاکستان کو اپنے ہمسایوں کے ساتھ کشیدگی برقرار رکھنی چاہیے ؟ کوئی احمق ہی اس سوال کا جواب اثبات میں دے سکتاہے ۔ قائداعظمؒ نے ارشاد کیا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان امریکہ اور کینیڈا ایسے خوشگوار مراسم ہونے چاہئیں ۔ جنگ کی حمایت صرف جنونی لوگ ہی کر سکتے ہیں ، جو ذہنی توازن سے محروم ہوں ۔ پڑوسیوں کے درمیان مستقل امن ہی ترقی کی ضمانت دیتا ہے ۔
امن کاحصول مگر کیونکر ممکن ہے ؟ ظاہر ہے کہ شائستہ سفارتی ذرائع اور باہمی تنازعات نمٹا کر ۔ پھر یہ کہ قیامِ امن کی حکمتِ عملی خود کوئی قوم ہی طے کر سکتی ہے ۔ سات سمندر پار کی کوئی حکومت اور اس کی سپاہ ِ دانش ہرگز نہیں ۔ اندیشہ اس وقت پھوٹتا ہے ، جب سرکاری اخبار نویس ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ انا اور غیرت کے الفاظ لغت سے حذف کر دینے چاہئیں ۔ زمینی حقائق کے سامنے جھک جانا چاہیے ۔ کوئی جا ئے اور جا کر انہیں بتائے کہ خوف میں کوئی پالیسی تشکیل نہیں دی جا سکتی ، جس طرح کہ ہیجان اور جذباتیت میں ۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور بھارت اسے تسخیر نہیں کر سکتا۔ اصل خطرہ اس ذہنی افلاس سے ہے ، جو ریاست کو گھن کی طرح کھائے جاتاہے ۔ اقبال ؔنے کہا تھا : قومیں حکما کے دلوں میں جنم لیتی اور سیاستدانوں کے ہاتھوں برباد ہوتی ہیں ۔ مشتری ہوشیار باش! ایک قوم اگر اپنی ہستی کا ادراک ہی کھو دے تو اس کا وجود کیسے برقرار رہے گا۔ امن مگر ہوش مندی اور حکمت کے ساتھ !سہج پکے سو میٹھا ہو !