کوئی جائے اور جا کر وزیر اعظم کوبتائے کہ حالات حکمرانوں کی آرزومیں نہیں ڈھلتے۔ اْسے ڈھلنا پڑتاہے۔ اسی کو سمجھنا ہوتا ہے ، اُسی کو بروئے کار آنا ہوتاہے ۔
میاں محمد نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھائے کتنے دن ہوئے؟ شاید 183۔ کہا جاتاہے کہ ان میں سے 52ایام انہوںنے بیرونِ ملک گزار دئیے ۔ کم وبیش اتنے ہی مری اور لاہور میں ۔ پھر ان سوالوں سے کس طرح وہ عہدہ بر آ ہوں گے ، جن کی سنگینی سے قوم پژمردہ ہے ۔ ایسی مایوسی ، جس میں انسانی صلاحیت کند ہونے لگتی ہے ۔ معاشرہ اس طرح مرجھانے لگتاہے ، جیسے سرما کی سفاک ہوائوں میں سبزہ و گل۔
انتخابی مہم کے دوران ، میاں صاحب ارشاد کیا کرتے کہ نون لیگ تمام تیاریاں مکمل کر چکی ۔ اقتدار سنبھالتے ہی اصلاحِ احوال کا آغاز کر دے گی ۔ استدلال ان کا یہ تھا کہ قوم کو تجربہ کار لوگوں پہ اعتماد کرنا چاہیے۔ ایسا ہی ہوا۔ عمران خان کی غلطیاں اپنی جگہ ، مگر یہ بھی ایک سبب تھا کہ انہیں زیادہ ووٹ ملے۔ کچھ انہوں نے ہتھیا لیے ۔
انسانی عقل کبھی مجرّد نہیں ہوتی ۔وہ کبھی تنہا بروئے کار نہیں آتی بلکہ کسی اچھے یا برے جذبے کے سائے میں ۔ نام و نمود ، دولت یا اقتدار کی ہوس کے ساتھ ۔ ایثار یا خدمت کی تمنا کے ہمراہ۔ اقتدار کی آرزو میں انہوںنے فراموش کر دیا کہ میڈیا کو ایک حد تک ہی رام کیا جا سکتاہے اور عدالتیں اب آزاد ہیں ۔ کوئی جج اور اخبار نویس لالچ یا خوف کے ہاتھوں بے بس ہو جائے تو دوسری بات، وگرنہ بیشتر معاملات میں اب مواقع ارزاں ہیں ۔
اوّل اوّل عمران خان فریب کھا گئے ۔ آصف علی زرداری نے
عافیت کی آرزو میں سر جھکا دیا مگر بالآخر دھاندلی کا سوال شدّ و مد سے اٹھا ۔ کراچی میں تین حلقوں کے نتائج جانچے گئے تو ہولناک انکشاف ہوا کہ بڑے پیمانے کی گڑ بڑ ہے ۔ ناچیز نے عرض کیا تھا کہ ووٹ کی زیادہ تر پرچیوں پر انگوٹھوں کے نشان ہی نہیں۔ تین ہفتے قبل یہ گزارش بھی کی تھی کہ نادرا کے چیئرمین طارق ملک سے حکومت نا خوش ہے ۔ کسی وقت بھی حادثہ ہو سکتاہے ۔کہانی رئوف کلاسرا نے لکھ دی ہے۔ طارق ملک حکومت کے حامی تھے اور نہ مخالف۔ عدالتی احکامات کی پیروی میں ، انہوںنے اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کرنے کی کوشش کی ۔ اپنے ادارے کی صلاحیت کو انہوںنے بڑھایا، جو پہلے ہی بعض پہلوئوں سے غیر معمولی مہارت کا حامل ہے ۔ کئی ممالک نے نادرا کو اپنا قومی ڈیٹا مرتب کرنے کے لیے منتخب کیا۔ الیکشن 2013ء کی شفافیت جانچنے کے لیے انہوں نے ایک دن میں ایک لاکھ ووٹ پرکھنے کی استعداد حاصل کر لی۔
لبھانے کی کوشش ہوئی ، پھر خوفزدہ کرنے کی۔ جرأت مند آدمی نے انکار کیا تو آدھی رات کو برطرف کر دیا گیا۔ عدالت سے بحالی کے بعد اب وہ اپنے منصب پر براجمان ہیں ۔ ایک سرکاری صحافی نے خبر دی ہے کہ نادرا کے مستقبل کافیصلہ حکمِ امتناعی سے نمٹنے کے بعد ہوگا۔ اسی قماش کے اخبار نویس، جو جنرل ہارون اسلم کی کردار کشی میں ملوث ہیں ۔ وقت کے بدلے ہوئے تیوروں سے جو آگاہ نہیں ۔ جو جانتے نہیں کہ اخبارات پڑھنے اور
ٹی وی دیکھنے والے بلوغت کی کتنی ہی منزلیں طے کر چکے۔
ٹی وی سکرین اور اخبار کے صفحے پر طارق ملک کا نام زندہ رہے گا۔ زیادہ پھرتی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش ہوئی تو یہ سوال اور بھی سلگ اٹھے گا ۔ انتخابی دھاندلی کے موضوع کو اب ٹالا نہیں جا سکتا۔ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے قومی اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ چار نہیں ، وہ چالیس نشستوں کے نتائج پرکھنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ مرحلہ آپہنچا ۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو کر رہے گا۔
اپوزیشن غیر ضروری بے تابی اور ہیجان کا شکار ہے ۔ احتجاجی تحریک کے لیے یہ موزوں وقت نہیں ۔موسمِ بہار کی آمد کا انتظار کرنا چاہیے۔ وزیرِ خزانہ کے وعدے اگر پورے ہو سکیں ۔ اگر ڈالر پھر سے 98روپے کا ہو جائے ۔ اگر مہنگائی ، بے روزگاری اور بد امنی پر قابو پا لیا جائے تو سبحان اللہ۔ حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کوئی خوش آئند چیز نہیں ۔ خاص طور پر ایسے میں ، جب واضح متبادل موجود نہ ہو ۔ اگر یہی عالم رہا ، وزیراعظم نے اگر اسی طرح راہِ فرار اختیار کیے رکھی تو ایک بھرپور عوامی تحریک کے لیے فضا خودبخود سازگار ہو جائے گی ۔ وہ اخبار نویس حکومت کی ہرگز کوئی مدد نہ کر سکیں گے ، جو پیپلز پارٹی کے دور میں ہر روز کرپشن کی ایک نئی کہانی سناتے تھے ۔ اب اسلام آباد کا ذکر اس طرح کرتے ہیں ، جیسے دلہن اپنے مائیکے کا۔
دو تہائی اکثریت والی حکومت کی کوئی سمت نہیں ، کوئی واضح پالیسی نہیں۔ حال ہی میں وزیراعظم نے اپنے ایک ملاقاتی سے کہا کہ ایوانِ وزیراعظم میں ان کا جی نہیں لگتا۔ کیسے لگے ؟ وہ بادشاہت کے عادی ہیں ، وزارتِ عظمیٰ کے نہیں ۔منتخب ایوان میں وہ جاتے نہیں ۔ ٹیلی فون پر سرکاری افسروں کے تقرر اور تبادلوں کے احکامات صادر فرمایا کرتے ہیں ۔ یہ گزشتہ صدی کے نویں عشرے کا اندازِ حکمرانی ہے ۔ پلوں کے نیچے سے کتنابہت سا پانی بہہ چکا۔ وقت گزرنے کے ساتھ معاشرے کا مزاج بدلتاہے اور اسے ملحوظ رکھنا ہوتاہے ۔ اسی کانام سیاست ہے مگر من مانی پر تلے رہنے والے بے لچک وزیر اعظم خود کو حالات کے سانچے میں ڈھال نہیں سکے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ مرکز میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کی مداخلت بڑھتی جار ہی ہے ۔ بڑے بھائی کی طرح، جو اب ورزش نہیں کرتے اور ڈپریشن کا شکار ہو کر خوش خوراکی پہ اور بھی زیادہ مائل ہیں ، چھوٹے بھائی کی صحت بھی جواب دے چکی ۔ حکم چلانے کی تمنّا مگر ایسی ظالم ہوتی ہے کہ دم لینے نہیں دیتی ؎
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
اسد اللہ خان غالب ؔ کے لیے معالج نے بادہ نوشی خطرناک قرار دی مگر وہ مصر رہے ۔ اس پر طبیب نے کہا کہ سوا تولے روزانہ سے زیادہ نہیں۔ عادت کی غلامی کہ اس پر اکتفا کیا ، حالانکہ مسلک مختلف تھا ؎
مے سے غرض نشاط ہے، کس روسیاہ کو
یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
الکحل کا تو ذکر ہی کیا ، شاعر چنے کی دال کا عادی تھا ۔ گوشت ، سبزی یا کوئی دوسری دال اس میں لازماً شامل کی جاتی ۔ بہو نے اعتراض کیا تو بولے : ہم اپنا چلن نہیں بدل سکتے ۔ ان کے لیے الگ سے پکوایا جاسکتاہے ۔
پنجاب کو وزیراعلیٰ نے عملاً حمزہ شہباز اور ڈاکٹر توقیر پر چھو ڑ دیا ہے ۔ یوں نئے مسائل پھوٹ پڑے ہیں۔ حمزہ کم کوش نہیں۔ ذہین آدمی ہیں اور متحرک بھی ۔پیچیدگی مگر یہ ہے کہ جس کا اختیار نہیں ، تجربہ نہیں ،معاملات اسے کیونکر سونپے جا سکتے ہیں۔ نون لیگ کے لیڈر ، ارکانِ اسمبلی ، صوبائی اور وفاقی وزرا اس پر نا خوش ہیں... اور اس نا خوشی کا کوئی علاج نہیں ۔
ارادہ تھا کہ پختون خوا میں تحریکِ انصاف کی کارکردگی اور کراچی میں کامیاب آپریشن سے پریشانی کا شکار جناب الطاف حسین کے بیانات کا جائزہ بھی لیا جائے ۔ اس سوال سے بحث کی جائے کہ ہمارے لیڈر اس قدر ناعاقبت اندیش کیوں ہیں ۔ بات مگر طویل ہو گئی ۔
کوئی جائے اور جا کر وزیر اعظم کوبتائے کہ حالات حکمرانوں کی آرزومیں نہیں ڈھلتے۔ اْسے ڈھلنا پڑتاہے۔ اُسی کو سمجھنا ہوتا ہے، اُسی کو بروئے کار آنا ہوتاہے۔