تاریخ کا سبق یہ ہے کہ باقی وہی بچتا ہے‘ جس کا جواز موجود ہو‘ وگرنہ موت کے گھاٹ اترتا ہے۔ یہ قدرت کا قانون ہے اور کبھی بدل نہیں سکتا۔
اس بار یہ طلبہ تنظیموں کے حوالے سے ہوا اور تجزیہ نگار ہمیشہ کی طرح سرسری طور پر اسے نمٹا کر آگے بڑھ گئے۔ اس بات پر ہمیشہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کو شائستہ اور مضبوط جمہوری خطوط پر استوار کرنے کی اہمیت کو کیوں اُجاگر نہیں کیا جاتا۔ پھر میر تقی میر یاد آتے ہیں ؎
سرسری ہم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا، جہان دیگر تھا
جمہوریت کا بنیادی ادارہ پارلیمنٹ نہیں‘ پارٹیاں ہیں‘ جن کی ذمہ داری ہے کہ عوام کی سیاسی تربیت کریں۔ ان کے مسائل سے آگاہ ہوں اور ان میں شعور پیدا کریں کہ ترجیحات کیسے مرتب کی جاتی ہیں۔ تاریخ ساز نیلسن منڈیلا کی وفات کے ہنگام‘ ان کی غیر معمولی شخصیت اور کارناموں کا فطری طور پر بہت چرچا ہے۔ جن لوگوں نے ان کی سوانح حیات کا مطالعہ کیا ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ آنجہانی اپنی ذات کی بجائے‘ مسلسل اس جماعت کا ذکر کرتے ہیں‘ جس کے پلیٹ فارم سے انہوں نے آزادی کی جنگ لڑی۔ قائداعظم کا طریق بھی یہی تھا۔ وہ ایک نادرِروزگار ہستی تھے۔ ایسی مسلّمہ دیانت اور بصیرت کے حامل کہ جب وہ کانگرس سے وابستہ تھے تو ان کے نام پر بمبئی میں ایک ہال تعمیر کیا گیا۔ سروجنی نائیڈو سمیت کتنی ہی غیر متعصب شخصیات نے انہیں نمونے کی شخصیت‘
رول ماڈل کہا۔ تین باتیں ان کے بارے میں وثوق سے کہی جا سکتی ہیں۔ عمر بھر انہوں نے کوئی پیمان نہ توڑا‘ کبھی جھوٹ نہ بولا اور کبھی ان پر خیانت کا الزام عائد نہ کیا گیا۔ معاشرے کی تقسیم اور تعصبات سے بالا‘ وہ ایک ایسے لیڈر تھے‘ جنہوں نے عمر بھر کبھی عوامی مقبولیت کی پروا نہ کی۔ انگریز حکمران تو ان کے مخالف تھے ہی۔ ہر وائسرائے کو ان سے سرد مہری کا گلہ ہوتا۔ حریف کانگرس بھی لیکن ان سے زیادہ مسلم برصغیر کے کٹھ ملا اور ملحد۔ با ایں ہمہ 1946ء کے عام انتخابات میں مسلمانوں کے لیے مخصوص 92 سیٹوں میں سے 87 انہوں نے جیت لیں۔ اس کے باوجود کہ ابوالکلام آزاد‘ عبدالغفار خان‘ مولانا حسین احمد مدنی اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری ایسی ممتاز اور معتبر شخصیات ان کے خلاف تھیں‘ قائداعظم کی مسلم لیگ نے پاکستان کے نعرے پر 75.5 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ ان کی تقاریر‘ خطوط اور بیانات کا مطالعہ کرتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو اپنی طرف کبھی دعوت نہ دی۔ کبھی اپنے کسی کارنامے کا ذکر نہ کیا۔ قوم کو ہمیشہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی دعوت دی۔ ہرچند کہ پنجاب مسلم لیگ کی تشکیل پر‘ قائداعظم سے ان کے اختلافات تھے‘ زندگی کے آخری برسوں میں علامہ اقبال کو ہمیشہ اس پر اصرار ہوتا کہ مسلمانوں کی تمام پارٹیوں کو اپنا وجود ختم کر کے مسلم لیگ میں ضم ہو جانا چاہیے تاکہ مقابل
کانگرس اور انگریز حکمرانوں سے مضبوط پوزیشن میں بات کر سکے۔
مسلم برصغیر کا مرض احساسِ عدم تحفظ ہے۔ دکھاوا اور اسراف اسی سے جنم لیتا ہے اور کمتری کا احساس بھی۔ شخصیت پرستی بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ مساجد میں خطیب‘ مسلم تاریخ کی نامور شخصیات کے واقعات دُہراتے ہیں۔ دانشور ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ اچھی قیادت سے محرومی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
سامنے کی بات یہ ہے کہ غیر معمولی رہنما‘ قدرت کا انعام ہوتے ہیں جو کسی معاشرے کو عطا کیے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا کوئی لیڈر موجود نہ ہو تو کیا قوم کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ رہنا چاہیے۔ مغرب میں بھی آج کوئی چرچل‘ ڈیگال اور روزویلٹ موجود نہیں۔ اس کے باوجود ہر کہیں‘ کاروبارِ حکومت کیا سلیقہ مندی کے ساتھ جاری نہیں؟
جماعت اسلامی کے سوا ملک کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیاں شخصیات کی اسیر ہیں۔ ایم کیو ایم الطاف حسین کا دوسرا نام ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کا مطلب ہے‘ مولانا فضل الرحمن۔ ایک صدی سے اے این پی کی قیادت پر باچا خان کا خاندان مسلّط ہے۔ تحریک انصاف عمران خان کی شخصیت سے پہچانی جاتی ہے۔ بھٹو سے رہائی پا کر‘ پیپلز پارٹی اب زرداری خاندان کی ملکیت ہے۔ نون لیگ میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ شریف خاندان کے سوا بھی کوئی رہنمائی کے منصب پر فائز ہو سکتا ہے۔ اگر نوازشریف نہیں تو شہباز شریف۔ وہ بھی نہیں تو حمزہ شہباز یا مریم نواز۔ ع
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
طویل عرصے کے بعد‘ تحریک انصاف کی صورت میں ایک ایسی پارٹی ابھر آئی تھی‘ جو نمائندہ قومی جماعت کے سانچے میں ڈھل سکتی تھی۔ عمران خان کی ذاتی ساکھ غیر معمولی تھی۔ ان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا تھا اور دیانت کا بھی۔ افسوس کہ آکسفوڈ یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس کی ڈگری رکھنے والا آدمی خود پسندی اور خوشامدیوں کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔ لاکھوں پُرجوش اور باوفا کارکنوں کی تائید اسے حاصل ہے۔
اکتوبر 2011ء میں لاہور کے تاریخی جلسے کے بعد عمران خان غلطی پر غلطی کرتے رہے‘ جب یہ ملک کی مقبول ترین جماعت تھی۔ مغربی یورپ اور امریکہ کی طرح‘ جنہوں نے سوشلسٹ تحریک کے بعد‘ محنت کشوں کو قدرے تحفظ دے کر‘ تاریخ سے سبق سیکھا۔ عمران خان کی مقبولیت سے اصل فائدہ نوازشریف نے اٹھایا۔ سیاسی تجربے کی بدولت انہوں نے حقائق کا ادراک کیا اور پارٹی کو ازسرِنو متحرک کیا۔ نوجوانوں پر توجہ مرکوز کی۔ ہر قابلِ ذکر سیاسی شخصیت سے رابطہ کیا۔ تاجروں اور صنعت کاروں سے مراسم بڑھائے۔ فوجی قیادت سے تلخی کم کی اور بیرون ملک روابط استوار کیے۔ اس وقت جب ساری توجہ موزوں امیدواروں کے انتخاب پر ہونی چاہیے تھی‘ عمران خان نے پورا ایک برس پارٹی کے الیکشن پر ضائع کردیا۔ یہ انتخابات نہایت بھدے انداز میں ہوئے اور اس میں بدترین لوگ اقتدار میں آ گئے۔ بعض ایسے لوگوں کو اسمبلیوں کے ٹکٹ دیئے گئے جو کونسلر بھی منتخب نہ ہو سکتے۔ ایسے کہ جس کی حمایت کریں‘ وہ نامقبول ہو جائے۔ سپریم کورٹ سے حکم صادر ہونے کے باوجود‘ سمندر پار پاکستانیوں کا حقِ رائے دہی بروئے کار نہ آ سکا۔ ان میں سے 80 فیصد تحریک انصاف کے ووٹر تھے۔ پولنگ ایجنٹوں تک کا تقرر نہ ہو سکا‘ چنانچہ دھاندلی پر تُلی ہوئی نون لیگ نے پنجاب میں اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یاد رہے کہ جب میں نے کپتان کو لاہور میں‘ جماعت اسلامی کے لیے دو سیٹیں چھوڑ دینے کا مشورہ دیا تو اس نے بے بسی سے سر ہلایا اور کہا: ہمارے امیدوار مانیں گے نہیں۔ تنظیم جب نہ ہو لیڈر کی من مانی ہوتی ہے یا خود سری‘ حتیٰ کہ عمران خان ایسا کپتان بے بس ہو جاتا ہے۔
اگر تین بڑی پارٹیوں کی یہی حالت رہی تو ایک نئی جماعت وجود میں آئے گی۔ جب یہ بات عرض کرتا ہوں تو گمان کیا جاتا ہے کہ یہ اخبار نویس کی آرزو ہے۔ آرزو کیا؟ اس کاروبار سے مجھے کیا؟ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ باقی وہی بچتا ہے‘ جس کا جواز موجود ہو‘ وگرنہ موت کے گھاٹ اترتا ہے۔ یہ قدرت کا قانون ہے اور کبھی بدل نہیں سکتا۔