کیا یہ ملک ہمارا گھر نہیں؟ اپنی اپنی پارٹیاں اپنے اپنے مفادات‘ لیکن کشتی اگر بھنور میں پھنس گئی؟ بدترین مسافر وہ ہوتے ہیں جو ایسے میں مسخرے پن پہ اُتر آئیں۔
تحریکِ انصاف نے اپنا احتجاج رقم کردیا۔ مؤقف واضح‘ دبائو پیدا۔ اب سمیٹ دیجے۔ پاک ایران پائپ لائن سے امریکہ اگر ناخوش ہے تو اس کی ناراضی شاید گوارا کی جا سکتی ہے۔ بھارت کی بھی‘ جو چاہتا ہے کہ پاک ایران مراسم بگڑتے چلے جائیں۔ مشکل یہ ہے کہ عرب بھی ناراض۔ لہٰذا وہ سب وسطی ایشیا کے لیے ایرانی سرزمین استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ایران امریکہ مکالمے سے اس کام کے لیے فضا سازگار ہوتی جائے گی‘ بھارت جس پر بڑی سرمایہ کاری کر چکا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ستر فیصد افغان تجارت ایران کی طرف منتقل ہو چکی۔ نقصان ہمارا ہے۔ حریف کو زک پہنچانے کے لیے خود اپنی بربادی کا سامان نہ کرنا چاہیے۔ خبر یہ تھی کہ یورپی سفیروں کے ساتھ عمران خان سختی سے پیش آئے۔ ایک روایت کے مطابق یہاں تک کہہ دیا کہ فرض کیجیے ڈرون حملوں کی طرح‘ اگر ہم آپ کے لوگوں کو قتل کرنا شروع کردیں تو؟
استعمار کے پنجوں سے آزادی مطلوب ہے۔ اس پر ایجنٹوں کے سوا سبھی متفق ہوں گے مگر یہ ایک دیرپا منصوبے کی بنیاد ہی پر ممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ معیشت کی آزادی اور فروغ سے۔ سیاسی مقابلہ داخلی عنوانات پہ ہوتا ہے۔ خارجہ پالیسی ایک کم از کم قومی اتفاق رائے کا مطالبہ کرتی ہے۔ ارشاد محمود نے‘ کل ایک اہم واقعے کا ذکر کیا۔ ایوانِ اقتدار سے رخصت ہوتے ہوئے اٹل بہاری واجپائی منموہن سنگھ کے لیے ایک چار نکاتی ایجنڈا چھوڑ گئے۔ ایک ذاتی خط بھی کہ فلاں اور فلاں منصوبے کو برقرار رکھنا‘ بھارت کے مفاد میں ہے۔ چار میں سے تین مشوروں کو نئے وزیراعظم نے قبول کر لیا۔
ملک ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ حریف نے
ہماری تزویراتی قوت کو کمزوری میں بدل دیا ہے۔ ہم اگر دانا ہیں تو ہمیں ان کے عزائم کو سمجھنا چاہیے۔ پاکستان‘ وسطی ایشیا اور افغانستان کا دروازہ ہے‘ بھارت‘ ایران اور چین کا بھی۔ ایران اور افغانستان کو ہماری ضرورت ہے اور ہمیں ان کی۔ ہندوستان وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کے لیے پاکستان کا مرہونِ منت ہے۔ رہا چین تو اگر ریل اور سڑک کے ذریعے بحیرۂ عرب سے چینی سرحد تک کشادہ راستے تعمیر ہو جائیں تو ہمارے دوست ملک کو اربوں ڈالر کی بچت ہوگی۔ وسطی ایشیا کے ممالک کو بھی کہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے مقابلے میں گوادر سے یہ فاصلہ سولہ گھنٹے کم ہے۔ جن لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ تجارتی شاہراہ‘ خود پاکستان کے مفاد میں ہے‘ انہیں ملحوظ رکھنا چاہیے کہ چودہ سو برس پہلے ختم المرسلینؐ نے مکہ کے ساتھ تجارت برقرار رکھی تھی۔ ان سے زیادہ کوئی ستایا نہ گیا اور قریش سے زیادہ کوئی بے رحم نہ تھا۔ مسلمان ہو جانے والے نجد کے سردار نے مکہ کو گندم کی ترسیل روکی تو اللہ کے رسولؐ نے اسے منع کردیا۔ قحط پڑا تو پانچ سو اشرفیاں بھیجیں۔ آپؐ کے فرامین میں سے ایک ہے: الدین النصیحہ۔ دین خیر خواہی ہے۔ دوسروں کی‘ اپنی بھی۔ مثبت اندازِ فکر۔ جنگ سیاسی ہو‘ نفسیاتی یا اسلحی۔ حریف کو تباہ کرنے کی خاطر نہیں بلکہ ظلم کا خاتمہ کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ سیاسی اور عسکری بالاتری بھی اخلاقی برتری سے ممکن ہے‘ فتح مکہ کے بعد وہ سب معاف کر دیئے گئے جو تاریخ انسانی میں بدترین سفاکی اور بے رحمی کے مرتکب تھے۔ خوف اور کمزوری نہیں‘ بہادر کا رویہ عالی ظرفی کا ہوتا ہے۔ دنیا کے بہترین ایٹمی اور میزائل پروگرام کا حامل‘ پاکستان اب ایسا ملک نہیں‘ جسے فوجی یلغار سے زیر کیا جا سکے۔ دشمن اب ہمیں
اندر سے تباہ کرنے کی کوشش میں ہے۔ تقسیم در تقسیم کے عمل سے۔ آسانی سے ہم اس کا شکار ہو جاتے ہیں‘ خودشکنی کے مرتکب۔
سبکدوش چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا طرزِ عمل قابلِ فہم ہے‘ انہیں ہیرو بننے کا شوق تھا۔ چودھری نثار علی خان کو کیا سوجھی کہ وزارت داخلہ کو برق رفتاری سے مقدمہ مرتب کرنے کا حکم دیا۔ اگر فیصلہ یہ ہے کہ آخر کار جنرل پرویز مشرف بیرون ملک چلے جائیں گے تو کیا لائحۂ عمل مختلف نہ چاہیے تھا۔ امریکہ‘ یورپی یونین اور سعودی عرب ہی نہیں‘ جنرل کے حق میں عوامی دبائو بھی بروئے کار آئے گا۔ مقدمہ قائم کرنے کے حق سے کسی کو انکار نہیں۔ اصول یہی ہے اور قانون یہی مگر جنرل محمد ضیاء الحق کے پروردہ میاں محمد نوازشریف‘ جیسا کہ چودھری شجاعت نے جتلایا اور داد پائی کہ جنرل پرویز مشرف کے مددگار؟ ان سے بھی پہلے جنرل یحییٰ خان اور فیلڈ مارشل ایوب خان کے ہم نفس‘ ذوالفقار علی بھٹو۔ ظاہر ہے کہ یہ سب سوال عدالت میں اٹھیں گے اور معزز جج صاحبان کو ان پر رائے دینا ہوگی۔ جنرل پرویز مشرف کا احتساب ممکن تھا اور خرابی کے بغیر مگر یہ عجلت پسندی‘ مگر یہ عدل کی بجائے انتقام کی آرزو۔
زیر بحث سوال اب یہ ہے کہ کیا پاکستانی فوج‘ عسکری قیادت نہیں‘ پاک فوج اپنے سابق سربراہ کا احتساب چاہتی ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اکثریت تو نہیں۔ سول حکومت کے ساتھ تعلقات کے نقطۂ نظر سے‘ جنرل راحیل شریف سے بہتر کوئی نہ ہوتا۔ خوش قسمتی سے انہی کا انتخاب ہوا مگر وہ ایک ادارے کا حصہ ہیں۔ آخر آخر جنرل اشفاق پرویز کیانی کو اس باب میں اپنے رفقا کے ردعمل کا سامنا ہوا۔ جنرل راحیل کو بھی ہوگا۔ غیر جانبدار مبصر یہ ہرگز نہ کہیں گے کہ مشرف کو یکسر معاف کردیا جائے یا ممکنہ فوجی دبائو قبول کر لیا جائے مگر دانش بھی کوئی چیز ہے کہ نہیں۔ پرویز مشرف کی مخالفت میں نون لیگ اب اکیلی ہے۔ عمران خان کہہ چکے کہ پھانسی کی سزا تو ہرگز نہ ہونی چاہیے۔ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ ان کے مددگاروں کو کیسے کھلی چھٹی دی جا سکتی ہے۔ کیا اس کا مطلب یہ نہ ہوگا کہ وہ آئندہ بھی یہی کرتے رہیں۔
دشمن تاک میں ہے۔ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس‘ بہت پہلے سے ایک منصوبہ رکھتی ہے۔ موقع ملے تو گوادر سے کراچی تک کی پٹی کو الگ کردیا جائے۔ اسرائیل اور بھارت کے علاوہ ایک اور مغربی اڈہ۔ انگریز دنیا کے سب سے بڑے سازشی ہیں۔ برصغیر کو انہوں نے برتا ہے۔ وہ دکاندار ہیں‘ مگر بعض پاکستانی این جی اوز کے لیے وہ فیاضی کا مظاہرہ فرماتے ہیں‘ فروغِ تعلیم اور بعض میڈیا گروپوں کے لیے۔ پاکستانی لیڈروں کو لندن میں وہ پناہ دیتے ہیں اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی۔ باغی بلوچ سرداروں کے وہ مربی ہیں۔ آخر کیوں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے المناک قتل پر سندھ میں آگ ایم آئی سکس کے ایجنٹوں نے بھڑکائی تھی۔ پیپلز پارٹی کے کارکن بعد میںشامل ہوئے۔ آصف علی زرداری نے ''پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگا کر صورتِ حال کو سنبھالا۔ اللہ کا شکر ہے کہ کراچی میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہونے کے امکانات بڑھے ہیں۔ بلوچستان میں قوم پرست حکومت میں ہیں اور اپنا مستقبل انہوں نے پاکستان کے ساتھ وابستہ کر لیا۔ پرامن بلدیاتی الیکشن ہوئے۔ کرپشن میں کمی آئی۔ اگر تھل کینال اور زلزلے کا شکار اواران کے علاوہ سڑکوں کی تعمیر کے لیے اسلام آباد اور جی ایچ کیو ان کی مدد کرے تو حیرت انگیز نتائج نکل سکتے ہیں۔ پاک فوج میں دس ہزار بلوچوں کی شمولیت ایک کارنامہ ہے۔ سندھیوں کا تناسب بھی بڑھنا چاہیے۔ بلوچ بہترین سپاہی ثابت ہوئے ہیں۔ سندھی توقعات سے بہتر نکلے۔ افسوس کہ اس موقع پر الطاف حسین نے سندھ ون اور سندھ ٹو کا شوشہ چھوڑ دیا۔ بلدیاتی اداروں کے باب میں ان کی ناراضی بجا‘ مگر ایسا طرزِ عمل؟ ان کے مشیر ناقص ہیں۔ عوامی ردعمل شدید ہے۔ پرویز مشرف کی اگر انہیں حمایت کرنی تھی تو چودھری شجاعت کی طرح زیادہ بہتر دلائل موجود تھے۔ مہاجر عصبیت کا کیا سوال۔ کیا میاں محمد نوازشریف اپنے پنجابی حریفوں کے ساتھ نرمی کیا کرتے ہیں؟ کیا خود پنجاب اور دوسرے صوبوں سے جنرل کے حق میں آواز نہ اٹھی۔ ان کی حماقتیں مگر بے شمار ہیں۔ فقط مارشل لاء نہیں‘ بلوچوں کو دھمکیاں۔ احمقانہ سیکولرازم کی وکالت۔ مذہبی احکامات‘ حتیٰ کہ جنرل شاہد کے بقول احادیث تک کا مذاق۔ سفید جھوٹ یہ ہے کہ فوجی قیادت کے ایما پر وہ ہسپتال لے جائے گئے اور اس خرافات پر جنرل ناراض ہیں۔ مری روڈ کے راستے وہ آئے اور وہاں رینجرز نہیں تھے۔ فیصلہ جنرل نے خود کیا۔ پولیس کے ایس پی نے ڈی آئی جی اور اس نے وزیر داخلہ سے پوچھا۔ باقی سب افسانہ۔ افواہیں پھیلانے والا ایک سابق وزیراعلیٰ ہے اور شریف خاندان کی سرپرستی اس شخص کو حاصل ہے۔ خدا کا شکر ہے خواجہ آصف سمیت ن لیگ کے لیڈر محتاط رہے اور عسکری قیادت بھی۔
کیا یہ ملک ہمارا گھر نہیں؟ اپنی اپنی پارٹیاں اپنے اپنے مفادات‘ لیکن کشتی اگر بھنور میں پھنس گئی؟ بدترین مسافر وہ ہوتے ہیں جو ایسے میں مسخرے پن پہ اُتر آئیں۔