حسنِ نیت کی اللہ سے دعا مانگنی چاہیے۔ دل چھوٹا کیوں کریں؟ جو کچھ کسی نے بویا ہے، وہی اسے کاٹنا ہے۔ کیسا گمان اور کیسا اندیشہ۔ کتاب کی گواہی موجود ہے: لیس للانسان الّا ما سعیٰ۔ انسان کے لیے وہی کچھ، جس کی اس نے کوشش کی۔
حفیظ اللہ خان کا شکریہ کہ تحریکِ انصاف کے بعض لیڈروں کی بدمذاقی پر انہوں نے احتجاج کیا۔ سترہ برس تک کس طرح ڈٹ کر میں نے ان کا ساتھ دیا اور اب وہ اس کا صلہ دے رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک موقع پر رئوف کلاسرا جب آزردہ ہوئے تو عرض کیا تھا: میری فکر نہ پالا کرو، ممکن اور موزوں ہو تو معاف کر دیتا ہوں اور حساب کرنا ہو تو حساب کر لیا جاتا ہے۔ حفیظ اللہ خاں سے بھی گزارش یہی ہے کہ غالب ؔ کو یاد رکھا کریں۔
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم
ایک پارٹی کو مظلوم سمجھ کر اعانت کی۔ کردار کشی کی کوئی مہم برپا ہوئی تو ان کا دفاع کیا۔ آج اگر عمران خان مجھے گالی دینے والوں کی سرپرستی فرماتے ہیں تو یہ ان کے ذوق اور ضمیر پر ہے۔ تحریک انصاف اب میرے لیے دوسری پارٹیوں ایسی ایک پارٹی ہے۔ غلطی کریں تو نشان دہی کی جسارت کریں گے۔ خدمت انجام دیں تو انشاء اللہ فراخ دلی سے تحسین۔ اخبار نویس نہ ہوتا تو بخدا میں ان لوگوں کا ذکر کرنا بھی گوارا نہ کرتا۔
مایوسی کے بعد پہلا معرکہ وہ تھا، جب ایک متنازعہ آدمی پنجاب کا نگران وزیرِ اعلیٰ بنایا گیا۔ پارٹی کے رہنمائوں نے اسے قبول کر لیا
مگر خاکسار نے ہرگز نہیں۔ آنجناب نے ملاقات کی خواہش کی تو معذرت کر لی۔ ان کے بارے میں شکوک و شبہات درست ثابت ہوئے۔ 35 پنکچر تو ابھی کل کی بات ہے، الیکشن کے فوراً بعد میں لاہور پہنچا۔ تحقیق کی تو لکھّا کہ دھاندلی پولیس اور ریٹرننگ افسروں کے بل پر ہوئی۔ عرض کیا تھا کہ ان کی اہلیہ محترمہ سے قومی اسمبلی کے ٹکٹ کا وعدہ ہے۔ بات کھل جانے پر ایسا ہو نہ سکا۔ اب وہ محترمہ مریم نواز کی اتالیق ہیں اور سینیٹر بننے کی آرزومند۔ تحریکِ انصاف نے تب انہیں گوارا کیا اور سب جانتے ہیں کہ کس کے مشورے پر۔ سب جانتے ہیں کہ ان صاحب کا مفاد اور مدّعا کیا تھا۔
الیکشن سے پہلے نون لیگ کے امیدواروں کی مرضی کے مطابق پولیس افسر تعینات ہوئے۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل دونوں حکمران جماعتوں کی ملّی بھگت سے ہوئی۔ ان سب چیزوں کی نشان دہی الیکشن سے قبل ہی کر دی تھی۔ ریٹرننگ افسروں کی ایک قابلِ ذکر تعداد دھاندلی میں شریک ہوئی اور اس کے لیے لاہور میں ایک سیل بنایا گیا۔ نگران وزیرِ اعلیٰ منصوبے کا حصہ تھے۔ لاہور میں تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک دوست کی کامیابی انہوں نے یقینی بنائی اور عمران خان کی ناکامی بھی۔ تبھی عرض کیا تھا کہ تحریک کا ایک نسبتاً گمنام صوبائی امیدوار جس حلقے میں جیتا، اس میں عمران خان کس طرح ہا ر گئے؟
پورا ملک فخرالدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر بنانے پر فرطِ مسرّت سے دیوانہ تھا۔ ناچیز نے اختلاف کیا۔ عرض کیا کہ عالی جناب اس رزم گاہ کے ہرگز اہل نہیں۔ مالی دیانت کے قصے بھی مبالغہ آمیز ہیں۔ عمران خان ان کی تحسین میں پیش پیش تھے، خوشامدیوں کے نرغے میں۔ مجھ ایسے خیر خواہ کی بات وہ کیوں سنتے؟ اب بھی کیوں سنیں؟
الیکشن ہو چکا تو انہی کے مشورے پر کپتان نے نتائج قبول کر لیے۔ عرض کرتا اور یاد دلاتا رہا کہ دھاندلی کے خلاف مہم چلائی جائے۔ ذہنی افلاس کے مارے ان مشیروں کو ادراک نہ ہوا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ صادر ہونے کے بعد سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ یقینی ہو سکتے ہیں۔ فیصلے کے نفاذ پہ اصرار ممکن ہے۔ اپنی اپنی فکر ان لوگوں کو لاحق تھی، پارٹی کی نہیں۔
عمران خان تسلیم کرتے ہیں کہ پارٹی الیکشن بے وقت اور بے ڈھب ہوئے۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں دھاندلی ہوئی۔ انہوں نے مانا کہ 80 فیصد مقامات پر پولنگ ایجنٹ ہی موجود نہ تھے۔ ناچیز نے اس کے سوا کون سا اعتراض کیا کہ الزام اور دشنام کی زد میں ہے؟ ہم تو خوگر ہیں، اسلامی جمعیت طلبہ، اے این پی، ایم کیو ایم اور ان سے زیادہ نون لیگ کو بھگت چکے۔ اب بھی انشاء اللہ کم ہمّتی کا ارتکاب نہ کریں گے۔
چشمِ نم جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشقِ پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
خاک بر سر چلو، خوں بہ داماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں‘ چلو
حاکمِ شہر بھی، مجمعِ عام بھی
دست افشاں چلو‘ مست و رقصاں چلو
صبح ناشاد بھی‘ روز ناکام بھی
ان کا دمساز اپنے سوا کون ہے
شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے
دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رختِ دل باندھ لو، دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں‘ یارو چلو
گالیاں سن لیں۔ اس کے باوجود دھاندلی کے خلاف تحریکِ انصاف کی جدوجہد میں یہ اخبار نویس اس کے ساتھ رہے گا۔ پٹوار کا ادارہ انہوں نے درست کیا تو حرفِ تحسین کس نے کہا؟ پولیس اور ہسپتال بہتر بنائے تو کس نے ذکر کیا؟ اب شجر کاری کی مہم ہے تو اس میں بھی اللہ انہیں برکت دے۔ ان کی حکومت اکھاڑ پھینکنے کی کوشش ہوئی تو انشاء اللہ ڈٹ کر اصول کی یاد دہانی کرائی جائے گی۔
دہشت گردی پر ان کا موقف غلط ہے اور یکسر غلط۔ پارٹی کے مالی معاملات ہرگز شفاف نہیں اور اس کے لیڈروں میں ایسے ہیں، کوئی شریف آدمی جنہیں گوارا نہ کرے گا۔ پارٹی کو تنظیمِ نو کی ضرورت ہے اور جدید انتخابات کی۔ اگر وہ اپنی اصلاح پر آمادہ ہوں تو ان کی تائید کی جائے گی۔ غلطی پر تلے رہے تو نشان دہی۔ ہمارا کام یہی ہے۔ اللہ کے فضل سے کوئی مفاد پہلے وابستہ تھا اور نہ اب ہے۔
حفیظ اللہ غصہ تھوک دیں۔ خاندان کا قضیہ ہے، اخبار سے گریز چاہیے۔ انعام اللہ خان اور حفیظ اللہ خان غصے میں آ گئے۔ نزاکتوں کا خیال نہ رکھا۔ عمران خان دانا ہوتے تو خالی ہونے والی کسی نشست کا انعام اللہ سے وعدہ کرتے۔ کالا باغ خاندان کی دخترِ نیک اختر عائلہ ملک کو ان پر ترجیح نہ دیتے۔ خیر اس کا اجر انہوں نے پا لیا۔ ہر کوئی پا لیتا ہے۔ گل بادشاہ کو پشاور پر سوار کرنے کی قیمت چکائی۔ سفلوں اور سفلہ پروروں کی سرپرستی کے دام بھی دینا ہوں گے۔
حسنِ نیت کی اللہ سے دعا مانگنی چاہیے۔ دل چھوٹا کیوں کریں؟ جو کچھ کسی نے بویا ہے، وہی اسے کاٹنا ہے۔ کیسا گمان اور کیسا اندیشہ۔ کتاب کی گواہی موجود ہے: لیس للانسان الّا ما سعیٰ۔ انسان کے لیے وہی کچھ، جس کی اس نے کوشش کی۔