وزیراعظم فیصلہ نہ کریں گے تو حالات کریں گے ۔ کوئی اور کرے گا۔ ایک دن چیختی ہوئی پوری قوم سڑکوں پہ ہوگی ۔
مٹ جائے گی مخلوق توا نصاف کرو گے
منصف ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
خواہشات کی پیروی اور امیدوں کی درازی ، دو چیزیں ہیں ، جو آدمی کو برباد کرتی ہیں ۔ یہ سرکارؐ کا فرمان ہے اور پوری انسانی تاریخ کا تجربہ۔ آدمی کو ، خاندان ، قوم اور قبیلے کو۔
مسئلے کا سامنا کرنا ہوتاہے ۔ فیصلہ کرنا پڑتاہے ۔ آئزن ہاور کا یہ قول ہمیشہ دہرایا جاتاہے کہ گاہے گریز غلط فیصلے سے بھی زیادہ خطرناک ہوتاہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور کوئی اقدام اس لیے نہیںہو سکتا کہ وزیراعظم اور ان کا خاندان تذبذب کا شکار ہے ۔ شعلوں میں گھرے ہمارے گھروں کے افق پر ایک نہیں ، آج کئی نیرو بانسری بجاتے ہیں ۔
پارٹی میں کپتان کو مزاحمت کا سامنا ہے ۔ وہ مزاحمت نہیں کر سکتے ۔ مولانا فضل الرحمن، سمیع الحق اور سیّد منور حسن بھی نہیں ۔ رہی سرکاری کمیٹی تو وہ اپنی افادیت کھو چکی۔ زیادہ سے زیادہ وہ جعلی سی جنگ بندی تک لے جا سکتی تھی ۔ مذاکرات ہوتے رہے اور قتلِ عام ، جنگ بندی کا اعلان ہوا اور فوراً ہی اس کی خلاف ورزی بھی ۔ طالبان کی تردید ؟ بار بار یہ دعویٰ انہوں نے کیا کہ طالبان دستور کو تسلیم کرتے ہیں ؛حتیٰ کہ شاہد اللہ شاہد نے اعلان جاری کر دیاکہ ہم نہیں مانتے۔ مولانا سمیع الحق کی تمام کوششوں کا حاصل یہ ہے کہ طالبان کی پوزیشن مضبوط بنائی جائے ۔ ریاست کے باغیوں کو برابر کے ایک فریق کا درجہ وہ دیتے ہیں اور اسلام کے مقدس شارحین کا ۔ یہاں تک تو انہوں نے کہہ دیا کہ طالبان کے لیے آزاد علاقے مہیا کیے جائیں ۔ دوسرے الفاظ میں ریاست کا اقتدار ان میں ختم کر دیا جائے ۔ تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ باغیوں کی خدمت میں ریاست کورنش بجا لائے؟
خوں ریزی کی خواہش جنونی ہی کر سکتے ہیں ۔ یہ مصالحت کا مگر کون سا طریقہ ہے کہ طالبان نے بچوں اور عورتوں کے اغوا کا افسانہ گھڑا ۔ پھر یہ کہاکہ احرار الہند ان کا ایک باغی گروہ ہے ۔ کیا عمران خان اور سمیع الحق کی یہ منطق قابلِ فہم ہے کہ تیسرے فریق نے جنگ بندی کو سبو تاژ کیا ۔ امریکہ بہادر ؟ بے شک ہزار سازشیں سی آئی اے کرتی ہے ۔ پاکستان کا دوست نہیں ، امریکہ ہمارا دشمن ہے ۔ اس سے نجات چاہیے مگر کس طرح ؟ جھوٹے الزامات لگا کر ؟ افسانے سنا کر ؟ جب آپ کہانیاں گھڑ تے ہیں تو دنیا آپ کے منہ پر دے مارتی ہے۔ ڈرون حملے انہوں نے بند کر دیے ۔ خود کش حملہ آور کیا انہوں نے خرید کر بھیجے ہیں ؟ بکائو تو ہیں ؛حتیٰ کہ بھکّر کے ایک شیعہ خاندان کو برباد کرنے کے لیے بیچے گئے ۔ امریکہ مگر یہ کیوں کرے گا ؟ آج نہیں تو کل ، کل نہیں تو پرسوں ، پانچ سال، دس برس کے بعد راز فاش ہو جائے گا۔ پھر فیصلہ کرنے والی سیاسی پارٹی کہاں کھڑی ہوگی؟ امریکہ ہے ، وہ امریکہ ، پاکستان نہیں کہ غنڈوں ، قاتلوں اور لٹیروں کو برداشت کیا جائے ۔ اخبارات میں ان کے حق میں کالم لکھے جائیں۔ ان کے ایما پر پروپیگنڈے کے طوفان
اٹھائے جائیں اور کوئی راز فاش نہ کرے ، حتیٰ کہ ملک کے غدّاروں کو مناصب سونپے جائیں ۔ انتہا یہ ہے کہ قومی پالیسیوں کی تشکیل میں ایک میڈیا گروپ کے مفادات ملحوظ رکھے جائیں ۔ ان کی سرپرستی میں کاروبار کرنے والے دندناتے پھریں ۔ وزیراعظم ممتاز شخصیات سے تحقیقات کا وعدہ کرنے کے بعد چُپ سادھ لیں ۔
جس روز جنگ بندی کا اعلان ہوا،ناچیز نے ٹیلی ویژن پر فوراًکہا تھا: کوئی جنگ بندی نہیں ، بہانہ بازی ہے ، وقت حاصل کرنے کی کوشش ۔ جب مذاکرات ایسے لوگوں کو سونپ دیے جائیں گے تو نتیجہ معلوم ۔ جو لوگ محلّے کے دو لڑکوں میں مصالحت نہ کرا سکیں اور جن میں سے اکثر کی ہمدردیاں ایک فریق کے ساتھ ہوں ،تاریخی ، معاشی اور مذہبی عوامل سے پیدا ہونے والے پیچیدہ اور سنگین معاملات وہ کیسے سلجھا سکتے ہیں ؟
سرکاری کمیٹی کے ارکان ایک دوسرے سے نالاں ہیں ۔ اختلاف اظہر من الشمس ہے اور وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں سامنے آیا۔ کمیٹی کے تین ارکان اسے ختم کرنے کا مطالبہ کر چکے ۔ میجر عامر اور رحیم اللہ یوسف زئی شمولیت پر آمادہ ہی نہ تھے ۔ بعد میں بھی پنڈ چھڑانے کی کوشش کرتے رہے ۔ تحریکِ انصاف کا مذاکرات میں کوئی کردار ہی نہیں ۔ بیگانی شادی میں عبد اللہ دیوانہ ۔ عمران خان اپنی پارٹی میں ریفرنڈم کرالیں ، اکثریت طالبان کی مخالف اور آپریشن کی حامی ہے ۔ مولانا فضل الرحمٰن مذاکراتی عمل کے بظاہر حامی ہیں مگر وہ بھی اسے سبوتاژ کرنے کے آرزومند ہیں۔ ٹھیکہ چاہتے ہیں ، پورا ٹھیکہ اور مولانا سمیع الحق کی چھٹی ۔ سمیع الحق حکومت کی پوزیشن کمزور کرنے کے درپے ہیں۔ 2013ء کے وسط ہی میں ، وزیراعظم نے مذاکرات کی خواہش ظاہرکی، وزیرستان میں معمول کی فوجی نقل و حرکت روک دی گئی تھی۔ جعلی جنگ بندی پر فوج نے کارروائی بند کر دی ۔ دارالحکومت پہ وہ چڑھ دوڑے۔ ''احرار الہند‘‘ یعنی ہندوستان کے حریت پسند ! کیا کہنے ، کیا کہنے ۔ کیا یہ منصوبہ ایک آدھ دن میں بنا؟ جی نہیں ، بہت دن درکار ہوتے ہیں ۔ بھاڑے کے ٹٹو اگر موجود ہیں تو بھارت یا کوئی دوسرا ان سے کیوں فائدہ نہ اٹھائے ۔
ڈاکٹر شعیب سڈل جون 1995ء میں کراچی پہنچے ۔ ڈری سہمی پولیس سے انہوں نے پوچھا تھا: چوہوں کی طرح مرنے کا ارادہ ہے یاآدمیوں کی طرح دادِ شجاعت دینے کا ؟ سات ہفتے میں بازی پلٹ گئی ۔ جرمنی کا فریڈرک میدانِ جنگ میں اترنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ اس کی سپاہ نے گریز کیا۔ گھوڑا موڑتے ہوئے ، اس نے پوچھا: Dogs! will you live for ever? کتّو ! کیا ہمیشہ تم زندہ رہو گے ؟ وہ لوٹ کر آئے۔ کنواہ میں بابر نے کہا تھا : یہاں سے کابل تک کتوں کی طرح بھاگتے اور کتوں کی طرح مرتے رہو گے۔ سلطان سنجر عکّہ کے میدانِ جنگ سے فرار ہوا تو صلاح الدین نے جتلایا کہ ہمیشہ کی روسیاہی اس کے مقدر میں لکھ دی جائے گی ۔
طالبان نے ہر جماعت کے لوگوں کو قتل کیا۔ اپنے حامی عمران خان کے کئی لیڈروں کو ، انتہا یہ ہے کہ قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمن پر حملے ہوئے ۔خدا کی قسم ، نون لیگ اور شریف خاندان کو گزند پہنچے تو اتنا ہی صدمہ ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ سبھی ہدف بنتے ہیں تو، نون والے کیوں نہیں ؟ شہباز شریف نے کیمروں کے سامنے طالبان سے درخواست کس بنیاد پر کی تھی کہ وہ پنجاب میں حملے نہ کریں ؟ باہم اگر معاہدہ نہیں تو پھر یہ طالبان اور ان کے سرپرستوں کی حکمتِ عملی ہے اور اس میں وہ کامیاب ہیں ۔ کیا شریف خاندان کو اپنا سچّا ہمدرد پاتے ہیں یا ان کے خوف سے آشنا ہیں؟ طالبان اور نون لیگ کے نظریات بہرحال مختلف ہیں۔ ایک آخری امکان یہ ہے کہ میاں صاحبان صاحبانِ صدق و صفا ہیں اور ایسے کہ بیک وقت بھارت نوازمیڈیا گروپ اور طالبان ان پر دل و جان سے نثار ہیں ۔
سو فیصد ووٹ تو قائداعظم کو بھی مل نہ سکے ۔ جتنا اتفاقِ رائے ممکن ہے ، حاصل کر لیا جائے ۔ پھر ایک جامع منصوبہ اور آغازِ کار ۔ فیصلہ سازی ہی حکمرانی اور تذبذب ہی بے وفائی ہوتی ہے ۔ وزیراعظم فیصلہ نہ کریں گے تو حالات کریں گے ۔ کوئی اور کرے گا۔ ایک دن چیختی ہوئی پوری قوم سڑکوں پہ ہوگی ۔
مٹ جائے گی مخلوق توا نصاف کرو گے
منصف ہو تو پھر حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے