اس قوم پر افسوس ، جو خود کو حکمرانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر سو جائے ۔تھر کے صحرا میں بے چار گی کی موت مرنے والوں کو دیکھو، طالبان سے کم درندے یہ بھی نہیں ۔
2002ء کے پولیس آرڈر میں چار ادارے تجویز کیے گئے۔ انسان دوست بنانے کے لیے۔ ایک کے بعد دوسری حکومت نے انہیں برباد کیا۔ پرویز مشرف نے 2002ء اور 2008ء کا الیکشن جیتنے کے لیے ۔ شہباز شریف نے آہنی ہاتھ سے حکومت کرنے اور 2013ء میں بہرحال ظفر مندی کی خاطر۔
اب اسلام آباد میں رینجرز تعینات کرنے کا ارادہ ہے ۔ کراچی میں پہلے ہی۔ کوئٹہ ایف سی کے سپرد۔ اگر لاہور اور پشاور میں بھی یہی ہوا تو نتیجہ کیا ہوگا؟ مارشل لا اسی طرح لگتے ہیں ۔
پولیس شہری رابطہ کمیٹی ہی کو لیجئے، 1990ء میں جو کراچی میں تشکیل پائی تھی ۔ فخر الدین جی ابراہیم گورنر تھے۔ نیک نام جمیل یوسف کو انہوں نے ایک تھانہ کمیٹی سے اٹھا کر پورا کراچی سونپ دیا۔ معین الدین حیدر، محمود ہارون ، حکیم سعید اور موجودہ صدر ممنون حسین کے ساتھ بھی انہوں نے کام کیا۔ صرف دہشت گردی اور اغوا برائے تاوان کے پانچ سو مجرم ان کی مدد سے پکڑے گئے ۔نیک نامی ایسی تھی کہ انہیں اپنے دفاتر میں ایف آئی آر درج کرنے کا اختیار دے دیا گیا۔ جمیل یوسف بہادر اور لائق منتظم کے طور پر ابھرے۔ 2013ء میں میاں نواز شریف نے انہیں سندھ کا گورنر بنانے کا ارادہ کیا۔ چند سال قبل ، اچانک وہ کیوں ہٹا دیے گئے ؟ ایم کیو ایم کی خدمتِ خلق کمیٹی کے احمد چنائے کو منصب سونپنے کے لیے ۔
جب تک پولیس سیاست سے آزاد نہیں ہوتی ، اس کی تشکیلِ نو ممکن نہیں۔ کراچی میں اسامیاں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں بٹتی رہیں ، پھر سپریم کورٹ روئی کہ چار پارٹیاں بھتہ وصول کرتی ہیں ۔ جب تک جمیل یوسف بروئے کار تھے ، شہریوں کی طرف سے معلومات کی فراہمی کا ایک رواں سلسلہ تھا۔ احمد چنائے پر کون اعتماد کرے؟
چالیس برس ہوتے ہیں ، ایک ممتاز معالج سے پوچھا : عادات اچھی، مزاج مرتّب ، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی صحت یاب کیوں نہیں ؟ کہا : دردکش گولیاں کھاتے رہتے ہیں۔ حکومت بھی یہی کرتی ہے۔
پولیس آرڈر 2002ء کے تحت ایسی کمیٹیاں ملک بھر میں بنتیں۔ کیوں نہ بن سکیں ؟ گوجرانوالہ میں غنڈہ راج ختم کرنے والے ذوالفقار چیمہ اور پنجاب پولیس کے بہترین افسر احسان صادق شہباز شریف کے زیرِ عتاب کیوں آئے؟
نیشنل پولیس بیورو کا فرض تحقیق ہے ، تربیت، سازوسامان اور جدید آلات کے لیے معیار کا تعین کرنا ہوتا ہے اور خریداری کی نگرانی۔ خوفناک دہشت گردی کے ہنگام، سکینرز اور بلٹ پروف جیکٹس کی خریداری میں رحمٰن ملک اور اے این پی نے بے دردی سے مال کھایا ۔ کبھی کسی نے ان سے پوچھا؟ ڈیرہ اسمٰعیل خان جیل پر حملے کے دوران اگر پانچ گولیاں ہی فائر ہوئیں۔ اگر اسلام آباد کچہری میں پولیس والے بطخیں بن کر بیٹھے رہے تواسباب کیا ہیں؟ صرف یہ نہیں کہ آئی جی اور ایس ایس پی
میں بول چال بند ہے ۔ پولیس حکومت کی سوتیلی اولاد ہے ۔ سہالہ تھانہ میں ، جس کی میں رعایا ہوں ، اکثر پولیس والے تین قبضہ گروپوں کے کارندے ہیں ۔ 2006ء میں ایک گروپ نے ناچیز کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تو دو کانسٹیبل مقرر ہوئے ۔ میں نے واپس کر دیے ۔ اگر وہ انہی کے کارندہ ہوں؟
جنرل کیانی نے تین صوبوں کو پانچ پانچ ہزار سب مشین گنیں دیں ، تربیت کی پیشکش بھی ۔ 2010ء میں پشاور سے نقل مکانی کی خبر ہوئی ۔ بے تاب نہ ہونے والے آدمی نے وہیں سے چلّا کر کہا ''فیصل! میرا ہیلی کاپٹر لگائو‘‘۔ آصف علی زرداری ، یوسف رضا گیلانی یا اس عجیب و غریب وزیرا علیٰ حیدر ہوتی کو کیوں فکر نہ تھی ؟
معین الدین حیدر بہترین وزیر داخلہ تھے ۔ ایس ایس پی کلیم امام کو مگر ایک کمپیوٹر پروگرام کے لیے پانچ لاکھ روپے نہ دلا سکے ؛حالانکہ نیک نام افسر گاہے شب بھر میں چوری کی پندرہ بیس گاڑیاں پکڑ لیا کرتا۔ نادرا والے کہتے ہیں: زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لیے 180دن درکار ہیں ۔شہباز شریف کو کتنے برس چاہئیں؟
نیشنل پولیس مینجمنٹ بورڈ سب سے اہم ادارہ تھا ۔ تمام صوبوں کے آئی جی، ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل ، فرنٹئیر کانسٹیبلری ، انسداد منشیات فورس کے سربراہ ، چار بڑے شہروں کے پولیس چیف جس کے ممبر ۔ قانون کی حد ود میں اگر انہیں آزادیء عمل عطا ہو تو بخدا ایک د ن وہ کور کمانڈر کانفرنس ایسی قوت کے حامل ہو سکتے ۔ یہی بات طیب اردوان نے نواز شریف سے کہی تھی : فوج پر انحصار کیوں ؟ سول ادارے کیوں آپ طاقتور نہیں بناتے ؟ یہی امن کی ضمانت ہے ۔ یہی فوج کے کردار کو محدود کرنے کی۔ معلوم نہیں ، ترک وزیراعظم کے مشورے پر وہ کس قدر غور کر سکے۔ ترک ڈرامے البتہ دلچسپی سے دیکھتے ہیں ۔
الیکشن 2013ء سے تین ماہ قبل شہباز شریف نے نون لیگی لیڈروں کی پسند کے تھانیدار لگائے۔ دھاندلی ہوئی اور ڈٹ کر دھاندلی ۔
پکڑے جانے کا خوف لاحق ہوا‘ نادرا کا چیئرمین برطرف۔ آدمی اپنی ترجیحات کو عزیز رکھتا ہے ۔
نیشنل پبلک سیفٹی کمیشن بنا تو قانون کے مطابق اہم ترین ممبر چنے گئے ۔ فیصل صالح حیات ، آفتاب احمد خاں شیرپائو ، سابق آئی جی عباس خاں ، سابق چیف سیکرٹری سکندر جمال ، مولانا عبد الغفور حیدری ۔ ایم این اے غلام رسول ساہی اور ایک خاتون رکنِ قومی اسمبلی۔ ہرماہ اس کا اجلاس ہوا کرتا۔ برطانیہ کے دورے پر تھے تو یہ اجلاس لندن کی ایک بس میں ہوا ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں امن و امان کی صورتِ حال اسی لیے قدرے بہتر تھی وگرنہ دہشت گردی کا مسئلہ تو اتنا ہی سنگین تھا۔
یہ 1991ء تھا ، پنجاب میں ڈکیتیوں کی لہر اٹھی تو آئی جی چوہدری سردار نے گورنر ہائوس کے ایک اجلاس میں بارہ ارب مزید مانگے ۔ میاں نواز شریف نے معاملہ اختلاف کرنے والے گورنر میاں محمد اظہر کے حوالے کر دیا۔ تین ماہ میں سینکڑوں ڈاکو اور ان کے سرپرست گرفتار کر لیے گئے ۔ امن بحال ہو گیا مگر وزیر اعلیٰ حیدر وائیں رو دیے : میری کوئی حیثیت ہی نہیں ۔ جرم بے شک پنپتا رہے ، حیثیت متاثر نہ ہونی چاہیے ۔ ایوب خان بھٹو پر سرکاری ٹریکٹر استعمال کرنے اور بھٹو صاحب چوہدری ظہور الٰہی پر بھینس چوری کا مقدمہ ورنہ کیسے بنا سکتے ؟
پانچ ارب سے سندھ میں بلاول بھٹو کے لیے میلے ٹھیلے جاری تھے ۔شاید کہیں زیادہ سرمایے کے ساتھ پنجاب میں حمزہ شہباز کے لیے نوجوانوں کے جشن، جب تھر میں رلا دینے والا قحط پڑا۔ ٹیلی ویژن پر بچوں کے ڈھانچے دکھائے جانے تک حکومت کو خبر نہ ہو سکی ۔ سول انتظامیہ کہاں تھی ؟ آئی بی اور سپیشل برانچ؟ ساری کہانی ''دنیا‘‘ کے ادارتی صفحے پر ایک کالم نگار نے لکھ دی ہے ۔ جو ذمہ دار ہیں ، کیا انہیں شرم سے ڈوب نہ مرنا چاہیے؟ وہ تو مگر مگن ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ بس ذرا سی غفلت ہو گئی ۔ تھوڑی سی عدم توجہ !اس قوم پر افسوس ، جو خود کو حکمرانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر سو جائے ۔تھر کے صحرا میں بے چار گی کی موت مرنے والوں کو دیکھو، طالبان سے کم درندے یہ بھی نہیں۔