اللہ کے آخری رسولؐ کا ارشاد یہ ہے: برائی کو جب روکا نہ جائے گا اور بھلائی کی جب ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلط کیے جائیں گے۔ وہ تمہیں سخت ترین ایذا دیں گے اور تمہارے بہترین لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہ کی جائیں گی۔ یہی وہ لوگ ہیں۔ دیکھ لو‘ دیکھ لو‘ فرمانِ رسولؐ سے انحراف کا نتیجہ کیا ہے!
ایک ایک مجرم کی نشاندہی کر دی گئی اور ہر چیز واضح ہو گئی تو جناب آصف علی زرداری نے وزیرِ اعلیٰ قائم علی شاہ کو دبئی طلب کیا۔ کس لیے؟ ڈپٹی کمشنر کے منصب پر مخدوم امین فہیم کے صاحبزادے متمکن ہیں۔ ان کی ذ مہ داری تھی کہ وہ صوبائی حکومت کو مطلع کرتے۔ فرمایا: میں نے تو بتا دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ دفتر تشریف ہی نہ لے جاتے تھے۔ دوسرے صاحبزادے امداد پہنچانے سے متعلق وزارت پر مامور تھے۔ انہوں نے ارشاد کیا کہ وزارتِ خزانہ نے بروقت رقوم کی منظوری نہ دی، مزید یہ کہ ان کی طبیعت ناساز تھی۔
تصویر اب اس طرح بنتی ہے کہ ڈپٹی کمشنر اور وزیر صاحب کو معلوم تھا۔ ظاہر ہے کہ وزیر اعلیٰ کو انہوں نے گوش گزار کیا‘ مگر بے دلی سے‘ سرسری طور پر؛ چنانچہ وہ بھی کیوں پروا کرتے۔ یوں بھی ان کا حال شاعر سے کچھ مختلف نہیں ع
یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
عالی مرتبت کے داماد صحت کے صوبائی سیکرٹری ہیں۔ ہسپتالوں میں دوائوں کی عدم دستیابی کے وہ بھی ذمہ دار ہیں۔ معطل مگر ایس ایس پی کیے گئے۔ پولیس افسر کب سے قحط زدگان کے ذمہ دار ہو گئے؟ ڈپٹی کمشنر کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی بجائے انعام سے نوازا گیا۔ تبادلہ کر دیا گیا۔
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے ان ریمارکس کے باوجود کہ بحیثیتِ مجموعی سندھ حکومت قصوروار ہے، قائم علی شاہ ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں: بس ایک ذرا سی کوتاہی سرزد ہوئی۔ یہ بھی کہ میڈیا نے سنگینی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ یہی بات کل مشرف
لیگ اور آج نون لیگ کے لیڈر ارباب غلام رحیم کہتے ہیں۔ سابق صدر زرداری کی طرح، بیشتر وقت جو دبئی میں قیام فرمانا پسند کرتے ہیں۔ اندازِ فکر کا مسئلہ ہے یہ‘ اندازِ فکر کا۔ افتادگانِ خاک کے بے نوا بچے ان کے لیے ڈھور ڈنگروں سے بھی کم اہمیت رکھتے ہیں۔ ذوالفقار مرزا کے پالتو مگرمچھ نے کھانا کھلانے والے ملازم کا ہاتھ چبا لیا۔ اس سے پوچھا گیا کہ اب کیا ہو گا؟ بولا: کچھ بھی نہیں۔ اب دوسرا آدمی یہ ذمہ داری نبھائے گا۔ کروڑوں کا قرضہ ان کی بیگم صاحبہ نے معاف کرا لیا تھا۔ ارباب رحیم صاحب جب وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے تھر میں ساڑھے تین ہزار سکول تعمیر کرائے۔ کراچی کے تناسب کو ملحوظ رکھا جائے تو ان کی تعداد 400 سے زیادہ نہ ہونی چاہیے تھی۔ خدا جانے علم سے ایسی محبت انہیں کیسے ہوئی۔ تحقیقات ہونی چاہیے کہ کتنا سرمایہ صرف ہوا اور کس قدر لوٹ لیا گیا۔ سندھ اور بلوچستان میں سرکاری عمارات پر اٹھنے والی نصف رقم بالعموم ڈکار لی جاتی ہے۔ یہی نہیں، سکولوں کی عمارات گاہے وڈیروں کے استعمال میں رہتی ہیں۔
خوفناک بے حسی کہ میرپور خاص میںگندم سڑتی رہی۔ بھوکوں تک اس لیے نہ پہنچ سکی کہ ٹرانسپورٹروں نے انکار کر دیا۔ دو برس سے ان میں سے بعض کو ادائیگی نہ ہوئی تھی۔ اس پر عذرِ گناہ بدتر از گناہ کہ اخبار نویس غیر ضروری طور پر معاملے کو ہوا دیتے ہیں۔ اگر بھوک سے مرتے کم سن بچوں پر بھی واویلا نہ ہو تو کس بات پر ہو؟ مرنے والے بے کسوں پہ بھی رویا نہ جائے تو اللہ نے رونا کس دن کے لیے عطا کیا ہے ؎
کوئی تو روئے لپٹ کر جوان لاشوں سے
اسی لیے تو وہ بچوں کو مائیں دیتا ہے
اس سے بھی کمتر بہانہ یہ کہ بھوک نہیں، بچّے نمونیا کی زد میں آئے۔ ذرا سی شرم بھی کسی کو ہوتی تو یاد رہتا کہ مارچ کا نمونیا کمزور بچوں کے لیے خطرناک ہوتا ہے‘ غذا کی کمی کا جو شکار ہوں۔ قائم علی شاہ نے پیر کے دن وزیر اعظم سے کہا کہ تھر کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی میں ایک اخبار نویس کو شامل کیا جائے وگرنہ وہ شور مچاتے رہیں گے۔ مقصد شور شرابے کا خاتمہ ہے، مظلوموں کی داد رسی نہیں۔ سندھ حکومت کی بے حسی کا عالم یہ کہ اوّل اوّل اس نے پنجاب اور مرکز کی امداد قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ سیاسی نقصان ہو گا۔ میڈیا کا دبائو نہ ہوتا تو اس انکار پہ قائم رہتی۔ کیا عذاب ہے کہ ہر معاملے میں اخبا ر نویسوں کو فریاد کرنا پڑتی ہے۔ عدالتیں نوٹس لینے پر مجبور ہوتی ہیں۔
تھر کا موسم بدل رہا ہے۔ آج سے نہیں، پندرہ بیس سال سے۔ پاکستان میں موسمیات کا محکمہ ان چند اداروں میں سے ایک ہے، جو عالمی معیار پہ پورے اترتے ہیں۔ ڈاکٹر قمر زماں چوہدری نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 2005ء کا زلزلہ آیا تو بیس منٹ کے اندر وہ ایوانِ صدر، وزیر اعظم، کیبنٹ ڈویژن اور جی ایچ کیو کو اطلاع دے چکے تھے۔ اس پر شیخ رشید نے، جو تب وفاقی وزیر تھے، اسلام آباد سے لندن جاتے ہوئے، ہوائی اڈے پر کہا تھا: کوئی قابلِ ذکر تباہی نہیں، حالانکہ ہیلی کاپٹر بربادی کی اطلاع لے کر واپس آ چکے تھے۔ باغ شہر کی تباہی کا قصہ ایک اخبار نویس نے بیان کیا۔ سیلاب میں بھی یہی ہوا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم نے جب یہ دعویٰ کیا کہ بروقت انہیں بتایا نہ گیا تو ڈاکٹر قمر زماں نے ان کی موجودگی میں تفصیلات بتائیں ..... اور عالی جناب گنگ ہو کر رہ گئے۔ ڈیرہ اسمٰعیل خان جیل کے سانحے میں بھی غیر ذمہ داری کا ''شاندار‘‘ مظاہرہ ہوا۔ آئی ایس آئی کے متعلقہ افسر نے وزیر اعلیٰ یا کسی ذمہ دار افسر سے بات کرنے کی بجائے وزیرِ اعلیٰ کو خط لکھنے پر اکتفا کیا۔ وزیرِ اطلاعات شاہ فرمان نے بعد میں مجھے بتایا کہ عالی جناب کے پرنسپل سیکرٹری نے پرویز خٹک کو بتانے کی زحمت ہی نہ کی۔
قدرتی آفات ہمیشہ سے آتی رہی ہیں۔ ہزاروں برس سے آدمی ان سے نبرد آزما ہے اور ہمیشہ رہے گا۔
بجلیاں ہیں، زلزلے ہیں، قحط ہیں، آلام ہیں
کیسی کیسی دخترانِ نادرِ ایّام ہیں
عمر فاروقِ اعظم ؓ کے عہد میں مصر سیلاب سے دوچار ہوا تو گورنر عمرو بن العاصؓ نے ٹیکس کی رقوم مدینہ منوّرہ بھجوانے سے انکار کر دیا۔ ایک کے بعد دوسرا انتباہ مگر امیرالمومنین کا حکم ماننے سے انکار۔ آخری خط میں یہ لکھا ''عمر! تم مجھے جانتے ہو اور میں تمہیں۔ تم میرے باپ کو جانتے ہو اور میں تمہارے باپ کو۔ مجھے اس طرح کے خط نہ لکھا کرو‘‘ یاللعجب! جناب عمرو بن العاصؓ اپنے منصب پر قائم رہے۔
یہ ہوتی ہے طے شدہ قوانین، پالیسیوں اور طریقِ کار کے مطابق چلنے والی حکومت۔ آج مغرب میں جس کا اہتمام ہے مگر عالمِ اسلام میں نہیں۔ کس درد سے ہمارے عہد کے عارف نے کہا تھا ''افسوس کہ جہاں مسلمان ہیں، وہاں اسلام نہیں اور جہاں اسلام ہے، وہاں مسلمان نہیں‘‘۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر 400 ارب ضائع کیے جا چکے۔ اب 100 ارب روپے وزیر اعظم نے اپنی صاحبزادی کو سونپے ہیں کہ نوجوانوں میں مقبولیت برقرار رہے۔ تھر، دیہی بلوچستان اور سندھ کو، جہاں رلا دینے والی غربت ہے، زیادہ سے زیادہ 50، 60 ارب روپے درکار ہوں گے۔ ہر بھوکے خاندان کے لیے چند بکریاں‘ چنانچہ دودھ‘ مٹھی بھر کھجوریں اور دنیا بھر میں بہترین سولہ فیصد پروٹین والی دو کلو گندم‘ صاف پانی کا گلاس۔ اللہ اللہ خیر سلّا!
2000ء میں بلوچستان قحط سے دوچا ر ہوا تو جمعیت علمائِ اسلام کے لیڈروں کے ساتھ قحط زدگان کے کئی کیمپوں کا دورہ کیا۔ انتظام اگر مثالی نہیں تو بڑی حد تک قابلِ اعتماد ضرور تھا۔ درجنوں افراد کے کارڈ میں نے چیک کیے اور اندراج درست پائے۔ کوئٹہ پہنچ کر شدید صدمے کا سامنا ہوا، جب جمعیت کے لیڈروں کی پریس کانفرنس پڑھی: کیمپوں میں دھاندلی ہے، غبن ہے۔ اکثر دوسری جماعتوں کے برعکس، اس پارٹی نے مصیبت زدگان کے لیے ایک روپیہ بھی جمع نہ کیا، جس کے لیڈر مولانا شیرانی کو آج کل یہ فکر لاحق ہے کہ دوسری شادی کو آسان بنایا جائے۔ اجتہاد تو دور کی بات ہے کوئی ان کی درسِ نظامی کی سند تو چیک کرے۔ علمائے کرام کو میں نے کمال اشتہا اور مسرت سے ویسے ہی مرغن کھانے اڑاتے دیکھا، جن سے قائم علی شاہ تھر کے دورے میں لطف اندوز ہوئے۔ ارے بھائی! یہ تمہارے لیڈر نہیں۔ راہبر نہیں، یہ رہزن ہیں۔ تمہارے لیڈر وہ ہوں گے، جن کا انتخاب اپنی آزاد مرضی سے تم خود کرو گے۔
اللہ کے آخری رسولؐ کا ارشاد یہ ہے: برائی کو جب روکا نہ جائے گا اور بھلائی کی جب ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلط کیے جائیں گے۔ وہ تمہیں سخت ترین ایذا دیں گے اور تمہارے بہترین لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہ کی جائیں گی۔ یہی وہ لوگ ہیں۔ دیکھ لو‘ دیکھ لو‘ فرمانِ رسولؐ سے انحراف کا نتیجہ کیا ہے!