"HRC" (space) message & send to 7575

یاد آکر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو

کبھی کبھی اب دل دعا کو تڑپ بھی اٹھتا ہے ۔ ؎ 
یاد آکر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو 
شامِ شہرِ ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تو
اخبار نویس کو مغالطہ ہوا ۔ فقط یہ نہیں کہ تحریکِ انصاف کینسر میں مبتلا ہے بلکہ پھیل گیا ہے اور اس ناچیز کی رائے میں ناقابلِ علاج۔ اب وہ دوسری پارٹیوں جیسی ایک پارٹی ہے ۔ صرف مالی غبن اور پارٹی الیکشن میں نوسر بازی ہی کیا، ایسے ایسے المناک واقعات ہیں کہ خدا کی پناہ ۔ شواہد مکمل ہیں اور اذیت ناک۔ مریض مگر علاج کرانے سے انکار ہی کر دے تو لواحقین کیا کریں؟ 
پختون خوا میں فارورڈ بلاک متشکّل ہونا شروع ہوا تو مجھے اس کی اطلاع تھی مگر گریز کیا۔ ذاتی مراسم منقطع بھی ہو جائیں تو بعض اخلاقی تقاضے برقرار رہتے ہیں ۔ ایک شام پشاور میں پارٹی کے ایک محترم لیڈر بار بار فون کرتے رہے کہ فلاں صاحب سے فوراً بات کر لیجیے ، ان کے فون کی بیٹری ختم ہونے والی ہے ۔ بہت اہم معلومات ہیں ان کے پاس۔ میں نے خون کا گھونٹ پی لیا اور چپ سادھے رکھّی ۔ اس کے سوا بھی بہت سی سنگین اطلاعات ہیں مگر فریاد سے حاصل کیا؟ اگر سب کچھ میں لکھ دوں تو آنسوئوں کے ساتھ پڑھنے سننے والے روئیں ۔ بخدا اس بات کی اب کوئی پروا نہیں کہ کون کیا کہتاہے۔ ایک بدنام نے جب ٹوئٹر پر یہاں تک لکھ دیا کہ ہارون الرشید نے بعض امیدواروں سے روپیہ لیا تھا تو باقی کیا بچا؟ کوئی بھی الزام اس طرح کے لوگ لگا سکتے ہیں اور کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ نکتہ خود عمران خاں سے میں نے سیکھا تھا کہ بلیک میلنگ کے خوف سے اپنی راہ نہ بدلنی چاہیے ۔ ایم کیو ایم، اے این پی اور اسلامی جمعیت طلبا کو جس نے بھگت لیا ہو، وہ کسی اور سے کیا ڈرے گا؟ پارٹی کی قیادت منصوبہ بندی کر کے بھی مخالفت کرے تو کارکنوں کی اکثریت آسانی سے باور نہ کرے گی ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر آپ زیادتی نہ کریں ، جھوٹ نہ گھڑیں تو وہ آپ کی حفاظت کرتاہے ، جس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی ہل نہیں سکتا۔ کیا کیجیے ، مگر کیا کیجیے ۔ تحریکِ انصاف کی تباہی سے اگر مولانا فضل الرحمٰن کے ہاتھ مضبوط ہوں تو خاموشی ہی بہتر ہے۔ 
ہمارے ایک دانشور دوست ان دنوں عمران خاں کی محبت میں مبتلا ہیں ۔ کئی کالم ان کی حمایت میں لکھ چکے ۔ دو دن ہم نے ایک ساتھ گزارے ۔تر دماغ آدمی نے مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ دیر تک میں سنتا رہا ، پھر عرض کیا: اٹھارہ سال میں جو کچھ میں نے پایا ، آپ بھی پالیں گے ۔ 
داستان دراز کرنے سے کیا حاصل؟ پھر وہ غیبت میں ڈھلتی ہے ، خود رحمی میں ۔ صبر اسی لیے اعلیٰ ترین اوصاف میں سے ایک ہے کہ غور و فکر پہ آمادہ کرتااور گرہیں کھول دیتاہے ۔ 
رحمتہ اللعالمینؐ کہیں جاتے تھے ۔ ایک خاتون کو دیکھا کہ قبر پہ گریہ کرتے بے قابو ہے۔ فرمایا: صبر کرو۔ عالی مرتبتؐ کو وہ پہچانتی نہ تھی ۔ بولی : اگر کوئی آپ کا اٹھ گیا ہوتا؟ جیساکہ سرکارؐ کا طریق تھا، خاموش رہے اور آہستگی سے آگے بڑھتے رہے ۔ ارشاد کیا تھا: زمین پر نرمی سے چلا کرو، وہ تمہاری ماں ہے ۔ اتنے میں کسی نے اسے بتایا ۔ لپک کر وہ آئی اور کہا: اب میں صبر کروں گی ۔ فرمایا: صبر پہلی چوٹ لگنے پر کیا جاتاہے ۔ 
کون ہے جو صدمات سے نہیں گزرا؟اللہ نے انسان کو پیدا ہی اس لیے کیا کہ آزمائے۔ "لِیَبلُوَکم ایکم اَحسنُ عملاً"(تاکہ تمہیں آزمایا جائے کہ کون حسنِ عمل کا اہتمام کرتا ہے) (67:2الملک)۔دوسروں کا حال وہ جانیں ، خود اپنی حالت پہ غور کرتا ہوں تو رنج ہوتاہے کہ صبر کیا ہوتا۔ اب کوشش کرتا ہوں مگر ہمیشہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ سرکارؐ کا فرمان یاد آتاہے : جو چاہتاہے ، اسے صبر عطا کیا جاتاہے ۔ کم از کم کوشش تو جاری رہے ۔ بندوں کے ساتھ نہیں ، معاملہ بنیادی طور پر اللہ کے ساتھ ہے اور وہ معاف کرنے والا ہے ۔ 
پروفیسر احمد رفیق اختر اور بعض دوسرے خیر خواہوں نے سمجھایا کہ اعتدال برقرار رکھو۔ اس قابلِ احترام دوست نے ، جس کے پاس تازہ معلومات کا انبار ہوتا اور جسے اللہ نے عقلِ سلیم بخشی ہے ، یہ کہا تھا : ایک دن تم مایوس ہوگے ۔ اس وقت ایک دھن سوار تھی اور ایسی کہ اس کے سوا کچھ سوجھتا نہ تھا۔ بخدا اتنے دشمن عمران خان کے نہیں ، جتنے اس کی وجہ سے میں نے بنائے ۔ اس بات کا البتہ کچھ زیادہ غم نہیں ۔ اس لیے کہ الحمد للہ ، کوئی ذاتی غرض تھی ہی نہیں ۔ جداہونے کا لمحہ آیا تو خود اس نے کہا تھا: آج بھی میں تم پر سو فیصد اعتماد کرتا ہوں ۔ اس اعتماد کو کیا میں شہد لگا کر چاٹتا کہ بازاری لوگوں نے اسے گھیر رکھا تھا اور بیچ بازار وہ اسے بیچ رہے تھے ۔ ایجنسیوں ہی کے نہیں ، دوسری پارٹیوں ، حتیٰ کہ بعض ارب پتیوں کے کارندے اس کے دفتر میں براجمان تھے ۔ کراچی ، لاہور اور پشاور ایسے بڑے شہروں میں بھی ۔ ان میں سے بعض اس قابل بھی نہیں کہ کوئی انہیں اپنے گھر یا دفتر میں داخل ہونے کی اجازت دے ۔ اللہ نے مگر کپتان کو بعض چیزوں سے مکمل طور پر محفوظ رکھا ہے ۔ ان میں سے ایک کا نام مردم شناسی ہے۔ وہ بدترین کو قبول کر سکتا اور بہترین کو مسترد فرما سکتاہے ۔ ہارون خواجہ اس کے نزدیک معتبر نہیں ، علیم خان البتہ ہیں ۔ شاہ محمود اس کے خیال میں بہترین سیاستدان ہیں اور اسحق خاکوانی سے شاید آج تک تنہائی میں اس نے ایک بھی ملاقات نہ کی ہو۔طارق چوہدری کا یہی جرم کیا کم ہے کہ میرا بھائی ہے ۔یہ جلدی میں لکھا گیا ایک ادھورا کالم ہے ۔ گھنٹوں ایک دوسرے موضوع پر کام کیا۔ نوٹس بھی بنالیے ؛حالانکہ شاذ ہی ایسا کرتا ہوں ۔ ارادہ یہ تھا کہ ایک آدھ پیرا گراف لکھ کر دوسرے عنوان سے انصاف کی کوشش کروں گا۔ قلم رواں ہوا تو اپنے ساتھ بہا لے گیا۔ 
ہاں ! آج بھی مالی معاملات میں ، میں اسے ایک ایماندار آدمی سمجھتا ہوں ۔ آج بھی میرے لیے وہ کرکٹ کے عالمی کپ کا فاتح ہے ۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کا معمار۔ وہ کہ جس نے 2005ء کے زلزلہ زدگان کے لیے دس ہزار عارضی گھر بنائے۔ 2010ء کے سیلاب میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار اجڑے کسانوں میں کھاد اور بیج تقسیم کیے مگر سیاست؟ سیاست اس کے بس کی بات نہیں ۔ تجربے سے یہ ثابت ہو چکا اور جو بات تجربے سے ثابت ہو، اس کا انکار پرلے درجے کی جہالت ہے ۔ 
بنیادی سبب اس کی حمایت کا یہ تھا کہ ملک کو غلیظ سیاست سے نجات دلائی جائے۔صحافت کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں کوئی واقعہ نہیں کہ ایک اخبار نویس نے تنِ تنہا 16برس تک ایک پارٹی کی حمایت کی ہو۔ سہل نہ تھا، یہ سہل نہ تھا۔رزم گاہ میں ہوتا یہ ہے کہ آدمی کی نگاہ ایک نکتے پر مرکوز ہو جاتی اور مرکوز رہتی ہے ۔ ع
بگولا رقص میں رہتا ہے ، صحرا میں نہیں رہتا 
ناکامی نہیں ، آخری تجزیے میں یہ ناکامی نہیں ۔ بہت کچھ سیکھ لیا، اللہ کا شکر ہے کہ بہت کچھ سیکھ لیا۔ آخری تجزیے میں وہ ریس کا گھوڑا تھا ہی نہیں ۔ پھر بھی دوسرے نمبر پر رہا تو چند مجھ ایسوں کی وجہ سے ۔ کارکن تو مخلص مگر لیڈروں میں سے اکثر برادرانِ یوسف، تجارت پیشہ۔ 30اکتوبر 2011ء کے بعد وہ خود کو برگزیدہ ہی سمجھنے لگا۔ لکھنی تو مجھے کتاب چاہیے مگر فرصت پائوں تو لکھوں ۔ پھر یہ کہ انصاف کے تقاضے تحقیق چاہتے ہیں ۔ جب تک آدمی خود کو تھام نہ لے ۔ تعصبات سے اوپر نہ اٹھ جائے، عدل وہ نہیں کر سکتا۔ 
سیدنا علی ابن ابی طالبؓ یاد آتے ہیں ۔ فرمایا: اپنے رب کو میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔ پے درپے صدمات کا فائدہ یہ تو ہوا کہ اب وہ کچھ زیادہ یاد آتا ہے ۔ کبھی کبھی اب دل دعا کو تڑپ بھی اٹھتا ہے ۔ ؎
یاد آکر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو 
شامِ شہرِ ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں