پھر میں نے سوچا : کیا میاں محمدشہباز شریف یہ بات نہیں جانتے ؟ تو پنجابی کا وہی محاورہ یا د آیا : سوتے کو جگایا جا سکتاہے ، جاگتے کو نہیں ۔ میاں شہباز شریف سو رہے ہیں یا جاگ رہے ہیں ؟
میاں شہباز شریف نے ایک بارپھر اعلان کیا ہے کہ وہ کرپشن کے ناسور کو اکھاڑ پھینکیں گے اور بد عنوانوں کو الٹا لٹکائیں گے ۔ بجا ارشاد، ایک بار پھر ان کے وعدے پر ہم ایمان لاتے ہیں ۔ ان کے لیے یہ ایک چھوٹی سی کہانی ہے ۔ اس کی وہ تصدیق فرمالیں اور اگر درست ہو تو قصورواروں کو الٹا لٹکانے کی بجائے، فقط مظلوموں کی داد رسی ہی فرما دیں ۔
9کینال پر پھیلے گوجرانوالہ کے جناح میموریل ہسپتال میں گذشتہ 35برس کے دوران لگ بھگ 35لاکھ مریضوں کا علاج ہو چکا۔ شہر کا یہ واحد رفاہی ہسپتال نہیں ، دوسرے بھی ہیں اور ان کی کارکردگی اتنی ہی اچھی ہے ۔ سالِ گذشتہ ان میں سے ایک کے بارے میں لکھا تو ایک صاحب نے اگلے دن اسے 30لاکھ روپے عطیہ کر دیے ۔ کالم کا نہیں ، یہ اس سعید روح کا کمال تھا، جو قرآنِ کریم کی اوّلین آیت کی روح سے آشنا تھی ''و مما رزقنٰھم ینفقون‘‘۔۔۔اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے ، اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ یہ پاکستانی قوم ہے ، دن رات دانشور جس میں کیڑے ڈالتے ہیں ۔ اس کے مگر مثبت پہلو بھی ہیں اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ دنیا بھر میں اوسطاً وہ دو گنا خیرات کرنے والی قوم ہے۔
جناح ہسپتال گوجرانوالہ کی شیخ برادری کے ایثار کا مظہر ہے۔ 110بستروں کی علاج گاہ ۔ سرجیکل، میڈیکل ، گائنی ، آئی سی یو ، سی سی یو وارڈ ۔ خون کی صفائی (ڈائے لے سز) کی پانچ عدد مشینیں ۔ 70فیصد مریضوں کا علاج مفت ۔ ہر اس شخص کا، جو کہہ دے کہ ادائیگی وہ نہیں کر سکتا۔
تحریکِ انصاف کے رہنما ایس اے حمید کئی سال سے ادارے کے انتظامی سربراہ ہیں ۔ ان کی قیادت میں ادارے کے اثاثوں میں اضافہ ہوا اور تھرڈ پارٹی آڈٹ کا سلسلہ شروع ہوا۔ قائداعظم کے نا م پر یہ ہسپتال ہے اور وہ کسی بھی دوسرے لیڈر سے بڑھ کر شفافیت کے قائل تھے ۔ ایک چونّی کے عطیے پر بھی ذاتی طور پر دستخط کیا کرتے ۔
ہسپتال کا بورڈ آف ڈائریکٹر ز27ارکان پر مشتمل ہے ۔ چیئرمین کا انتخاب مگر اتفاقِ رائے سے ہوتاہے۔ 15فروری کو امسال کے الیکشن کا اعلان ہوا تو کسی کے سان گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ اب کی بار کیا ہونے والا ہے ۔
17فروری کے مقامی اخبارات نے گوجرانوالہ کے شہریوں کو مطلع کیا کہ فلاں اور فلاں صاحب ہسپتال کے صدر، سیکرٹری اور سرپرست چن لیے گئے ۔ 27میں سے چار عہدیدار ایک جگہ جمع ہوئے اور اعلان فرما دیا۔ نئے عہدیداروں نے ایک عدد پریس کانفرنس سے خطاب کیا ۔ شہر کو مطلع کیا کہ ایس اے حمید نے ہسپتال کے پچاس لاکھ روپے اپنی صوابدید سے غلط طور پر خرچ کیے اور ڈی سی کالونی میں واقع ایک ایک کینال کے چار پلاٹ اپنے نام رجسٹر کرا لیے ہیں ؛حالانکہ وہ ہسپتال کی ملکیت ہیں ۔ اسی روز انہوں نے مقامی پولیس کے ایک دستے کی مدد سے ، جن کی تعداد 40سے کم نہ تھی ، ہسپتال پر قبضہ کر لیا۔
17فروری کو ایس اے حمید نے سول کورٹ گوجرانوالہ سے حکمِ امتناعی حاصل کر لیا۔ عمل درآمد نہ ہوا تو توہینِ عدالت کی درخواست دائر کی جو زیرِ سماعت ہے ۔ حکمِ امتناعی موجود ہے مگر قبضہ بھی ۔ کہا جاتاہے کہ تحریکِ انصاف کے لیڈر سے نفرت کرنے والے حکمران پارٹی کے رہنمائوں کی پشت پناہی قبضہ گروپ کو حاصل ہے ،وگرنہ پولیس کیونکر دخل دیتی ؟
ایس اے حمید کبھی نون لیگ کے منتخب رکنِ صوبائی اسمبلی تھے۔ میاں شہباز شریف کے مشیر۔ دو برس پہلے انہوں نے تحریکِ انصاف سے وابستہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ امانت و دیانت کے اعتبار سے ا نہیں ایک مثالی آدمی کہا جاتاہے ۔ وہ ایک کاروباری آدمی ہیں مگر 35سال سے گوجرانوالہ بار کے ممبر بھی ۔ عہدیداروں کو خبر ملی تو ایسو سی ایشن کے صدر انور طفیل وڑائچ کی قیادت میں ایک وفد نے ایس ایس پی راجہ رفعت سے ملاقات کی۔ انہوں نے فریقین کو مصالحت کا مشور ہ دیا۔ بار کے عہدیدار حیران کہ مصالحت کیسی؟ ایک گروپ نے ہسپتال پر قبضہ کیا او رپولیس نے اس کی مدد کی ۔ قانون کو بروئے کار آنا چاہیے ، جس طرح پرویز مشرف کے باب میں آیا ہے ۔ مصالحت کیسی؟ اس سوال کا جواب راجہ صاحب کے پاس کیا ہوتا؟ ماڈل ٹائون کے تھانیدار کو انہوں نے ہدایات دیں اور بظاہر ٹھیک ہدایات ۔ اگلے کئی دن وہ مگر غائب رہا۔ کیوں غائب رہا ؟
25فروری کو شب گیارہ بجے ایس اے حمید کی رہائش گاہ گولیوں سے گونج اٹھی۔ موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم افراد نے فائرنگ کی اور فرار ہوگئے۔ ان چار عہدیداروں کے علاوہ، جنہوں نے خود ہی اپنا تقرر کیا تھا، شیخ اقبال نامی ایک شخص اور ان دو نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرادیا گیا۔ 27فروری کو اسی تھانے میں ایس اے حمید کے خلاف ایک مقدمہ درج ہوا۔الزام تھا کہ ہسپتال کے سرمائے سے انہوں نے اپنے لیے چار عدد پلاٹ خریدے اور اس کا سرمایہ اگرچہ فلاحی مقاصد کے لیے تھامگر ذاتی صوابدید سے صرف کیا۔ ایس اے حمید کا کہنا یہ ہے کہ پلاٹ ہسپتال ہی کی ملکیت ہیں ۔ ان کے نام پر اس لیے ہیں کہ ہائوسنگ سوسائٹی کسی ادارے کے نام پر جائیداد منتقل نہیں کرتی ۔ سوسائٹی کو انہوں نے ایک خط لکھا ، جس کے جواب میں ان کے موقف کی تحریری طور پر تصدیق کی گئی ۔ جہاں تک ہسپتال کے اخراجات کا تعلق ہے ، اچھی شہرت کی آڈٹ فرم نے سرٹیفکیٹ جاری کیا کہ وہ ہرگز ہرگز کسی کوتاہی کے مرتکب نہیں ۔ دونوں خطوط کی نقول اس اخبار نویس کے پاس موجود ہیں ۔ عدالت سے اگر انہوں نے ضمانت قبل از گرفتاری نہ کرا لی ہوتی ،بار ایسوسی ایشن اگر متحرک نہ ہوتی ، اگر تحریکِ انصاف کے لیڈر اعجاز چوہدری اور محمود الرشید گوجرانوالہ پہنچ کر شور نہ مچاتے ، چار عدد مقامی اخبارات اگر دبائو نہ ڈالتے تو شاید ایس اے حمید اب تک گرفتار ہو چکے ہوتے ۔
ہسپتال کے 27میں سے 20ڈائریکٹروں نے اعلان کیا کہ ایس اے حمیدہی ہسپتال کے صدر ہیں مگر وہ علاج گاہ میں داخل بھی ہو نہیں سکتے ۔شہر چہ میگوئیوں سے بھرا ہے اور ایسی ایسی خوفناک افواہ کہ خدا کی پناہ۔
واقعات کی تصدیق کے لیے ، گوجرانوالہ کا سفر کیااور دو دن وہاں گزارے۔ سب کچھ لکھا نہیں جا سکتا، بالکل نہیں لکھا جا سکتا۔ ہوش مند اور دانا لوگوں نے، جنہیں سیاست سے زیادہ مفلس اور محتاج مریضوں کی فکر لاحق ہے ، مجھ سے یہ کہا: ایس اے حمید کی بے شک ہربات درست ہو مگر ہم ایک مقدس ادارے کو سیاست کی نذر نہیں کر سکتے ۔ ہماری آرزو یہ ہے کہ مصالحت ہو جائے اور چونکہ حمید صاحب کو ڈائریکٹروں کا اعتماد حاصل ہے ؛چنانچہ وہ معمول کے مطابق اس کا نظام چلانے لگیں۔
تحریکِ انصاف کا پریشان حال لیڈر بالآخر عمران خان کے ساتھ ملاقات میں کامیاب رہا۔ ان کا جواب یہ تھا : پنجاب میں ہر کہیں ہمارے کارکنوں پر یہی بیت رہی ہے ۔ آئی جی سے میں بات کروں گا اور قومی اسمبلی کے ایوان میں بھی ۔ نہیں معلوم، مصروف اور متامّل آدمی ایسا کر پائے گا یا نہیں ۔ یہ تو مگر آشکار ہے کہ ہسپتال خطرے میں ہے ۔ چابی پنجاب حکومت کی جیب میں ہے اور پنجاب حکومت کا دوسرا نام شہباز شریف ہے ، جنہوں نے کل کرپٹ لوگوں کو الٹا لٹکانے کا اعلان کیا۔
کوئی جائے اور جا کر میاں شہباز شریف کو بتائے کہ عدل حکمران کے ذاتی ولولے نہیں بلکہ اداروں کی تعمیر سے قائم ہوتاہے۔ فسطاط، دمشق ، بصرہ اور مدائن کی گلیوں میں عمر فاروقِ اعظم نہیں ، ان کے گورنر گشت کیا کرتے تھے۔ اصول انصاف کا یہ ہے کہ سزا اوّل طاقتوروں کو دی جاتی ہے ، کمزوروں کو نہیں ۔
پھر میں نے سوچا : کیا شہبازشریف یہ بات نہیں جانتے ؟ تو پنجابی کا وہی محاورہ یا د آیا : سوتے کو جگایا جا سکتاہے ، جاگتے کو نہیں۔ میاں شہباز شریف سو رہے ہیں یا جاگ رہے ہیں ؟