باز آئو اور زندہ رہو۔ زندہ رہو اور پھلو پھولو کہ خالقِ کائنات نے زندگی کو تنوّع میں پیدا کیا اور دائم وہ ایسی ہی رہے گی۔ دوسروں کو بھی لیکن جینے دو۔
یہ ملک اب دوبارہ کبھی ویسا نہ ہو گا، جیسا کہ 19 اپریل کی شام تک تھا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ کو قاتل قرار دینے والے اب دوبارہ کبھی اتنے موثر اور طاقتور نہ ہوں گے، جتنے کہ اس دن تک وہ تھے۔ یہ پاکستانی عوام کا فیصلہ ہے اور آوازِ خلق نقّارہء خدا ہوتی ہے۔ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے اور بلّی دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے کچھ نہ ہو گا۔ کوئی تغیّر رونما نہیں ہوتا، جب تک اس کے عوامل کا ثمر پک نہ جائے۔ گاہے ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک دن حادثہ ہو اور انکشاف ہو جائے کہ منظر تبدیل ہو گیا ہے۔ جو ادراک نہ کر پائیں، وہ خسارے میں رہتے ہیں۔
مری صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپک رہے ہیں
میں تسبیحِ روز و شب کا شمار کرتا ہوں دانہ دانہ
نہ تھا اگر تو شریکِ محفل، قصور میرا ہے یا کہ تیرا
مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مئے شبانہ
ابھی ابھی میاں محمد خالد حسین نے کسی امریکی اخبار کا کارٹون ارسال کیا ہے۔ فادر کی خدمت میں حاضر، رنج و محن میں ڈوبی ایک خاتون اس سے کہتی ہے ''افسوس کہ کل شب میں نے کانگرس کے ایک رکن کو قتل کر دیا‘‘ اس کا جواب یہ ہے ''میں یہاں گناہوں کا اعتراف سننے کے لیے آیا ہوں۔ کمیونٹی کی خدمت کا کوئی قصہ نہیں‘‘
کوئی ہمارے دانشوروں کو بتائے کہ ساری دنیا میں سیاستدانوں کے مقابلے میں مسلّح افواج زیادہ مقبول ہوتی ہیں اور اسباب آشکار ہیں۔ پاکستان ایک لحاظ سے مختلف رہا۔ فوجی قیادت کی اپنی پہاڑ سی غلطیاں مگر متوازی طور پر بھارت اور امریکہ کے ایما پر المناک پروپیگنڈا۔ اس سے پہلے سوویت یونین کی عشروں جاری رہنے والی مہم، جو ٹریڈ یونین لیڈروں اور دوسرے کارندوں کی سیاسی اور مالی سرپرستی فرمایا کرتے۔ نو آزاد مملکت میں یہ آسان تھا۔ کبھی یہ ایک ملک نہ تھا بلکہ فاتحین کی گزرگاہ۔ ہزاروں برس پہلے وادیء سندھ ایک وحدت رہی ہو گی۔ پھر مگر دو ہی صورتیں رہیں۔ چھوٹی چھوٹی ریاستیں یا بعض ادوار مثلاً مغلوں اور انگریزوں کے دور میں برصغیر کا ایک حصّہ۔ 1946ء کے انتخابی معرکے میں، نئے وطن کی تحریک جب دلوں اور دماغوں میں اتر چکی، 76.5 فیصد رائے دہندگان نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ کٹھ ملّا اور کٹھ اشتراکی نے مگر اسے قبول نہ کیا۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد، سلطنت کا نظم و نسق انتشار کی نذر ہوا؛ چنانچہ ان ژولیدہ فکر اور ناراض لوگوں کے لیے، ذرائع ابلاغ اور مساجد و مدارس میں جو نسبتاً زیادہ موثر تھے، کنفیوژن پھیلانے کے مواقع ارزاں رہے۔ یہ دنیا کا واحد ملک ہے، جس کے جواز پر احمقانہ بحثیں ہوتی رہیں اور اب تک جاری ہیں۔ ایک تاریخی عمل سے گزر کر ہی کوئی قوم فی الواقع ایک قوم بنتی ہے۔ ایک مشترکہ آدرش اور خواب۔ ایک احساسِ تحفظ اور نظامِ عدل۔ اس کے نتیجے میں ایک جما جمایا معاشرہ۔ اوّل دن سے بھارتیوں کا ہدف یہ تھا کہ پاکستان کا خاتمہ کر دیا جائے۔ صرف یہی نہیں، افغانستان کی پشتون پٹی بھی ان کی چراگاہ بن جائے، جیسی کہ محمود غزنوی سے پہلے تھی۔ طورخم میں کھڑے ہو کر، کرم چند موہن داس گاندھی نے کہا تھا: بھارت کی سرحد بامیان تک ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد نہرو نے اعلان کیا تھا: شبنم کے قطروں کی طرح، جنہیں سورج کی اوّلین کرنیں تحلیل کر دیتی ہیں، پاکستان کا وجود ختم ہو جائے گا۔
1971ء کا المیہ رونما ہونے کے باوجود، حالات کی ان گنت خرابیوں کے باوجود آج تک بھارت پاکستان کو زیر نہیں کر سکتا۔ اس کے ایٹمی اور میزائل پروگرام بھارت سے بہتر ہیں اور اس کی افواجِ قاہرہ کا بھارت سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ شہادت کے تمنّائی کو کون ہرا سکتا ہے؟
مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے بعض مشکوک کردار افواج اور پاکستانی عوام کو حبّ وطن کا یقین دلا رہے ہیں۔ ازل سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ابد تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ مقبولیت کی غالب آنے والی تمنّا انسان کی سب سے طاقتور جبلّتوں میں سے ایک ہے۔ ان لوگوں کی حمایت فوج کو نقصان پہنچاتی ہے۔
عدنان صاحب ایک معتدل مزاج، باخبر اور صاحبِ ادراک آدمی ہیں۔ کل شام اچانک انہوں نے پوچھا کہ کیا مظاہروں کا اہتمام آئی ایس آئی نے کیا ہے؟ میں نے پوچھا: عدنان صاحب! آپ کس کے ایما پر اس قدر جو ش و خروش سے ژولیدہ فکروں کی مخالفت اور افواج کی حمایت فرما تے ہیں۔ بے ساختہ وہ ہنس پڑے اور یہ کہا: میں غیر ملکی امداد پر پلنے والی این جی اوز اور غیر ملکیوں کے نقطہء نظر سے پاکستان کو دیکھنے والوں سے خوب واقف ہوں۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ منگل کے دن چھپنے والے اظہارالحق اور عبدالقادر حسن کے کالم پڑھ لیں۔ فرض کیجیے، ان لوگوں نے اگر اس کے سوا کبھی کوئی نیکی نہ کی ہوتی تو بھی یہ تحریریں ان کی مغفرت کو کافی ہو جاتیں۔ آنسو ضبط کرنا مشکل تھا۔ اگر عبدالقادر حسن اور اظہارالحق آئی ایس آئی کے کارندے ہیں تو مردِ آزاد کون ہے؟ ارشد شریف بھی؟ خدا کے بندو، ارشد شریف بھی، سمیع ابراہیم بھی؟ کیا ساری کی ساری قوم ایجنٹ ہے؟ ایک بات دانشور کبھی نہیں سمجھتے کہ بعض لیڈر بے حمیت ہو سکتے ہیں، بعض دانشور تماشائی مگر کوئی قوم بے حمیت نہیں ہوتی۔ حبّ وطن ایک بنیادی وصف ہے، فطرتِ ثانیہ۔ اقبالؔ نے کہا تھا: وطن کی محبت ایمان کا جزو ہے۔
بعض لوگ برسوں سے حماقت پر تلے تھے۔ مارشل لائوں کے علاوہ، جن سے مسائل ہمیشہ پیچیدہ تر ہوتے ہیں، کارِ سیاست میں آئی ایس آئی کی مداخلت پر تنقید بجا۔ تنقید کیا، احتجاج بھی مگر ملک کے دفاع کو برباد کرنے کی اجازت کوئی قوم کیسے دے سکتی ہے؟ سامنے کی یہ دلیل تمہاری سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ اوّل تو دنیا کے کسی ملک میں افواج پر اس طرح روزانہ اور غیر ذمہ دارانہ تنقید نہیں ہوتی۔ اس کا سواں حصہ بھی نہیں۔ اگر لازم ہو تو پاکستانی عوام کے نقطہء نظر سے ہو گی، بھارت اور امریکہ کے نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ امریکہ بہادر پاکستان کی این جی اوز کو ایک سو ارب روپے سالانہ عطا کرتا ہے، برطانیہ بھی۔ کس لیے؟ سب جانتے ہیں کہ سینکڑوں دانشور آئے دن بھارت اور امریکہ جاتے ہیں۔ کس لیے؟ ان میں سے بہت سے ہم سے زیادہ محب وطن ہیں مگر وہ بھی ہیں، نجی محفلوں میں خبثِ باطن کے ساتھ جو پاکستان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ پھر کنفیوژن کے مارے لوگ بھی۔ بھارت نے ایک کھیل 1971ء میں کھیلا تھا۔ اب افغانستان اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیاں اس کی حلیف ہیں اور سوچ سمجھ کر وہ ایک اور کھیل میں مصروف۔
حبّ وطن کے تقاضوں کو نظر انداز کر دیا گیا کہ بے وفائی کو فضا سازگار تھی۔ آزادیء اظہار برحق اور بالکل برحق۔ جس انداز میں آج ایک صاحب نے اقبالؔ کا مذاق اڑایا ہے، اس کاکوئی ادنیٰ سا جواز بھی ہے؟ لکھیے، ہمارے خلاف لکھیے، ہمیں گالی دیجیے، اپنے آقایانِ ولی نعمت سے وفاداری کا حق ادا کیجیے۔ جو آزادی آپ کو میسر ہے، جی بھر کے اسے استعمال کیجیے لیکن ملک، ملک کے باپ اور اقبالؔ کا تمسخر اڑانے کا مطلب؟ اختلافِ رائے آپ کا حق ہے مگر بات دلیل سے کیجیے۔ ہر متکبّر خاک چاٹتا ہے۔ کوئی دن جاتا ہے کہ آپ کے متکبّر بھی خاک چاٹیں گے۔ پہلے ہی وہ تھک چکے اور خود ترحمی کی تصویر ہیں۔ زندہ وہ رہتا ہے، جو دلیل پرکھڑا ہو اور حبّ وطن بجائے خود ایک بہت بڑی دلیل ہے۔
باز آئو اور زندہ رہو۔ زندہ رہو اور پھلو پھولو کہ خالقِ کائنات نے زندگی کو تنوّع میں پیدا کیا اور دائم وہ ایسی ہی رہے گی۔ دوسروں کو بھی لیکن جینے دو۔