نا انصافی، پھر غیبت، پھر شکایت،پھر شکایت کی تکرار، تب بغض وعناد ،اس کے بعد جتھہ بندی اور تصادم ۔ افراد کی زندگی یہی ہے اور اقوام کی تاریخ بھی یہی ...! انصاف، اللہ کے بندو انصاف۔نظامِ عدل کے بغیر قرار کہاں ، استحکام کہاں۔امید کہاں ، ارتقا کیسے ؟
پیمرا نے یہ طرزِ عمل کیوں اختیار کیا؟ سول ملٹری تعلقات پہلے ہی ناخوشگوار ہیں اور مزید خرابی کا ملک متحمل نہیں ۔ کراچی، پختون خوا اور بلوچستان ہی نہیں ، پنجاب کے حالات بھی اس قدر بگڑ چکے کہ فوج اور سول ہی نہیں ،مختلف اور متحارب سیاسی جماعتوں میں آہنگ لازم ہے ۔ ظاہر ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور اس سے نمٹا نہیں جا سکتا، جب تک ایک کم از کم قومی اتفاقِ رائے تشکیل نہ پائے ۔ تصادم اور تلخی اگر ختم نہیں ہو سکتی تو کم کرنے کی کوشش ہی ۔
مسئلہ وہی ہے ۔ حکومت، فوج ، عدلیہ اور ذرائع ابلاغ میں سے ہر ایک اپنی حدود سے تجاوز کرتاہے ۔مادرپدر آزادی ہے ، مادر پدر آزادی۔ ابھی ایک بحران تمام نہیں ہوتا کہ دوسرا اٹھتا ہے ۔ کس طرح پیچ در پیچ گتھی کو ہم سلجھا سکتے ہیں ؟کسی ایک فریق کی حمایت یا مخالفت ؟ کسی ایک موقف کی تائیدیا تردید سے ؟ تاریخ کا سبق بالکل واضح ہے کہ قوانین کے مکمل نفاذ سے ۔ ہر ایک کو آزادی ہو مگر ہر ایک کا دائرہ کار۔ کرکٹ کا ایک میچ بھی ضابطوں کے بغیر نہیں ہو سکتا،سیاسی دلدل میں اترا ہوا ، بیس کروڑ انسانوں کا ملک اس کے بغیر کیونکر سنورے؟ معاشرہ ایسا کہ ہر طاقتور قانون کا مذاق اڑانے میں آسودہ ہوتاہے ۔
مسلم برّصغیر میں قانون کی تقدیس کا تصور کبھی کچھ زیادہ نہ تھا ۔ تمیزِ بندہ و آقا تھی اور اب تک برقرار ہے ۔ ملوکیت تھی یا غیر ملکی حکمرانی ۔ جمہوریت کے نام پر بادشاہت اب بھی برقرار ہے ۔ بھٹو خاندان کی جگہ زرداری خاندان نے لے لی۔ شریف خاندان ہے ، جس نے جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لا میں فروغ پایا اور اقتدار کے مہ و سال اس کی دولت اور رسوخ میں غیر معمولی اضافہ کر دیا۔ اتنا زیادہ کہ
حریفوں کو معمول کی سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ مقابلہ کرنا مشکل نظر آتا ہے ۔ عمران خان ایک اور بڑی طاقت بن کے ابھرے مگر وہ بھی کوئی منظم جماعت تشکیل نہیں دے سکے ۔ پارٹی ان کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے ۔ کراچی میں ایم کیو ایم شاید اب بھی سب سے بڑی ہے مگر اس کا دوسرانام الطاف حسین ہے ،گوکہ اب انہیں کمزور پا کر اندر ہی اندر ایک کشمکش ہے ۔ اے این پی باچا خان کی وراثت ہے اور لگتاہے کہ انہی کی رہے گی۔ ایک صدی بعد، پوتا براجمان ہے ۔پڑپوتا بھی ہو سکتاہے ۔جمعیت علمائِ اسلام مفتی محمود کے خاندان کی مِلک ہے ۔ بلوچستان میں عبد الصمد اچکزئی کے بعد ان کے فرزند محمود اچکزئی بروئے کار ہیں ۔ پہلی بار اقتدار میں حصہ پایا تو سگے بھائی کو گورنر بنایا اور دوسرے اہم مناصب بھی رشتے داروں کو سونپے ۔ ایک جماعتِ اسلامی ہے ، جہاں انتخابات پابندی ،باقاعدگی اور سلیقہ مندی سے ہوتے ہیں ۔ ووٹ ڈالنے کا اختیار لیکن صرف 31ہزار ارکان کو ہے ؛ دراں حالیکہ اس کے حامی دس لاکھ سے کیا کم ہوں گے ۔ مزید یہ کہ اب تک وہ سیّد ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم کی اسیر تھی ۔ اب فقط اس قدر تبدیلی آئی کہ دیو بندی مکتبِ فکر اور زیادہ موثر ہو گیا۔ جماعتِ اسلامی میں دوسروں کی شمولیت پر کوئی پابندی بہرحال نہیں ۔ جمعیت اہلحدیث اور کچھ دوسری مذہبی جماعتیں اور بھی سخت گیر ہیں ۔
اللہ کا حکم واضح ہے ۔ قرآنِ کریم میں صاف صاف لکھا ہے کہ اپنے گروہ جو الگ بنالیں گے، ان کا سرکارؐ سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمیشہ عرض کیا کہ مذہب جب واقعی نافذ ہو‘ ترجیحات جب روحانی اور اخلاقی ہوں تو مذہبی طبقات کا وجود نہیں ہوتا ۔ مذہبی طبقات غالب ہوںتو مذہب برائے نام رہ جاتاہے ۔ سیاست کا ایجنڈہ محدود ہوتاہے ۔ امن و امان، نظامِ عدل ، ٹیکس وصولی اور سرحدوںکی حفاظت۔ زیادہ آسان الفاظ میں اچھی حکمرانی، Good Governance!یہ ناچیز بار بار پوچھتاہے کہ کیا شیعہ اور سنّی کابجلی کا بل الگ الگ ہوتاہے ؟ کیا مہنگائی ان پر ایک سی اثر انداز نہیں ہوتی ؟ پولیس اور پٹوار کیا ان کا فرقہ پوچھتی ہے ؟ جمہوریت کی بنیاد جدید سیاسی پارٹیاں ہیں ۔ لیڈر وہ ہے ، جو معاشرے کی تقسیم او رتعصبات سے بالا ہو ۔ چار برس ہوتے ہیں، نعرۂ انقلاب کے ہنگام جناب الطاف حسین نے لندن سے فون کیا اور جیسا کہ ان کا طریق ہے ، بہت دیرمہربانی کرتے رہے ۔ یہی بات ان کی خدمت میں بھی عرض کی تھی ۔
تعصبات گہرے ہیں اور تہہ در تہہ ۔ اس لیے کہ معاشرہ عدمِ تحفظ کا شکار ہے ۔قانون کی حکمرانی ، صرف قانون کی حکمرانی ہی تحفظ عطا کرسکتی ہے ۔ صرف ایسی قیادت ہی نجات سے ہمکنار کر سکتی ہے ، جو تعصبات سے بالاتر ہو کر سوچ سکے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ!
امیر المومنین ہارون الرشید نے فضیل بن عیاضؒ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی آرزو کی۔ اپنے عہد کے جلیل القدر صوفی سفیان ثوریؒ کو ساتھ لے جانا پڑاوگرنہ شاید دروازہ نہ کھلتا۔ سر اٹھایااور یہ کہا : اے وجیہ آدمی، تیرا کیا ہوگا؟ تجھے تو پوری امّت کا حساب دینا ہے ۔ روتے روتے ہارون کی گھگھی بندھ گئی۔ تب لگ بھگ 40سالہ بادشاہ سے یہ کہا :تمہارے لیے وہی مشورہ ہے ، جو جناب عمر بن عبد العزیزؓ کو دیا گیا تھا۔ بڑوں کو بزرگ ، ہم عمروں کو بھائی اور چھوٹوں کو اپنی اولاد سمجھو۔
خیر،وہ تو استثنیٰ تھے ، تاریخ کی تاریکیوں میں دمکتے مہتاب... مگر آج کی یہ حکمرانی ؟ زرداری صاحب اور ان کا خاندان؟ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے عزیز و اقارب؟ شریف خاندان اور ان کے کشمیری بھائی ؟ بخدا ، مجھے کشمیریوں سے محبت ہے ۔ اقبالؔ ان میں سے تھے اور سیّد علی گیلانی ان میں ایک ۔ پرتپاک اورذہین مگر دوسرے پچاس ساٹھ قبائل بھی توہیں ۔ کیا راجپوت نثار علی خان کی ذہانت میں کلام ہے ؟ جس ملک کا وزیرِ اعظم احساسِ عدمِ تحفظ کا شکارہو، وہاں دوسروں کاحال معلوم ۔ کسی ایک کا نہیں ، بہت سوں کا معاملہ یہی ہے ۔ اس پہ کیا دل نہ دکھے؟
جدید انتظامی اور سیاسی ادارے ،تربیت یافتہ کارکنوں کی مہذب اور جمہوری سیاسی پارٹیاں اور ان پارٹیوں کے بطن سے پیدا ہونے والی پارلیمان۔ اس پارلیمنٹ میں سے میرٹ پر چنے جانے والے وزرا۔ پارلیمان میں پالیسیوں کی تشکیل اور کابینہ میں فیصلے۔ یہ ہوگی جمہوریت!
کہنے میں سہل ہے ، کرنے میں مشکل۔ اسلام کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ سب سے پہلا ، سب سے بڑا اور سب سے زیادہ خطرناک انحراف علمی ہوتاہے ۔ پیمرا کو کیا روئیے ۔ آشکار ہے کہ حکومتِ وقت اس مشکوک میڈیا گروپ کے ساتھ کھڑی ہے ، قوم جس کے خلاف سراپا احتجاج ہے ۔خوف زدہ لوگ انصاف کرنے کے اہل ہی نہیں ۔ فوجی قیادت کو آئی ایس آئی کی کردار کشی گوارا نہیں ۔ کوئی بتائے کہ برہم وزر ا کو شروع ہی میں احتیاط کا مشورہ دیا جاتا (اورحریف بھی ایسا کرتے ) تو کیا خرابی برگ و بار لاتی ؟ وزیراعظم زخمی اخبار نویس کے ساتھ ،اگر مجروح تر آئی ایس آئی کی تیمار داری بھی کرتے؟ وہ طوفان نہ اٹھتا ، جس نے ملک کو بگولوں بھرے صحرا میں بدل دیا ہے ۔
پیمرا انصاف نہیں کرسکتی۔ چوہدری عبد الرشید کو اسی لیے ہٹایا گیا تھا کہ من پسند آدمی مسلّط کیا جائے ۔ نادرا کے چیئرمین طارق ملک بھی ظاہر ہے کہ اسی لیے ۔ اسد عمر کا کہنا ہے کہ 48سرکاری ادارے سربراہوں سے محروم ہیں ۔ کیا تھالی کے بینگنوں کی تلاش جاری ہے ؟ پنجاب چھوٹے بھائی کے سپرد تھا، اب بھتیجا بھی کہ ہیجان زدہ والدِ محترم سے زیادہ تایا جان سے متاثرہے۔ صاحبزادی کو فروغ دینے کی مہم جاری ہے ۔ اچھی خاتون ہیں ، معصوم صورت، متاثر کن مگر کیا کسی دوسرے مسلم لیگی خاندان میں کوئی سپوت نہیں ؟ ترکانِ عثمانی پھلتے پھولتے رہے ، جب تک سلطان کے سوا، شاہی خاندان پر سرکاری مناصب کی پابندی رہی۔پھر سلطان سلیم نے لٹیا ڈبو دی۔
نئے عمرانی معاہدے کی جو بات کی تھی ، ایک توانا آواز اس کے حق میں اٹھی ہے ۔بخدا ، کوئی دعویٰ نہیں کہ دعویٰ باطل ہوتاہے مگر کاش کوئی غور فرمائے۔ ممکن ہے کہ اس سے بہتر تجاویز سامنے آئیں۔ فوق کل ذی علم علیم۔ ہر جاننے والے کے اوپر ایک اورجاننے والا۔
نا انصافی، پھر غیبت، پھر شکایت،پھر شکایت کی تکرار، تب بغض وعناد ،اس کے بعد جتھہ بندی اور تصادم ۔ افراد کی زندگی یہی ہے اور اقوام کی تاریخ بھی یہی ...! انصاف، اللہ کے بندو‘ انصاف۔نظامِ عدل کے بغیر قرار کہاں ، استحکام کہاں۔امید کہاں ، ارتقا کیسے ؟
پسِ تحریر: بار بار وزیراعظم کو جنرل راحیل سے ملاقات کرنی چاہیے۔ عمران خان سمیت سبھی سیاسی لیڈروں سے بھی ۔
دلوں کی رنجشیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
ایک بڑا مسئلہ بدگمانی ہے ۔ Its communication gap, my dear sir communication gap!