ملک پہ اور بھی مشکل وقت آ پڑا ہے۔ قوم تقسیم در تقسیم اور قیادت ژولیدہ فکر ؎
یہ ہیں نئے لوگوں کے گھر‘ ان کو ہے اس کی کیا خبر
دل بھی کسی کا نام تھا غم بھی کسی کی ذات تھی
تحریک پاکستان یاد آتی ہے‘ قائد اعظم یاد آتے ہیں اور دل تڑپتا ہے‘ حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے؟
ہم یہ جانتے ہیں کہ پاکستان کے بارے میں بھارت کا ایجنڈا کیا ہے۔ وہ اسے تحلیل کرنے کا آرزومند ہے۔ صرف گزشتہ ایک ہفتے کے بھارتی اخبارات اور سرکاری شخصیات کے اظہار خیال سے یہ آشکار ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ امریکی ترجیحات کیا ہیں۔ پاکستانی میڈیا اور این جی اوز کے علاوہ تعلیمی نظام پر اس کی اعلانیہ سرمایہ کاری کا مقصد کیا ہے؟ چین اس کا درد سر ہے۔ بھارت اس کا تزویراتی حلیف۔ دونوں کا مشترکہ ہدف یہ ہے کہ پاکستان ان کی تراشی ہوئی راہ پر چلے۔ اس انکشاف نے طالب علم کو حیرت زدہ کر دیا کہ ایک بڑے انگریزی اخبار کے لکھنے والوں کی اکثریت نے اپنی این جی اوز بنا رکھی ہیں‘ مغرب سے جنہیں مالی مدد ملتی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے میں ہماری حکومت ایک قومی اتفاق رائے تشکیل دینے کی کوشش کرے۔ بالکل برعکس‘ قومی امنگوں سے بے نیاز‘ وہ ایک اور ہی سمت میں گامزن ہے۔ ضرورت تو یہ تھی کہ نہ صرف سول اور عسکری قیادت میں ہم آہنگی ہو بلکہ اپوزیشن پارٹیوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔ بجٹ ایسا کہ سرمایہ داروں کو سہولت ملے گی‘ گرانی اور بے روزگاری کے مارے عام آدمی کو بالکل نہیں۔ کراچی میں ایک ہنگامہ برپا ہے۔ جناب الطاف حسین کو گرفتار برطانوی حکومت نے کیا ہے اور سزا پاکستانیوں کو۔ یہ ایک قانونی جنگ ہے اور قانونی طریقے سے لڑی جانی چاہیے‘ گاڑیوں کو آگ لگانے اور بازار بند کرانے کا مقصد کیا؟ اطلاعات تشویشناک ہیں۔ ایم کیو ایم کے بعض لیڈروں کو قتل کر کے شہر کو نذرِ آتش کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ بار بار یاد دلایا جاتا ہے کہ اچھی پولیس‘ بہترین انٹلی جنس اور بروقت فیصلے صادر کر دینے والی عدالتوں کے بغیر‘ قانون کی حکمرانی کے بغیر سیاسی استحکام کا حصول ممکن ہے اور نہ معاشی ارتقا‘ جو آزاد خارجہ پالیسی کی بنا استوار کرتا ہے۔
وزیر اعظم لندن گئے اور سرمایہ کاروں کو ترغیب دینے کی کوشش کی تو ان میں سے ایک نے کہا: آپ کی اپنی دولت لندن میں پڑی ہے۔ فرمایا: حکمرانی کے لیے پاکستان موزوں ہے مگر قیام کے لیے ہرگز نہیں۔ بالکل ویسی ہی بات‘ تین برس پہلے میاں شہباز شریف نے لاہور میں کہی تھی: طالبان کو پنجاب میں حملے نہ کرنے چاہئیں۔
وزیر اعظم کی ترجیحات حیران کن ہیں۔ ایک برس ہونے کو آیا‘ دہشت گردی پہ ان کی پالیسی واضح نہیں۔ مسلح افواج نے انتہا پسندوں کی کمر توڑ دی ہے۔ ایک بھرپور آپریشن سے سال رواں کے اختتام تک مسئلہ بڑی حد تک حل ہو سکتا ہے مگر وہ گومگو کا شکار ہیں۔ ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ویسا نہ ہو جائے۔ نواح اسلام آباد میں دو فوجی افسروں کی شہادت کا مطلب کیا ہے یہی کہ بھارت اور کابل حکومت کی سرپرستی میں سرگرم مولوی فضل اللہ اپنا طرز عمل تبدیل کرنے پہ قطعاً آمادہ نہیں۔
قبائلی علاقے اور بلوچستان میں صورت حال بہتر ہوئی ہے‘ جہاں افغان سرحد کے ساتھ 300 کلومیٹر لمبی‘ آٹھ فٹ چوڑی اور دس فٹ گہری خندق کھودی جا رہی ہے۔ بالآخر کراچی میں بہتری کے امکانات بھی ہیں۔ وزیر اعظم کو مگر ادراک اور احساس ہی نہیں کہ ہر کہیں بھارت تخریب کاروں کا پشت پناہ ہے۔
ان کے حالیہ دورۂ بھارت کی‘ اب سامنے آنے والی تفصیلات پریشان کن ہیں۔ ایوان وزیر اعظم کے ذرائع سے جو کچھ معلوم ہو سکا‘ اول اس پر یقین ہی نہ آیا۔ دوسرے معتبر لوگ بھی لیکن تصدیق کرتے ہیں۔
زی ٹی وی کے سبھاش چندرا ''زندگی‘‘ کے نام سے پاکستان کے لیے ایک تفریحی چینل جاری کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم سے انہوں نے اس پر بات کی۔ یہ چینل پاکستانی اور بھارتی مصنفین کے لکھے ہوئے ایسے ڈرامے نشر کرے گا‘ جن میں دونوں ملکوں کی مشترک سماجی اقدار کو اجاگر کیا جائے گا۔ مقصد واضح ہے۔ اکھنڈ بھارت کی راہ ہموار کرنا۔
عمران خان نے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ سرکاری دورے پر وزیر اعظم‘ اپنے فرزند کے ہمراہ‘ ممتاز کاروباری شخصیت سجن جندال کے گھر کیوں تشریف لے گئے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ شریف خاندان ان کے اشتراک سے توانائی اور فولاد سازی کے منصوبوں پر کام کرنے کا آرزومند ہے۔ ایک اور کاروباری خاندان مسٹر اینڈ مسز اروڑا نے بھی وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ سجن جندال دنیا کی چھٹی اور جاپان کی دوسری بڑی سٹیل کمپنی کے شراکت دار ہیں۔ وہ بھارتی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر ہیں۔ ان کے بھائی نوین جندال کانگرس سے تعلق رکھتے اور ہریانہ سے وفاقی اسمبلی کے ممبر ہیں۔ ان کے دو اور بھائی بھی کارپوریٹ بزنس سے وابستہ ہیں۔
وزیر اعظم کا تیرہ رکنی وفد تاج پیلس ہوٹل میں مقیم تھا۔ وہ اس کے صدارتی سویٹ میں براجمان ہوئے‘ جہاں سب سے پہلے زی ٹی وی کی محترمہ رجیکا اپنے والد کے ہمراہ ان سے ملنے آئیں۔ رجیکا کو یہ دعویٰ کرتے سنا گیا کہ ہائی کمشنر کی بجائے انہوں نے اس ملاقات کے لیے براہ راست ایوان وزیر اعظم اسلام آباد سے رابطہ کیا تھا۔ یہ دعویٰ مسٹر اور مسز اروڑا نے بھی کیا‘ جن کے کاروبار کی شاخیں برطانیہ اور امریکہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ پھر دکن کرانیکل کی ایڈیٹر مسز نینا گوپال تشریف لائیں۔ بعدازاں ایک ٹی وی پروگرام میں ان نکات کی محترمہ نے وضاحت کی‘ جو اس ملاقات میں انہوں نے بیان کیے۔ نریندر مودی‘ ایک سخت آدمی ہیں‘ وہ واجپائی یا منموہن سنگھ نہیں۔ وہ پاکستان میں بھارتی کاروبار کو فروغ دینے کے آرزومند ہیں‘ کشمیر‘ سیاچن یا سرکریک پر وہ کوئی رعایت نہ دیں گے‘ کشمیر پہ صرف بیک چینل ڈپلومیسی ممکن ہے۔
وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد‘ پاکستان کے خلاف ان محترمہ کے افسوسناک ریمارکس ''ٹکر‘‘ کی صورت میں نمایاں رہے۔ ساڑھے تین بجے ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن باویجا (Baweja) میاں صاحب سے ملنے آئے۔ وہ بھی وزیر اعظم سے ذاتی دوستی کے دعویدار ہیں۔ ان کے بعد گولڈن کنسٹرکشن کمپنی کے سلطان احمد آئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کل شب وزیر اعظم نے خود فون کر کے انہیں مدعو کیا۔ پونے چھ بجے شام وزیر اعظم‘ تقریب حلف برداری کے لیے راشٹرپتی بھون گئے‘ جہاں چار ہزار مہمان مدعو تھے۔ خراب موسم‘ حبس‘ ہجوم اور ناقص حفاظتی انتظام کے طفیل یہ ایک بھدی سی تقریب تھی۔ اس کے بعد وہ صدر پرناب مکھرجی کے عشائیے میں شریک ہوئے۔ اگلے دن وزیر اعظم شاہ جہاں کی تعمیر کردہ شاہی مسجد میں تشریف لے گئے اور اداکار دھرمیندر سے ملاقات کی۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات سے قبل‘ تاج پیلس کے صدارتی سویٹ میں میاں صاحب نے اپنے رفقا کی مشاورت سے‘ وہ نکات مرتب کیے‘ جن پر بھارتی لیڈر سے انہیں بات کرنا تھی۔ پاکستان بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کا آرزومند ہے۔ اسلام آباد‘ بھارت کو سب سے زیادہ پسندیدہ قوم (MFN) کی حیثیت دینے پر آمادہ ہے۔ ممبئی حملوں کا مقدمہ فطری انداز سے جاری ہے۔ بھارت کو سمجھوتہ ایکسپریس پر بھی کارروائی کرنی چاہیے‘ کشمیر‘ سیاچن اور دریائی پانی کے تنازعات بھی طے کیے جائیں۔
اس اثنا میں بھارتی میڈیا پر یہ پروپیگنڈا زور شور سے جاری رہا کہ وزیر اعظم پاکستان تو بھارت سے خوشگوار تعلقات کے خواہش مند ہیں مگر پاک فوج رکاوٹ ہے۔ یہ بھی کہا جاتا رہا کہ اگرچہ پاکستان داخلی بحران کا شکار ہے مگر اب بھی وہ دہشت گردی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ کرن تھاپر کی آواز ان میں سب سے زیادہ بلند تھی اور اس نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم پاکستان‘ دہشت گردی ختم کرنے کے لیے بھارتی تعاون کے آرزومند ہیں۔
ایوان وزیر اعظم کے ایک قابل اعتماد ذریعے کا کہنا ہے کہ دہلی روانگی سے دو دن قبل‘ نریندر مودی کے ذاتی فون پر میاں صاحب نے بھارت کے دورے کی دعوت فوراً قبول کر لی تھی اور یہ کہا کہ اعلان وہ بعد میں کریں گے۔ فقط دکھاوے کے لیے چیف آف آرمی سٹاف اور اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا۔ وزیر اعظم پاکستان نے بھارتی لیڈر سے کہا کہ جامع مذاکرات پر انہیں اصرار نہیں۔ کرن تھاپر کے بقول‘ یہ نریندر مودی کو خوش کرنے کی کوشش تھی۔ یہ بھی کہا کہ کشمیر پر اعلیٰ سطحی مذاکرات کی ضرورت نہیں‘ نچلے درجے کے افسر یہ کام کر سکتے ہیں۔ ایک ذریعے کے مطابق نریندر مودی سے انہوں نے پوچھا کہ کیا افغانستان سے امریکی واپسی کے بعد وہاں بھارت کو کوئی مسئلہ درپیش ہو گا؟ اسی ذریعے کے مطابق یہ بھی ارشاد کیا ''احمد آباد کا قصہ ختم ہو چکا‘ (Over and done) اب اسے بھلا دینا چاہیے‘‘۔
ملک پہ اور بھی مشکل وقت آ پڑا ہے۔ قوم تقسیم در تقسیم اور قیادت ژولیدہ فکر ؎
یہ ہیں نئے لوگوں کے گھر‘ ان کو ہے اس کی کیا خبر
دل بھی کسی کا نام تھا غم بھی کسی کی ذات تھی
تحریک پاکستان یاد آتی ہے‘ قائداعظم یاد آتے ہیں اور دل تڑپتا ہے‘ حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے؟