ابدیت سفر کو ہے ، مسافر کو نہیں ۔ طاقت قانون کی ہے ، افراد کی نہیں ۔ جو کوئی بھی فریبِ نفس کا شکار ہوا، تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالا گیا۔ کبھی کسی کے لیے اصول بدلا ہے ، نہ بدلے گا۔ ایسا لگتاہے کہ سیاسی گردنوں کی ایک اور فصل پک چکی۔
یہ ملک کن عظیم ہستیوں نے بنایا تھا اور کن کے حوالے کر دیا گیا۔ دن رات گریہ کرنے یا خود کو حالات کے حوالے کر دینے کی بجائے ، رک کر سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا جسے اختیارملتاہے ، قوم کے لیے سزا بن جاتاہے ؟
رحمتہ اللعالمینؐ کو اپنی امّت کی جتنی فکر تھی ، اتنی کسی بھی اور چیز کی نہ تھی ۔ دائم اس کے لیے دعائیں کرتے اور دائم اس کے لیے پروردگار سے رعایت مانگتے۔ با ایں ہمہ ، واضح کر دیا کہ اقوام کے عروج و زوال کا پیمانہ کیا ہے۔ فرمایا: تمہارے اعمال ہی تمہارے عمّال ہیں ۔ فرمایا: برائی سے جب روکا نہ جائے گا ، بھلائی کی جب ترغیب نہ دی جائے گی تو بدترین حاکم تم پر مسلّط کر دیے جائیں گے اور وہ تمہیں بدترین ایذا دیں گے۔ تب تمہارے نیک لوگوں کی دعائیں بھی قبول نہ کی جائیں گی ۔نکتہ آشکار ہے کہ فروغ وفلاح فقط زندہ معاشروں کے لیے ہے ۔اقبالؔ ایک نئے جہان کی بشارت تھے؛ چنانچہ یہ کہا ؎
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
اسد اللہ خان غالبؔ ایک مرگ آشنا تہذیب کے نوحہ گر تھے؛چنانچہ ان کا منظوم منظر یہ ہے ؎
پرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
سرکارؐ نے قانون کا پرچم سرفراز کیا ۔فرمایا: وہ اقوام برباد ہوئیں ، جو اپنے کمزوروں کو سز ادیتیں اور طاقتوروں کو معاف کر دیا کرتی تھیں ۔ دو آدمی ہیں اور ان کی اولادکہ بیس کروڑ انسانوں کو مویشیوں کی طرح ہانک رہی ہے۔
ارشاد یہ تھا : میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ابن خطابؓ ہوتے۔ مسندِ اقتدار پر براجمان ، مسجدِ نبویؐ کے منبر پر کھڑے فاروقِ اعظمؓ نے حق مہر مقرر کرنے کا اعلان کیا تو بڑھیا اٹھی اور کہا : جب قرآن کریم نے طے نہ کیا تو آپ کون ہیں ؟ خاتون کی بات سنی تو سرجھکا دیا ''ایک بڑھیا نے عمر کو ہلاک ہونے سے بچا لیا‘‘۔
صوبہ سرحد میں مسلم لیگ کے انتخابات ہونا تھے ۔ قاعدہ یہ تھا کہ پڑوس کے صوبے کا صدر نگرانی کرے گا۔ نواب ممدوٹ پنجاب مسلم لیگ کے سربراہ تھے ۔ پیر صاحب مانکی شریف کی قیادت میں سرحد لیگ کا ایک وفد قائداعظمؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ کہا : ہمارے ہاں شورش بہت ہے ۔ نواب ممدوٹ بہت ہی شریف آدمی ہیں ، یہ ان کے بس کا نہیں ۔ فرمایا: مسلم لیگ کے منشور میں کیا لکھا ہے ؟ پھر ارشاد کیا: کوشش کیجیے گا کہ اگلی بار کوئی غنڈہ پنجاب لیگ کا صدر ہو جائے ۔
"I was Quaid's A.D.C" کے مصنف (رضا ربّانی کے والد) عطا ربّانی نے لکھا ہے : حکم یہ تھا کہ کھانے کی میز پر جتنے مہمان ہوں ، اتنے ہی سیب رکھے جائیں ۔ ایک بار چار کی بجائے پانچ تھے۔ جواب طلبی کا خوف عملے پر طاری رہا۔ عمر بھر بہترین پہناوا پہنا مگر سرکاری رقم سے شب خوابی کا لباس سلوانے کا مرحلہ آیاتوفرمایا: کھدّر۔
قائداعظمؒ کا تو ذکر ہی کیا ، صدر غلام اسحٰق خان کو یاد کرتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے ۔اکلوتے بیٹے کو اجازت نہ تھی کہ سرکاری دفتر سے استفادہ کرے ۔ مشرقِ وسطیٰ کے ریگ زاروں میں ، آئل رِ گ چلانے کی سخت ترین مشقت وہ کرتا رہا ۔ اتنی سخت کہ ہر پندرہ دن کے بعد دو ہفتے کی رخصت دی جاتی ۔ سادگی ایسی کہ جب اس ایوان میں داخل ہوئے تو مہمان نوازی کے اخراجات ایک لاکھ روپے روزانہ تھے ۔ فائل منگوائی اور اس پر لکھا "Not more than one thousand rupees a day" کتنے اعلیٰ مناصب پہ فائز رہے ، اسلام آباد میں ایک پلاٹ تک نہ تھا۔ ناچیز نے پوچھا: پشاورکا گھر آپ نے کب بنایا تھا ۔ 1946ء میں پلاٹ کی خریداری سے لے کر حاشیے پر بنی دکانوں تک ، پوری تفصیل بیان کی۔ کردارکشی کرنے والے شریف خاندان کے بارے میں بارہا پوچھا تو فقط یہ کہا : ان کی اہلیت بھی لوگوں نے دیکھ لی اور دیانت بھی ۔ کوئی ایٹمی سائنس دان ایسا نہ تھا، جس سے ملاقات ہوئی اور اس نے معلومات میں اضافہ نہ کیا۔ کتنی ہی بار مرحوم سے سوال کیا مگر ایک مسلسل خاموشی ۔ بہت اصرار کیاتولہجے میں گداز اترآیا۔ آسمان کی طرف دیکھا اور یہ کہا : کبھی ہم اس کے امین تھے ، آج کچھ اور لوگ اس کے امین ہیں ۔ ایٹمی پروگرام کے خدمت گزار کو داد وصول کرنے کی ذرا سی آرزو بھی نہ تھی ۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان اور میاں محمد نواز شریف ، ہر ایک تحسین کے لیے فریادی رہا مگر وہ مہر بلب۔ بندوں سے نہیں ، وہ اللہ سے اجر کے امیدوار تھے ۔ کل شام سے ناصر کاظمی یاد آرہے ہیں ۔کل شام سے دل دہائی دیتاہے ؎
آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے
اپنے انجام سے بے خبر ، شریف خاندان من مانی پر تلا ہے ۔ سامان سو برس کا ہے ، پل کی خبر نہیں ۔ کاش بھٹو خاندان سے وہ عبرت پاتے ۔ منتقم مزاج مگر قوم پرست ذوالفقار علی بھٹو ، غصیل مگر صداقت شعار بیگم نصرت بھٹو ۔ ضابطہ شکن مگر فہیم بے نظیر ۔ان کے منہ زور لیکن دلاور بھائی۔ ان سب کا کیا ہوا ؟جو کچھ بچ گیا ، وہ حاکم علی زرداری کے فرزند آصف علی زرداری کے ہاتھ میں برف کی طرح پگھل رہا ہے ۔ اللہ اسے زندگی دے ، ایک بیٹی بچ رہی ہے ، صنم بھٹو، اپنے حال پہ آپ ماتم کناں۔ کیا عہدِ رواں کے لیے‘ کیا حکمرانوں کی نئی نسل کے لیے اللہ کے قوانین بدل گئے؟
مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی سے ذاتی تعلقات کی بے تابی ، افغانستان ، قبائلی پٹی اور بلوچستان میں بھارتی سازشوںسے اغماض ۔ دریائی پانی پر خاموشی اور اہلِ کشمیر سے بے وفائی ؎
تری رسوائی کے خونِ شہدا درپے ہے
دامنِ یار‘ خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا
مشکوک میڈیا چینل پر حکومتی طرزِ عمل کا مطلب کیا ہے اور اس کا انجام کیا ؟ قوم نے اسے مسترد کر دیا ۔ وہ اسے اپنا بے وفا سمجھتی ہے ۔ کوئی تاریخ سے لڑ سکتا ہے ، اپنی قوم اور نہ تقدیر سے ۔ اس نائو کا ڈوب جانا مقدر ہے ۔ پیمرا کو ادارے کی بجائے ایک باندی بنانے پر تلی حکومت اگر اس کے ساتھ ڈوبنا چاہتی ہے تو اس کی مرضی۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ افراد اور ادارے پھل پھول سکیں جو قوم کے اجتماعی ضمیر سے متصادم ہوں ۔ غیر ملکی ایجنڈے کی پیروی کرنے والا میڈیا گروپ طالبان سے مختلف نہیں ۔تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ریاست کے اندر ریاست کبھی برقرار نہیں رہتی۔ مہلت ملتی ہے مگر مختصر۔ ایک ہی جائز مطالبہ ہے کہ ملازمین کو بچا لیا جائے۔ اب یہ مالکان کی مرضی کہ وہ اسے بیچ ڈالیں یا ہنر مند اور متوازن مزاج اخبار نویسوں کا ادارتی بورڈ بنا کر سب کچھ اسے سونپ دیں ۔ پرانی پالیسی کے ساتھ اس کی مکمل بحالی ، وطن سے وفا کرنے والوں کی لاشوں پر ہی ممکن ہے ۔
ابدیت سفر کو ہے ، مسافر کو نہیں ۔ طاقت قانون کی ہے ، افراد کی نہیں ۔ جو کوئی بھی فریبِ نفس کا شکار ہوا، تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالا گیا۔ کبھی کسی کے لیے اصول بدلا ہے ، نہ بدلے گا۔ ایسا لگتاہے کہ سیاسی گردنوں کی ایک اور فصل پک چکی۔