"HRC" (space) message & send to 7575

چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

ملکوں اور قوموں کی تعمیر خلوص‘ حکمت‘ تعلیم اور تربیت سے ہوتی ہے۔ شائستہ جماعتوں اور اداروں کی تشکیل سے۔ انقلاب کس چڑیا کا نام ہے۔ پلٹ کر تاریخ میں دیکھو‘ وحشت ہی وحشت‘ خون ہی خون۔ الحذر‘ انقلاب سے سو بار الحذر! 
انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جائو 
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے 
جس وقت یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ ایک اطلاع کے مطابق علامہ طاہر القادری اور شریف خاندان میں ایک محدود مفاہمت کی کوششیں جاری ہیں۔ تصدیق ان میں سے کوئی نہ کرے گا مگر اس قابلِ اعتماد ذریعے کا دعویٰ ہے کہ رانا ثناء اللہ اور ڈاکٹر توقیر شاہ کی برطرفی اسی مفاہمت کی ابتدا تھی۔ علامہ اور شریف خاندان سے ذاتی مراسم رکھنے والے ایک صاحب اس مقصد کے لیے سرگرم ہیں‘ جو ظاہر ہے کہ پس پردہ ہی رہنا پسند کریں گے۔ شریف حکومت کا ہدف یہ ہے کہ شورش پھیل نہ سکے کہ وہ پہلے ہی دبائو کا شکار ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کا مفاد اس میں ہے کہ وہ طاقت اور پذیرائی کا مظاہرہ کر سکیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ معاملہ طے ہوتا ہے یا نہیں۔ ملک کا مفاد بہرحال اسی میں ہے کہ فساد کی آگ بے قابو نہ ہونے پائے۔ شریف حکومت سے نجات کی خواہش میں ملک کو تباہی کے گڑھے میں دھکیل نہ دیا جائے۔ پنجاب حکومت کی مذمت ہو چکی اور وہ اس کی مستحق تھی۔ سوال دوسرا ہے۔ آبِ حیات کی آرزو میں کیا قوم ایک بار پھر سراب در سراب بھٹکتی رہے گی؟ بنی اسرائیل کی طرح جو چالیس برس صحرا کے ہو رہے تھے۔ 
نون حکومت سے اختلاف ہے۔ ان کا خاندانی اور قبائلی طرزِ حکومت۔ خوئے انتقام اور اقتدار میں براجمان رہ کر ذاتی کاروبار کو فروغ دینے کی کوششیں‘ حتیٰ کہ بھارتی صنعت کاروں کی مدد سے۔ آئینی اور قانونی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر‘ ترک اور چینی 
کمپنیوں سے براہ راست معاہدے۔ ایک مشکوک میڈیا گروپ کی سرپرستی اور ابلاغ کے دوسرے اداروں کی سرکوبی کے عزائم۔ یہی نہیں‘ فوج سے بغض و عداوت جو اس وقت واحد قومی ادارہ ہے۔ سول ادارے تعمیر کرنے سے تو کوئی دلچسپی‘ تاجروں کے اس گروہ کو ہرگز نہیں‘ جو نئی نسل کو اقتدار منتقل کرنے کے خواب دیکھتا ہے۔ میڈیا اور عدلیہ کی آزادی کے اس زمانے میں‘ پنجاب میں میاں محمد شہباز شریف کے ساتھ حمزہ شہباز اور مرکز میں میاں محمد نوازشریف کے ساتھ محترمہ مریم نواز۔ ظاہر ہے کہ یہ خواب پورے نہیں ہو سکتے۔ پھر ظاہر ہے کہ یہ اندازِ حکمرانی قوم کو گوارا نہیں۔ دردِ سر کا مطلب مگر یہ تو نہیں کہ سر ہی اڑا دیا جائے۔ شریف حکومت پر دبائو رہنا چاہیے کہ کار سرکار وہ آئین کے مطابق چلائے‘ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کرائے۔ بلدیاتی الیکشن ہوں اور پولیس سمیت شہری ادارے تعمیر کرے‘ جس کی بہیمیت نے ملک کو صدمے سے دوچار کیا۔ 
اپوزیشن کا ایجنڈہ مگر مختلف ہے۔ فقط یہ کہ نون لیگ کی حکومت کو اکھاڑ کر پھینک دیا جائے‘ خواہ ملک اور بھی کمزور ہو جائے‘ خواہ رہی سہی معیشت بھی برباد ہو۔ وزیراعظم کی ٹیم ناقص ہے مگر غنیمت کہ بالآخر دہشت گردی کے خاتمے کی ایک بھرپور مہم شروع ہوئی۔ دلاوروں کا عزم و ہمت‘ جس کی بنیاد ہے۔ عمران خان اور میڈیا کی حمایت کے طفیل جس کی کامیابی کا امکان مزید بڑھا ہے۔ بجلی کی پیداوار بڑھانے کی کوشش بھی جاری ہے۔ عوامی دبائو سے اگر پولیس کے علاوہ سول سروس کی بہتری اور ٹیکس وصولی کے نظام کو بہتر بنایا جا سکے۔ اگر آئندہ الیکشن کو دھاندلی سے پاک رکھنے کی ضمانت حاصل 
ہو جائے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ پیہم ایجی ٹیشن سے‘ حکومت کو گرا دینے سے کیا حاصل‘ جب کہ کوئی متبادل منصوبہ موجود ہی نہیں۔ 
ہر اخبار نویس عسکری قیادت کی حکمت عملی اور ترجیحات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس ناچیز نے گزشتہ چھ برس کے دوران‘ اسی میدان میں دوسروں سے بڑھ کر ریاضت کی۔ کوئی دعویٰ نہیں کہ دعویٰ جہالت اور تکبر کی پیداوار ہوتا ہے۔ مزیدبرآں جنرل حضرات سیاستدانوں کی طرح نہیں ہوتے۔ چودھری شجاعت کو آپ فون کریں اور اگر وہ فارغ ہوں تو شام کی چائے ان کے ساتھ پئیں اور گپ لگائیں۔ با یں ہمہ‘ ان اطلاعات پر مجھے تعجب ہے کہ عسکری قیادت علامہ طاہر القادری‘ عمران خان یا چودھری برادران کی پشت پناہ ہے۔ اگرچہ تازہ فوجی کارروائی کی علانیہ حمایت سے بہتری آئی ہے مگر میں گواہ ہوں کہ عمران خان اور عسکری قیادت کے درمیان اعتماد کا رشتہ کبھی نہیں تھا۔ لاابالی پن کے علاوہ‘ دہشت گردی پر موصوف کا عجیب و غریب موقف اس کی بنیادی وجہ ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک ملاقات میں انہوں نے مجھ سے کہا: تمہاری وجہ سے فلاں جنرل کے بارے میں‘ میں نے حسن ظن سے کام لیا۔ ممتاز اخبار نویس محمود شام اور سیاست کا فہم رکھنے والے درجن بھر افراد موجود تھے۔ ایسی ہی بے تکلفی کے ساتھ میں نے کہا: حضور! جنرلوں سے میرا کون سا مفاد وابستہ تھا اور ا ن سے میں نے اس کے سوا اور کہا کیا کہ وہ سبھی کو یکساں مواقع دیں‘ سبھی کے ساتھ انصاف کریں۔ پھر یہ گزارش بھی کہ: اپنی پارٹی کو لونڈوں لپاڑوں سے اب پاک کرو۔ مستقبل کی منصوبہ بندی کرو۔ ہنگامہ اس قدر نہ ہونا چاہیے کہ مارشل لاء کی راہ ہموار ہو جائے۔ 
اللہ کا شکر ہے کہ جنرل کیانی کے بعد‘ ایک بار پھر ایک ایسا شخص سپہ سالار ہے جو اقتدار کی حرص میں مبتلا نہیں۔ قومی مفادات اور اپنے ادارے کی عزت پر تو وہ کبھی سمجھوتہ نہ کرے گا مگر مارشل لاء نافذ کر کے 'کوس لِمن الملک‘ بجانے کی خواہش اس میں نظر نہیں آتی۔ خوش قسمتی سے میاں محمد نوازشریف کے ساتھ اس کے ذاتی مراسم بھی اچھے ہیں اور شخصی تصادم سے وہ گریز کرنے والا ہے۔ برسبیل تذکرہ یہ بھی کہ گزشتہ ہفتوں میں جنرل راحیل نے اپنا بہت سا وقت جنرل کیانی کے ساتھ گزارا۔ بعض ملاقاتیں پانچ چھ گھنٹے طویل تھیں۔ جنرل کیانی یوں بھی آج کل فوجی نظام کو زیادہ مربوط بنانے کی تجاویز پہ عرق ریزی کر رہے ہیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد مگر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں مشاورت تھی۔ ایک استاد سے مشاورت۔ 
خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں مگر فوج مہم جوئی کی راہ اختیار کرے گی اور نہ شورش پھیلانے کی تائید۔ شریف خاندان ہوش مندی سے کام لے تو آئینی مدت پوری کر سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نوازشریف ہیجان کا شکار ہیں اور ادنیٰ لوگوں سے مشورہ کرتے ہیں۔ تحریک انصاف نے‘ اگر علامہ طاہر القادری کا ہم سفر بننے کا فیصلہ کیا تو وہ خودکشی کا ارتکاب کرے گی۔ ان کا ماضی یہ ہے کہ وہ بلبلے کی طرح ابھرتے اور بلبلے کی طرح پھوٹ جاتے ہیں۔ پھر ان سے امیدیں وابستہ کرنے والوں کا حال وہ ہوتا ہے‘ جو ندی کے پانی کا ہوا تھا ؎ 
مثال ماہیٔ بے آب موج تڑپا کی 
حباب پھوٹ کے روئے جو وہ نہا کے چلے 
ظلم پر احتجاج ہوا اور احتجاج لازم تھا مگر یہ انقلاب کی خرافات کیا ہے؟ قائد انقلاب نے فرمایا: انیس سال امام جلال الدین سیوطی سے میں درس لیتا رہا‘ خواب میں۔ ایک خطاب میں ارشاد کیا‘ عالم رویا میں نو برس میں‘ امام اعظمؒ سے فقہ کی تعلیم پاتا رہا۔ رسول اکرمؐ کی زیارت کا قصہ تو وہ بار بار سنا ہی چکے اور کوئی ہوش مند اس پر اعتبار نہیں کرتا۔ دعویٰ کیا کہ امام مہدی ان کی حمایت کو شرف قبولیت بخش چکے۔ گویا وہ تشریف لائیں گے تو عالی جناب ان کے نائب ہوں گے۔ اللہ کی متلاشی‘ روشن دماغ ایک خاتون نے مجھ سے کہا: علامہ صاحب زبان حال سے یہ کہتے ہیں کہ پہلے تو مجھے ولی اللہ تسلیم کرو‘ پھر میں تم سے بات کروں گا۔ وہ جانیں اور ان کے مرید‘ پاکستانی عوام کے لیڈر وہ ہرگز نہیں‘ انقلاب تو کیا‘ ملک کی وہ معمولی خدمت بھی نہیں کر سکتے۔ وہ اپنی ذات گرامی ہی کے پرستار اور خادم ہیں۔ شعیب بن عزیز کا شعر ہے ؎ 
آئینہ دیکھنے والے ترے قرباں جائوں 
خود ہی سنگھار کیا، خود کہا سبحان اللہ 
ملکوں اور قوموں کی تعمیر خلوص‘ حکمت‘ تعلیم اور تربیت سے ہوتی ہے۔ شائستہ جماعتوں اور اداروں کی تشکیل سے۔ انقلاب کس چڑیا کا نام ہے۔ پلٹ کر تاریخ میں دیکھو‘ وحشت ہی وحشت‘ خون ہی خون۔ الحذر‘ انقلاب سے سو بار الحذر! 
انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جائو 
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں