اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ انسان آزمائے جاتے ہیں۔ بھوک‘ خوف‘ جانوں کے نقصان‘ مال کی تباہی اور باغوں کی بربادی سے۔ خالق ارض و سما پھر یہ دیکھتا ہے کہ آزمائش میں کس نے حسنِ عمل کا مظاہرہ کیا؟ وطن عزیز میں کس نے کیا؟
وزیرستان میں قومی بقا کی جنگ کس حال میں لڑی جا رہی ہے؟ جس طرح قیام پاکستان کا معرکہ سر ہوا۔ آج ویرانی ہے‘ آج کوئی قائد اعظم نہیں‘ ملت جس کے گرد جمع ہو جائے‘ جن کا حیران کن حد تک‘ ہمیشہ واضح رہنے والا ذہن چھوٹے بڑے معاملات پر ایک سی یکسوئی کے ساتھ فیصلہ سازی کا اہل تھا۔
ژولیدہ فکری کے مارے ہوئے اس وقت بھی موجود تھے اور آج بھی۔ اتفاق سے ان میں سے اکثر گروہ اب بھی عرب و عجم کے انہی شیوخ کی فکری اولاد ہیں۔ وہ 75.6 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی مسلم لیگ کے مقابل کانگرس کے حامی تھے۔ خوش قسمتی سے‘ عوام کی اکثریت دہشت گردی کے خلاف ہے؛ چنانچہ میڈیا بھی جو عوامی احساسات کے سمندر میں جیا کرتا ہے۔ مسلح افواج کا ادارہ بہرحال کارفرما ہے‘ سیاچن سے لے کر وزیرستان تک‘ جس کے سپوت‘ جانیں ہتھیلیوں پر رکھے‘ میدانِ کارزار میں ہیں۔ سپہ سالار وہ ہے‘ کور کمانڈر کی حیثیت سے‘ جس نے خود اپنی قیادت کو قائل کیا کہ بیرونی دشمنوں سے زیادہ ملک کو داخلی خطرات لاحق ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ دہشت گردی سے نجات حاصل کیے بغیر‘ سیاسی استحکام نہ ہو گا‘ جس کے بغیر معاشی ارتقا اور آزاد خارجہ پالیسی ممکن نہیں۔ ترجیحات طے کرنے کا سلیقہ رکھنے والی عسکری قیادت اور ترجیحات کے تعین میں الجھائو پیدا کرنے والے سیاستدان۔ ان میں سے بعض اپنے تعصبات کے اسیر ہیں‘ کچھ خوئے انتقام اور بعض اقتدار کی ہوس میں اندھے۔ حکمرانوں کو حالات نے جہاد میں شرکت پر مجبور کر دیا۔ دوسری طرف وہ دشمن ملک سے ایسی تیزی کے ساتھ دوستی کے آرزو مند ہیں‘ تاریخ جس کی کوئی مثال نہیں رکھتی۔ وہ دشمن جو بلوچستان اور قبائلی پٹی میں تخریب کاروں کو اسلحہ اور روپیہ فراہم کرتا ہے۔ افغانستان میں پائوں جما کر‘ دوطرفہ دبائو کے ساتھ اسے بے بس کرنے کی طے شدہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ پاکستانی حکمران ہمیں برطانوی وزیر اعظم اٹیلی کی یاد دلاتے ہیں‘ دوسری عالمگیر جنگ سے قبل‘ پاگل ہٹلر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جو جرمنی گیا۔ اپنی قوم کے حوصلے پست کرنے کا مرتکب ہوا۔
علامہ طاہرالقادری کو غلط بیانی کرتے ہوئے‘ مقدس ترین ہستیوں کے نام لینے میں‘ کبھی تامل نہیں ہوتا‘ قرآن کریم پر حلف اٹھایا کہ شریف خاندان سے انہوں نے کبھی کوئی ذاتی فائدہ حاصل نہیں کیا۔ اس وقت انہوں نے انقلاب کی راگنی چھیڑی ہے‘ دہشت گردی کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ جب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہے۔ اسی پر بس نہیں‘ اس نادر روزگار نے اس وقت فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کی‘ جب وہ گریزاں ہے۔ میڈیا کے محبوب لیڈر‘ ایک فرد پر مشتمل تباہی پھیلانے والے لشکر شیخ رشید بھی اسی کارِ خیر میں مصروف ہیں۔ ان کا فرمان یہ ہے کہ عیدالاضحی سے قبل‘ حکومت قربان ہو جائے گی۔ ایک عامی بھی دیکھ سکتا ہے کہ ڈالر کی قدر سے متعلق‘ ان کے دعوے کی مانند یہ بھی غلط ثابت ہونے والا ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: جس شخص میں حیا نہیں‘ وہ اپنی مرضی کرے۔ یہ وہی صاحب ہیں‘ جو فرمایا کرتے کہ وہ میاں محمد نواز شریف کی تصویر کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں‘ چہ جائیکہ کہ ان کی معرکے سر کرنے والی قیادت۔ اپوزیشن کے سب سے زیادہ فعال لیڈر عمران خان ابھی تک واضح نہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف اعلانِ جنگ ہونا چاہیے تھا یا نہیں۔ کپتان نے یہ حیران کن مطالبہ کیا کہ جنگ ملتوی
کر دی جائے تاکہ عام لوگوں کو علاقہ خالی کرنے میں آسانی رہے۔ کوئی انہیں اطلاع دیتا کہ کرفیو میں ہر روز بارہ گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے اور یہ کہ مہاجرت کرنے والوں کی مقدور بھر دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم نے کہہ دیا کہ ضرورت پڑے تو کھربوں خرچ کیے جا سکتے ہیں۔ غنیمت ہے کہ عارضی مہاجروں کی مدد کے لیے کپتان نے چندے کی مہم شروع کر دی ہے۔ جماعت اسلامی نے مگر ایسا کیوں نہیں کیا‘ خدمتِ خلق کے میدان میں جو ایک قابل فخر ریکارڈ اور تجربے کی حامل ہے۔ علامہ صاحب نے پانچ لاکھ مہاجروں کا بوجھ اٹھانے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ کل تعداد کا نوے فیصد ہے۔ اگر وہ مصر ہوں تو ان کے دعوے پر یقین کر لیا جائے۔ ایک سوال البتہ کانٹے کی طرح دل میں کھٹکتا ہے۔ 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب میں جس شخص نے انگلی تک ہلانے کی زحمت نہ کی‘ اب اتنی بڑی خوش خبری وہ کیوں سناتا ہے؟ شاید اس لیے کہ ایسا کرنے پر کوئی خرچ نہیں اٹھتا‘ کوئی زحمت نہیں کرنی پڑتی۔ اس پر ہمیں‘ اسی میدان میں بالکل دوسری طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے والے مولانا فضل الرحمن یاد آتے ہیں۔ کشمیر اور پختون خوا میں 2005ء کے تباہ کن زلزلے کے ہنگام‘ انہوں نے ٹین کے دس ہزار عارضی گھر تعمیر کرنے کا اعلان کیا تھا‘ جبکہ صوبہ سرحد میں ان کی حکومت تھی۔ بنائے چند سو بھی نہیں۔ ''سوئے اتفاق‘‘ یہ کہ کوئی وعدہ نہ کرنے والے عمران خان نے ٹھیک دس ہزار شیلٹر ہومز تعمیر کر دیے۔ بعدازاں سیلاب کے دوران بھی انہوں نے ایسی ہی خدمات انجام دیں‘ جماعت اسلامی اور جماعت الدعوۃ نے بھی۔ رہی نون لیگ اور پیپلز پارٹی تو یہ ان کا میدان ہی نہیں‘ ان کا کام نعرہ فروشی ہے۔ سیلاب میں شہباز شریف البتہ سرخرو رہے اور 2005ء کے زلزلے میں چودھری پرویز الٰہی‘ زندگی میں پہلی بار جو عملی سیاست کے تقاضوں سے نابلد نظر آتے ہیں۔ کسی نے انہیں کیوں نہیں بتایا کہ جو شخص علامہ طاہرالقادری کی کشتی میں سوار ہو گا‘ وہ ڈوب جائے گا۔ یہ اتنی سادہ سی بات ہے کہ عمران خان بھی جس کا ادراک کرنے میں کامیاب رہے۔ بے شک نفرت اور محبت تجزیہ کرنے نہیں دیتی۔ حکمرانوں کی پہاڑ سی غلطیاں اپنی جگہ مگر کیا یہ بھی لازم ہے کہ اپوزیشن اتنی ہی حماقتوں کی مرتکب ہو۔ یہ سادہ سا اصول ہمارے سیاستدان اکثر بھول جاتے ہیں کہ حالتِ جنگ میں ترجیحات کی ترتیب اسی طرح بدل جاتی ہے‘ جس طرح گھر میں آگ بھڑک اٹھنے کے بعد‘ معمول کے سارے اہم تقاضے‘ وقتی طور پر بے معنی ہو جاتے ہیں۔ سیاستدانوں کا کیسا عجیب ٹولہ ہے۔ فوجی قیادت سے بالکل غیر ضروری طور پر الجھتی رہنے والی حکومت کو فکر ہی نہیں کہ قوم کو متحد کرے اور اپوزیشن کو پروا ہی نہیں کہ آنے والے کل میں قوم کے سامنے وہ ان حماقتوں پر جوابدہ ہو گی‘ آج جن کی وہ مرتکب ہے۔ میاں محمد نواز شریف اور ان کی کچن کیبنٹ کے کیا کہنے‘ جس نے چھ لاکھ افراد کو دفعتاً گھر بار سے محروم کرنے والی جنگ کے آغاز سے قبل‘ متعلقہ صوبے کی حکومت کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔
میڈیا کا کردار بے شک مثبت ہے مگر اس کے پتنگ اڑانے والے ایک صاحب نے نکتہ اٹھایا ہے کہ ہجرت کرنے والوں کے ساتھ دہشت گرد بھی تو نکل بھاگے ہوں گے۔ حضور ان کے خطرناک ٹھکانوں کے گرد‘ فوج نے گھیرا ڈال رکھا ہے۔ جو کمزور اور منتشر ہیں‘ ان کے بھاگ جانے پہ فوج کو ہرگز کوئی اعتراض نہیں‘ بس یہ کہ وہ واپس نہ آئیں۔ جنگ مردم شماری کی مانند نہیں ہوتی کہ سو فیصد افراد کے ٹھکانے اور حسب و نسب متعین کیا جائے۔ ایک اور دانشور نے لکھا ہے: ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا تعین کس طرح کیا جاتا ہے۔ اگر وہ ماہرین سے پوچھنے کی زحمت کرتے تو جان لیتے کہ وائرلیس پر حریف کے پیغامات نقل کرنے والے تعین کرتے ہیں۔
پہلی بار دہشت گرد خوف زدہ ہونے لگے۔ ان میں سے کچھ نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور اندازہ ہے کہ مزید ڈالیں گے۔ فتح و شکست کا انحصار اسی پر ہوتا ہے کہ ظفرمندی کا عزم کس میں برقرار ہے اور خوف زدہ کون۔ یہ جنگ انشاء اللہ جیت لی جائے گی‘ سیاسی قیادت مگر ہار گئی ہے۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے کہ انسان آزمائے جاتے ہیں۔ بھوک‘ خوف‘ جانوں کے نقصان‘ مال کی تباہی اور باغوں کی بربادی سے۔ خالق ارض و سما پھر یہ دیکھتا ہے کہ آزمائش میں کس نے حسنِ عمل کا مظاہرہ کیا؟ وطن عزیز میں کس نے کیا؟
پسِ تحریر: (1) چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے بتایا ہے کہ حال ہی میں جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ان کی کوئی طویل ملاقات نہیں ہوئی۔ جی ہاں۔ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ ملاقاتیں کئی ماہ پہلے ہوئی تھیں‘ جن میں دوسرے عنوانات کے علاوہ وزیرستان پر بھی بات ہوئی۔
(2) اب جبکہ ہجرت کرنے والے وزیرستانی بھائیوں کے لیے حکومت نے مزید رقوم مختص کی ہیں۔ اب جبکہ کراچی سے بنوں تک پوری قوم آمادۂ ایثار ہے‘ کیا دہشت گردوں کے حامی ان فرقہ پرستوں اور لسانی عصبیت فروشوں کو قوم سے معافی نہ مانگنی چاہیے‘ جو حیلے بہانے سے پنجاب کو گالی دے رہے تھے۔ چھوٹے صوبوں کے حقوق بالکل برحق‘ مگر وہ دشنام سے حاصل نہ ہوں گے۔